عالمی بنک کے تعاون سے ٹیکس اصلاحات کا جامع منصوبہ تیار کر لیا گیاہے۔ اس منصوبے کے تحت 10شعبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ منصوبے میں اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ 2024ء تک پاکستان میں ٹیکس محاصل کو قومی جی ڈی پی کے 17فیصد تک لایا جا سکے۔ اس منصوبے پر آئندہ پانچ برسوں کے دوران عملدرآمد کے لئے عالمی بنک 400ملین ڈالر کی معاونت فراہم کرے گا۔ اصلاحات کا یہ منصوبہ دسمبر 2018ء سے کام کرنے والے مختلف ورکنگ گروپوں کی سفارشات کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیاہے۔ ٹیکس کی بنیادوں کو مستحکم رکھنے کے لئے منصوبے میں نظام کی بہتری پر توجہ دی گئی ہے۔ ادارہ جاتی ڈھانچے ‘ ٹیکس جمع کرنے کے طریقہ کار‘ افرادی قوت اور ٹیکس قوانین کا تفصیلی تجزیہ کر کے یہ سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔ اصلاحاتی پروگرام پر عملدرآمد سے قبل ایف بی آر معاملات کو ہموار کرنے کا کام شروع کر چکا ہے۔ ٹیکس نوٹس کا اجرائ‘ آف شور ڈیٹا کی پڑتال کے لئے آپریشنل یونٹوں کا قیام‘ سوئٹزر لینڈ کے ساتھ ڈبل ٹیکس معاہدے کے نوٹیفکیشن پر نظرثانی‘کرنسی ڈکلیر سسٹم کا قیام، ایڈوانس پسنجر سسٹم کا آغاز‘ فیلڈ انفارمیشن کی ترتیب کا نظام‘ شکایات کے مکمل ازالے کا نظام‘ ٹیکسٹائل اور چمڑے کے چھوٹے کاروبار کی نگرانی جیسے بہت سے نکات اس اصلاحاتی منصوبے میں شامل ہیں۔ یہ بات کسی شک و شبہ سے بالا ہو کر کہی جا سکتی ہے کہ اپنے قیام سے لے اب تک ایف بی آر کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی۔ سارا ملک جس بدعنوانی سے عاجز آیا ہوا ہے ایف بی آر میں وہ اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ ٹیکس گزاروں کو جھوٹے نوٹس بھیجنا اور پھر ان سے آدھی رقم پر معاملات طے کرنا معمول کا عمل ہے۔ ٹیکس افسران اور اہلکاروں کی آمدنی اور اثاثوں کا آڈٹ کرایا جائے تو معلوم ہو گا کہ لوگ اس محکمہ میں بھرتی ہونے کے لئے رشوت اور سفارش کا بے دریغ استعمال کیوں کرتے ہیں۔ جو پیسہ سرکاری خزانے میں جانا چاہیے اس کا بڑا حصہ سرکاری اہلکاروں کی جیب میں چلا جاتاہے۔ یہ لوگ اپنے ماں باپ ‘ بہن بھائیوں اور عزیزوں کے نام پر بیرون ملک اثاثے بناتے ہیں اور کالی دولت بیرون ملک منتقل کر کے دھن کو سفید کرتے ہیں۔ ٹیکس اصلاحات کے متعلق جب بھی بات ہوئی ان چیزوں کو اہمیت دی گئی جو ریکارڈ اور سسٹم کے متعلق تھیں۔ اس ریکارڈ اور سسٹم کو جن لوگوں نے چلانا ہے ان کی دیانت داری کے بغیر اصلاح احوال کی کوئی کاوش جڑ پکڑتی نظر نہیں آتی۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ سیاسی اور فوجی حکومتیں معاشی بہتری کی باتیں کرتی رہیں مگر اس سلسلے میں ان کی عملی کوشش دکھائی نہیں دیتیں۔ سابق حکومتوں نے سرمایہ کاری میں اضافہ، شرح نمو بڑھانے اور ٹیکس کا دائرہ اور حجم بڑھانے کے لئے سنجیدہ اقدامات سے ہمیشہ پہلو تہی کی۔ دنیا کے وہ ممالک جہاں کا ٹیکس نظام مثالی سمجھا جاتا ہے وہاں ٹیکس دستاویزات پیچیدہ اور دقیق نہیں بلکہ انتہائی سادہ اور عام فہم ہیں۔ دستاویزات کو مشکل بنانے کا مقصد ٹیکس گزاروں کو ٹیکس نیٹ سے بیزارکرنا اور اپنے معاملات بالا بالا طے کرنے کی راہ دکھانا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سابق حکومتوں کی بداعمالیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ بوجھ اس کی اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کی رفتار سست کر رہا ہے مگریہ ایک موقع ہے جسے بہترین طریقے سے استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان پاکستان کے دیرینہ معاشی و مالیاتی مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔ کاروباری اور ٹیکس دستاویزات سادہ بنانے کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ اشیاء کی پیداواری لاگت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہوئی ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے نقطہ نظر سے یہ مشکل مرحلہ ہے لیکن برآمد ہونے والی اشیا کی پیداواربڑھا کر اس مشکل سے کسی حد تک نبردآزما ہوا جا سکتا ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ کے پاس سرمایہ کاری بڑھانے کی چند مخصوص تجاویز ہوتی ہیں۔ ان تجاویز کو ترتیب دیتے وقت ہمیشہ یہ خیال رکھا جاتاہے کہ مالیاتی فیصلوں کا بوجھ عام شہری کو منتقل کر دیا جائے۔ بالائی طبقے کی مراعات بحال رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض ماہرین کی اس رائے سے اختلاف ممکن نہیں کہ ایک ایسا نظام جو ریاست کو کمزور کرتا ہو۔ جو کاروبار دشمن ہو۔ جس کی صلاحیت پر شک ہو۔ جس میں وقت ضائع ہوتا ہو۔ جس کے تحت ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہو مگر محصولات کا حجم کم ہو وہ نظام آخر کیوں جاری رکھا جائے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں ٹیکس اصلاحات پر پہلے بھی کام ہوتا رہاہے۔ پرویز مشرف کے زمانے میں بھی عالمی بنک کے تعاون سے اس طرح کا ایک منصوبہ لایا گیا۔اس کے فوائد بھی ملے مگر پھر حکومتیں سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوتی گئیں اور ٹیکس اصلاحات پر کسی کی توجہ نہ رہی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شہریوں کو ایسا ٹیکس نظام دیا جائے جو سادہ ہو اور جس کا انتظام سادہ ہو۔ مرکز اورصوبوں کے پاس اس وقت نہ تو اعداد و شمار کا ڈیٹا ترتیب دینے والے ماہر افراد ہیں نہ ہی ٹیکس کے جدید تصورات سے واقف اہلکار۔ ٹیکس قوانین کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے۔ یہ قوانین اگرچہ ریاست اور فرد کے مفادات کا یکساں تحفظ کرتے ہیں مگر بظاہر ان سے فائدہ اٹھانے میں ریاست ناکام جبکہ ٹیکس سے بچنے والے مستفید ہو رہے ہیں۔ چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ ایف بی آر کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں اس کے اہلکار حکومتی فیصلوں میں رکاوٹ بنتے ہیں اور اس محکمے نے کام نہ کیا تو ایک نیا محکمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی بجا ہے کہ مالیاتی مسائل میں الجھی حکومت نے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لیتے وقت ٹیکسوں کا حجم بڑھانے کی شرط تسلیم کی ہے۔ حکومت کو اپنا اصلاحاتی منصوبہ ضرور متعارف کرانا چاہیے تاہم یہ منصوبہ کسی ایک طبقے کے مفادات کا محافظ نہیں ہونا چاہیے۔