انیس سو ستر کی دہائی مجھے اپنی زندگی کا خوبصورت ترین دور لگتا ہے۔ آج کچھ ناسٹیلجیا ہوجائے۔ اس بات کو نصف صدی گزر گئی ۔ میرے گھر کے بزرگ ‘داد ا‘ والد ‘ چچا ‘ پھوپھیاں‘سب اخبار بینی اور ریڈیو سننے کے شوقین تھے۔ گھر میں سیاست پربحث مباحثہ عام تھا۔ کم سنی سے ہی حالات ِحاظرہ کی لت پڑ گئی جو آج تک قائم ہے۔بچپن کی باتیںزیادہ اچھی طرح یاد ہیں۔تازہ واقعات جلد بھول جاتے ہیں۔ انیس ستّر کے الیکشن کے وقت میری عمر چار برس تھی۔ یاد ہے کہ میری والدہ کالا برقع اوڑھ کر ووٹ ڈالنے گئیں ۔خاصی دیر بعد پانپتی کانپتی آئیں۔والد نے پوچھا ووٹ ڈال آئیں۔ کہنے لگی ’ہاں۔‘ مجھے یوںلگا جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ’ بورڈ ‘ڈال دیا۔ میرے گھر میں ایک بلیک بورڈ تھا جس پر امّی ٹیوشن کے بچوں کوچاک سے لکھ کر پڑھایا کرتی تھیں۔ میں نے سمجھا وہ بورڈ کہیں ڈالا جاتا ہے۔ یہ بھی یاد ہے کہ ایک الصبح ابّوامروز اخبار لائے۔ کسی نے پوچھا ’ـکون جیتا۔‘ ابو نے کہا‘وہی بھٹو۔‘یہ انیس سو ستّر کے الیکشن کا نتیجہ تھا۔ اکہتر کی جنگ بھی کچھ کچھ یاد ہے۔شام سے بلیک آوٹ ہوتا تھا۔ ایک صاحب بائیسیکل پر گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے۔ یہ دیکھنے کو کہ کسی گھر میں لائٹ تو نہیں جل رہی۔ روشنی چھن کر باہر تو نہیںآرہی۔ہمارے اندرون شہر کے پرانے گھر میں لکڑی کے دروازوں میں درزیں تھیں۔ انہیں گتے کی پٹییوں سے کیلیں لگا کر بند کیا گیا تاکہ کمرہ کی روشنی صحن میں نہ پہنچے۔ سب لوگ ریڈیو پاکستان سنا کرتے تھے۔ ریڈیو ہر وقت آن رہتا۔ کبھی کبھی بنگلہ نشریات ٹیون ہوجاتی تھیں۔ بچے بنگالی زبان سُن کر خوب ہنستے تھے۔ ہمارے لیے عجیب جو تھی۔ ہم مزے کے لیے بار بار بنگالی نشریات کا چینل ٹیون کردیتے ۔ بڑے ناراض ہوتے اور اردو نشریات لگادیتے تھے۔اکثر ملی نغمے نشر ہوتے ۔مجھے ایک گیت پسند تھا۔ شائد اس قسم کے بول تھے: ’ویکھو جی ویکھو ساڈھے پہلوانـ۔‘ سقوط ڈھاکہ کا دن یاد نہیں۔ یہ یاد ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ ہتھیار ڈالنا کوئی بڑا جنگی ہتھیار اور چال ہوتی ہے۔ ایک دن میرے ایک عزیز نے پوچھا کہ تم کو اگر دشمن چاروں طرف سے گھیر لے تو تم کیا کرو گے۔ میں فوراً بہادری سے بولا۔’ہتھیار ڈال دوںگا۔‘ ارد گرد موجود سب لوگ خوب ہنسے ۔ ‘ میں حیران تھا کہ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔ بڑے ہو کر سمجھ آئی کہ بات کا اصل مطلب کیا ہے۔ سنہ اکہتر میں گھر والوں کے ساتھ ٹرین میں کراچی کا سفر یادگار تھا۔ریل گاڑی کے کھلے ڈلے آرام دہ ڈبے۔کراچی ایک نئی دنیا تھی۔نارتھ ناظم آباد کی کشادہ سڑک نما‘ صاف ستھری گلیاں ۔ گھروں میں جا بجا درخت۔ شریفے اور بادام کے پیڑ۔صدر میں سکرٹ پہنے لڑکیاں ۔ ٹرام کا سفر۔ ہر چیز لاہور سے منفرد ۔آج کا کراچی پچاس برس پہلے کے شہر سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا۔ یہی حال لاہور کا ہے۔ اصل لاہور فوت ہوچکا ہے۔ اب یہ کوئی نیا شہر ہے جو پرانے نام کو استعمال کررہا ہے۔جہاں جا بجا درخت تھے اب ٹریفک کا بے ہنگم ہجوم ہے ۔ دم گھوٹ دینے والا دھواں ہے۔ اندرون شہر میں سارے مکان پرانے ‘ چھوٹی اینٹ کے بنے ہوئے تھے۔ان میں لکڑی کی خوب صورت کھڑکیاں‘ جھروکے ہوا کرتے تھے۔اب ان کی جگہ سیمنٹ سریے کی بدنما عمارتیںکھڑی ہیں۔مال روڈ کے جن ریستورانوں میں ادب و دانش کی محفلیں سجتی تھیں وہاں چرغے اور بریانی کی دکانیںآگئی ہیں۔ میں نے والدین کے ساتھ سینماوں میں کتنی ہی فلمیں دیکھیں۔ گھر کے سب مرد اورعورتیںمل کر فلم دیکھنے جاتے تھے۔ ہم بچے اکثر فلم کے دوران میں سو جاتے لیکن سینما جانے کا شوق بے حد تھا۔ بھٹو صاحب کی حکومت تھی اوراداکاررنگیلا کی فلموں کا زور تھا۔ بعد میں میرے ساتھی براڈ کاسٹر عارف وقار نے بتایا کہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ بھٹو صاحب اور رنگیلا کا عرو ج اور زوّال ایک ساتھ ہوا۔پی ٹی وی کا ایک ٹیلی ویژن چینل تھا۔ اسکی نشریات سہہ پہر کو شروع ہوتی تھیں۔ رات دس گیارہ بجے بند ہوجاتیں۔ ریڈیو کے گانے گھروں‘ دکانوں میں لگے رہتے تھے۔ پاکستان ریڈیو کے ساتھ ساتھ آل انڈیا ریڈیو بہت سنا جاتا تھا۔ ٹیپ ریکارڈر کا رواج ستر کی دہائی کے اواخر میںعام ہوا۔ لوگ عرب ملکوں میں جانے لگے۔ وہاں سے کمائی کرکے گھر چھٹی پر آنیوالے اپنے ساتھ ٹیپ ریکارڈر ‘ سٹیریو‘ ڈیک وغیرہ لانے لگے۔ موٹر سائیکل کا استعمال بڑھنے لگا۔ پ پہلے بائیسکل عام تھی۔ لاہور میں سرکاری ٹرانسپورٹ کی لال رنگ کی بسیں چلتی تھیں۔دو منزلہ ڈبل ڈیکر بسیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ رشتے داروں سے میل جول کا بہت چلن تھا۔ بغیر اطلاع دیے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ ایک دوسرے سے ملنا جلناہی بڑی تفریح تھی۔ لال شربت سے تواضع اچھی مہمان نوازی سمجھی جاتی تھی۔سوڈا بوتل‘ سافٹ ڈرنک بڑی تواضع کے ضمن میں آتے تھے۔ ہم اسکول جاتے تو پراٹھا ور آملیٹ اچھا لنچ سمجھا جاتا تھا۔ آٹھ آنے اور ایک روپیہ شاندار پاکٹ منی۔میرے بچے یہ بات سن کر ہنستے ہیں۔ ستر کی دہائی سیاسی طور سے ہنگامہ خیزی کا دور تھا۔ سیاسی مخالفوں کے درمیان جو طوفان بدتمیزی آج ہے وہ اُس وقت بھی تھا۔ شاید زیادہ تھا۔ ایسی شرمناک باتیں جو دوہرائی نہیں جاسکتیں۔ لوگ بھٹو اور بھٹو مخالف گروہوں میں تقسیم تھے۔ میرے گھر میں بھی یہ تقسیم تھی۔ ہر وقت بحث مباحثہ رہتا تھا جو اکثر تلخ ہوجاتا۔ دلائل سے زیادہ جذباتی باتیں ہوتی تھیں۔انیس سو ستتر کے الیکشن بھی ہنگامہ خیز تھے۔ بھٹو صاحب کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک چلی۔ اسے نظام مصطفی کا نام دیاگیا۔ خوب ہنگامے ہوئے۔ کرفیو لگا۔ پہلے جزوی مارشل لا لگا۔ پھر ایک دن جنرل ضیاء الحق آگئے۔بھٹو صاحب پر ایک الزام تھا کہ انہوں نے امریکی ڈالر کے مقابلہ میںروپے کی قدر میں بہت کمی کردی اور ان کے دور میں بہت مہنگائی ہوگئی ہے۔ قومی اتحاد کے رہنما جلسوں میںوعدہ کیا کرتے تھے کہ وہ حکومت میں آکرچیزوں کے نرخ انیس سو ستّر کی سطح پر واپس لائیں گے۔آج وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن یہی الزام لگا رہی ہے کہ روپے کی قدر میںکمی کردی اور بہت مہنگائی ہوگئی ہے۔ دائرہ کا سفر ہے۔ ٭٭٭٭٭