پاکستان نے بھارتی سربراہی میں ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغان نمائندے کی پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی مذمت کی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چودھری نے کہا کہ سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کے لیے استعمال کیا گیا۔ پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل کے صدر کے نام خط میں احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے کہا ہے کہ افغان نمائندے کے الزامات کا جواب دینے سے محروم رکھ کر پاکستان کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔سلامتی کونسل اقوام متحدہ کے پانچ بنیادی اداروں میں سے ایک اور سب سے طاقتور ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ کسی مسلح تنازع کے لیے امن دستوں کی تعیناتی‘ کسی ریاست پر تجارتی ،مالیاتی یا دفاعی پابندیاں لگانا اور ہٹانا‘ سلامتی کونسل کی ہدایات کو نظر انداز کر کے بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ بننے والی ریاست کے خلاف جنگ جوئی جیسے فیصلے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اور 10 غیر مستقل اراکین کے اکثریتی ووٹ سے ہوتے ہیں۔ بھارت دو سال کے لیے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے۔ سلامتی کونسل کے ضابطے کے تحت ہر ماہ صدر کا عہدہ کسی دوسرے ملک کو تفویض کر دیا جاتا ہے۔ یوں پورا سال سلامتی کونسل کے صدور ماہانہ بنیاد پر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان اس امر کا احترام کرتا ہے کہ بھارت سلامتی کونسل کا صدر ہے۔ یہ پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی ضابطوں کی پابندی اور احسن طرز عمل کی علامت ہے۔ سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالتے ہی بھارتی مندوب کو کئی طرح کے اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ بطور صدر ان کا استحقاق ہے کہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر جو نکات لائے جا رہے ہوں وہ ان کی منظوری دیں۔ اگرچہ انہیں سیکرٹری جنرل کی جانب سے سفارشات ملتی ہیں لیکن حتمی ایجنڈا ترتیب دینے میں صدر بااختیار ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل کا صدر اگر چاہے کہ کوئی خاص معاملہ ایجنڈے میں شامل نہ کیا جائے تو وہ ایسا کرنے کا قانونی اختیار رکھتا ہے لیکن بین الاقوامی سفارتی و سیاسی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے سلامتی کونسل کا صدر خود کو اپنے وطن کی سیاست اور تنازعات میں غیر جانبدار رکھتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت کے مندوب اپنے منصب کے پہلے ہفتے میں ہی جانبدار طرز عمل کا شکار دکھائی دینے لگے ہیں۔سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں افغان نمائندے نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ ان کے ملک میں بدامنی پھیلانے کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ افغان نمائندے نے پاکستان پر طالبان کی مدد کا الزام بھی عائد کیا۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کے صدر کو خط لکھا کہ اسے کونسل کے اجلاس میں شریک ہونے اور افغان نمائندے کے الزامات کا جواب دینے کا موقع دیا جائے۔ پاکستان نے اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دینے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ اقوام متحدہ کے اصولوں اور روایات کے عین مطابق تھا لیکن سلامتی کونسل کے صدر بھارتی نمائندے نے اس درخواست کو مسترد کر کے افغانستان کو موقع دیا کہ وہ پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور یکطرفہ الزامات کا سلسلہ جاری رکھے۔ یقینا سلامتی کونسل کی کارروائی میں دلچسپی رکھنے والے بین الاقوامی حلقوں تک یکطرفہ موقف پہنچنے سے پاکستان کی ساکھ اور حیثیت کے متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے جس کی ذمہ داری سلامی کونسل کے صدر پر عائد کی جا سکتی ہے جنہوں نے جان بوجھ کر ایک اہم عالمی ادارے کو پاکستان جیسے امن پسند ملک کے خلاف پروپیگنڈا کا ذریعہ بنایا۔ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے بھاری قربانی دی ہے۔ سوویت یونین سے بچانے کے لیے پاکستان نے ہر طرح سے افغان عوام کی مدد کی۔ امریکہ نے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ مسلط کی تو صرف پاکستان ایک ایسا ملک تھا جسکو امداد کی بندش اور کئی طرح کے مالیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت بھارت نے افغانستان پر حملہ آور امریکہ کا ساتھ دیا۔ بھارتی ہوا باز افغان شہریوں پر بمباری کرتے رہے۔ بھارت نے جنگ سے تباہ حال افغانستان کے تعلقات ہمسایہ ملک پاکستان سے خراب کرنے کے لیے مذموم منصوبہ بندی کی۔ بھارت نے اپنے قونصل خانوں کے ذریعے پاکسستان میں تخریبی کارروائیاں شروع کیں۔ افغانستان کے عوام کو نظر انداز کر کے امریکہ نے پہلے حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کو صدر بنوایا۔ یہ دونوں حضرات افغان عوام کی نمائندگی نہیں کرتے اس لیے آج تک افغانستان میں مناسب ساکھ کا حامل انتخابی نظام تشکیل نہ دیا جا سکا۔ افغان عوام کی حمایت سے محروم اور غیر منتخب حکومت کے نمائندے دانستہ طور پر پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کر رہے۔ امریکی انخلا کے بعد عوامی حمایت سے محروم افغان حکومت کابل اور چند گنتی کے علاقوں تک محدود رہ گئی ہے باقی تمام علاقوں پر طالبان قابض ہو چکے ہیں۔ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا انتظام کیا۔ امریکہ کو محفوظ راستہ دلایا‘ طالبان کو قائل کیا کہ وہ افغان حکومت اور دیگر گروپوں سے انٹرا افغان مذاکرات کریں۔ یاد رہے کہ یہ سب وہ خدمات ہیں جو اشرف غنی حکومت اور اس کے بین الاقوامی حامی انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پاکستان یہ کردار ادا نہ کرتا تو افغانستان اب تک غیر ملکی افواج کا میدان جنگ ہوتا۔ بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے افغانستان میں طالبان کی شکل میں پاکستان نواز قوتیں مضبوط ہونے کا خوف ہے۔ یہ خوف اسے اس قدر مضطرب کئے ہوئے ہے کہ وہ اپنی ذمہ دارانہ حیثیت کو دائو پر لگانے پرتیار ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین اور سیکرٹری جنرل کو پاکستان کا موقف ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے اور ایسا سدباب کرنا ہوگا کہ بھارت سلامتی کونسل میں اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاکر پاکستان کو نقصان نہ پہنچا سکے۔