بین الا قوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے تازہ ترین سروے میں پاکستانی عوام کی اکثریت نے کہا ہے کہ پولیس اور عدلیہ میں سب سے زیادہ کرپشن ہے۔ دیگر سرکاری محکموں کا درجہ ان کے بعد آتا ہے۔پولیس اور عدلیہ وہ حکومتی ادارے ہیںجن سے عوام کا سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ چھوٹے‘ بڑے جرائم کے خلاف یا اُن میں ملوث ہونے کی وجہ سے پولیس سے رابطہ میں آتے ہیں ۔ پولیس کی بدنامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ صرف رشوت خوری نہیں بلکہ عام لوگوں پر ظلم بھی کرتی ہے۔اسی طرح لاکھوں سائلین اپنے تنازعات کے تصفیہ کے لیے عدالتوں کا رُ خ کرتے ہیں۔مالی بددیانتی دیگر سرکاری محکموں میں پولیس اور عدلیہ سے زیادہ ہے لیکن ان سے نسبتاً کم لوگوں کا واسطہ پڑتا ہے۔مثلاً ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ ایف بی آر جتنا ٹیکس ہر سال جمع کرتا ہے اس کا کم سے کم ایک چوتھائی حصّہ اسکے افسران اور اہلکار رشوت کے طور پر کاروباری افراد سے وصول کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر جتنا مال ایف بی آر کے ملازمین کرپشن سے بناتے ہیں اسکی مالیت پولیس کے عملہ کی رشوت خوری سے زیادہ ہے۔ عدلیہ سے لوگ اس لیے تنگ ہیں کہ وہاں مقدمات کے فیصلے دس دس بیس بیس برسوں تک نہیںہوتے۔ نچلی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں پانچ سے چھ برس بعد سننی شروع کی جاتی ہیں۔ سفید پوش آدمی عدالت جانے کی غلطی کرلے یا مجبور ہوجائے تو اسکا حشر نشر ہوجاتا ہے۔ دیوانی مقدمہ آدمی کو دیوانہ بنادیتا ہے۔ رشوت خوری‘ کمیشن خوری کی جڑیں دُور دُور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کرپشن تو چھوٹا لفظ ہے۔ ملک میں لُوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ کرپشن میں سرکاری منصوبہ کی مجموعی مختص رقم کا ایک دو فیصد رشوت کے طور پر کھایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کمیشن‘ رشوت بیس تیس فیصد تک چلی گئی ہے۔ عوامی پیسے میںمالی خرد برد کا ایک بڑا شعبہ ترقیاتی کام اور ٹھیکیداری نظام ہیں۔اگر کسی سرکاری تعمیر مثلاً سڑک بنانے کا منصوبہ ہے تو چند ٹھیکیدار مل کر پُول کرتے ہیں۔ چیف انجینئرنے جس ٹھیکیدار کومنصوبہ بنانے کے لیے دینا ہوتا ہے وہ اس سے پراجیکٹ کے مجموعی بجٹ کا پانچ فیصد رشوت کے طور پر پیشگی وصول کرتا ہے۔ اس کے بعد چند ٹھیکیدار اپنے اپنے ٹینڈر ایسے جمع کرواتے ہیںکہ طے شدہ کنٹریکٹر کی بولی سب سے کم ہو۔ یوں اُسے کنٹریکٹ مل جاتا ہے۔ اگلا ٹھیکہ اس گروپ کے کسی دوسرے رُکن کودے دیا جاتا ہے۔ سرکاری تعمیر ات کا جو کام تقریبا منصوبہ کے ڈیزائن اور معیار کے مطابق مکمل کرلیا جائے اس میں تیس فیصد رقم رشوت کی مد میں کھائی جاتی ہے۔ یعنی اس کی لاگت اتنی زیادہ رکھی جاتی ہے کہ سب کو اپنا اپنا حصہّ مل جائے۔ ملک کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں منصوبہ کے لیے مختص بجٹ کی آدھی رقم کھا لی جاتی ہے۔ یہی حال فرنیچر ‘ اسٹیشنری‘ ہسپتالوں کی ادویات‘ مشینری اور دیگر ساز و سامان کی خریداری کا ہے جس کا بیشتر حصہ مال سپلائی کرنے والا اور سرکاری افسران ہڑپ کرجاتے ہیں۔ ملک پر ٹھیکیداروں کا راج ہے۔ جب کوئی الیکشن ہوتا ہے یہ ٹھیکیدار ہر بڑی سیاسی پارٹی کے امیدوار کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ دونوں بڑے امیدواروں کو انکی الیکشن مہم کے لیے رقم دیتے ہیں۔ مقصد ہوتا ہے جو بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بنے گا وہ ان کو ٹھیکے لینے اور بعد میں حکومتی اداروں سے بل کلئیر کروانے میں مددفراہم کرے گا۔ مالی بدیانتی کا معاملہ صرف سرکاری اداروں تک محدود نہیں۔ نجی شعبہ میںحکومتی محکموں سے کم کرپشن نہیں۔ ہاوسنگ سوسائٹیاں عام لوگوں کے کھربوں روپے کھا چکی ہیں۔ ان کے پاس زمین کم ہوتی ہے لیکن فائلوں کی صورت میں پلاٹ زیادہ بیچ ڈالتے ہیں۔ نجی شعبہ میں ٹیکس چوری عام ہے۔ کاروباری افرادیا تو بالکل ٹیکس نہیں دیتے یا جتنا دینا چاہیے اسکا نصف اور بعض صورتوں میںاس کا ایک چوتھائی ادا کرتے ہیں۔ ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی‘ گھٹیا مال بیچنا ‘گراں فروشی اس کے سوا ہیں۔ بیرونی تجارت میں اوورا نوائسنگ اور انڈر انواسنگ سے قومی خزانہ کو سالانہ کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین سے کرپشن کی بات کرو تو وہ نجی شعبہ پر الزام لگانا شروع کردیتے ہیں۔ کاروباری افراد سارا ملبہ حکومت پر ڈالتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی اس کام میں ملوث ہیں۔ میڈیا کا ایک حصہ بھی اس لعنت سے پاک نہیں۔کرپشن ختم کرنے کے وفاقی اور صوبائی سرکاری محکمے نیب اور اینٹی کرپشن کے متعدد افسران خود رشوت خوری میں ملوث ہیں۔قانونی نظام ایسا ہے کہ اچھے وکیل ٹیکنیکل نکات پر ملزم کو چھڑوا کر لے جاتے ہیں ۔ حکومتی سطح پر کرپشن کو ختم کرنے کی تمام کوششیں مکمل نہیں تو بڑی حد تک ناکام ہوچکی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ملک کی حکمران اشرافیہ کرپشن کے اس نظام کو ختم کرنے کی کوشش کیوں کرے جبکہ وہ خود اسکا فائدہ اٹھارہی ہے۔ خمیازہ تو عوام بھگت رہے ہیں جو بے اختیار ہیں۔ جس لیڈر کو کرپشن ختم کرنے کے لیے منتخب کیا تھا وہ نظام کا مقابلہ نہیں کرسکا اور حکومت کی بھول بھلیّوں میں گم ہوگیا۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بددیانتی محض انتظامی معاملہ نہیں بلکہ پیچیدہ اخلاقی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ معاشرہ نے مالی بددیانتی کو برائی اور گناہ تصور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ عزت دار وہ شخص ہے جس کے پاس حلال یا حرام کا مال ہے۔ بڑی گاڑی‘ بنگلہ اور نوکرچاکر ہیں۔لائف اسٹائل پُر تعیش ہے۔ ایسے ماحو ل میں ہر شخص وہی چیز(دولت) حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے معاشرہ جسے قدر کی نظر سے دیکھے۔ یوں بھی ہم نے معیشت میں سرمایہ داری نظام اختیار کیا ہے جس میں زیادہ خرچ کرنے اور مادیت پرستی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لوگوں کے اخلاق میں بنیادی تبدیلی نہیں آتی ہماری کرپشن سے جان چھوٹنے والی نہیں۔ جب لوگ کسی شخص کی عزت اسکی دولت کی بجائے اسکے اچھے اخلاق کی وجہ سے کریں گے تو با اخلاق ہونے کو ترجیح دی جائے گی۔ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے اچھے قوانین اور اداروں کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔تعلیمی اداروں اور مساجد میں لوگوں کو دیانت داری کی تلقین کی جائے۔انہیں حرام و حلال کا فرق واضح کیا جائے ۔ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوگا۔ اسکے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑے گی۔