آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی انسداد ٹڈی دل مرکز کا دورہ کیا‘ آئی ایس پی آر کے مطابق مرکز کے چیف کوآرڈی نیٹر‘ انجینئر انچیف لیفٹیننٹ جنرل معظم اعجاز نے تفصیلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کہا ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے سول انتظامیہ کی بھر پور مدد کی جائے گی۔ ٹڈی دل عرب صحرا اورافریقہ سے پاکستان میں آیا لیکن یہاں پر آتے ہی اس نے تباہی مچا دی، شروع میں حکومت نے اس کی جانب توجہ نہیں دی جس کے باعث اس کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اس کے جھنڈ کے جھنڈ لمحوںمیں فصلیں چٹ کر جاتے ہیں۔ لیکن حکومت بڑی دیر کے بعد خواب غفلت سے بیدار ہوئی ہے۔ محکمہ خوراک کی جانب سے اعلانات کئے جا رہے ہیں کہ جب کسی علاقے میں ٹڈی دل حملہ آور ہو تو اس کی تصاویر بنا کر وٹس ایپ کریں ہماری حفاظتی ٹیمیں آپ کی مدد کے لئے پہنچ جائیں گی۔ اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ٹڈی دل 90میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتا ہے۔ اس کی پرواز کی رفتار حجم اور فصلوں کی جانب اس کی رغبت کو دیکھتے دیکھتے ہی کسانوں کو ڈرونے خواب آ رہے ہیں‘ جب تک متعلقہ جگہ پر حکومتی ٹیمیں پہنچیںگی تب تک وہ فصلوں کا صفایا کر چکی ہو گی۔رحیم یار خان میں 50لاکھ روپے مالیت کی فصل ٹڈی دل نے محض 25منٹ میں ختم کی ہے کیونکہ اس کے ایک مربع کلو میٹر بڑے جھنڈ میں 80کروڑ بالغ کیڑے پھرتے ہیں جو ایک دن میں 35ہزار انسانوں کی خوراک کے برابر فصلیں کھا جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی رپورٹ کے مطابق رواں اور آئندہ ماہ ٹڈی دل کے مزید جھنڈ افریقہ اور ایران سے پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں جبکہ مون سون کا موسم اس کی افزائش کے لئے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ پاکستان میںٹڈی دل جب بچے پیدا کرے گا، تو اس کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا، حکومت کو پہلے ہی ٹڈی دل چولستان میں ہی ختم کرنا چاہیے تھا لیکن حکومتی غفلت کے باعث آج کسان گنگال ہو رہے ہیں۔ محکمہ زراعت کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ٹڈی کو تلف کرنے کے لئے وافر مقدار میں سپرے موجود ہے، ایسے سپرے کا کیا فائدہ جس کے ہوتے ہوئے زراعت کا بیڑہ غرق ہو جائے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنا ہیلی کاپٹر اس مقصد کے لئے وقف کیا ہے جبکہ ترکی سے بھی ایک جہاز حاصل کیا گیا ہے اس کے علاوہ ماحولیات اور جنگلات والوں کے پاس بھی چھوٹے ہیلی کاپٹر موجود ہیں لیکن حکومت کو جس انداز میں کام کرنا چاہیے تھا اس تیزی سے نظر نہیں آ رہا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک کے 154اضلاع میں سے 61اس وقت ٹڈی دل کے نشانے پر ہیںجبکہ مزید اضلاع پر اس کے حملوں کا امکان ہے ۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال کی فصل ربیع اور خریف کے مجموعی نقصان کی مالیت 15فیصد کے برابر 205ارب روپے کے برابر جبکہ خریف کی فصلوں کے نقصان کا تخمینہ 25فیصد 464ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اس حوالے سے محکمہ زراعت اور خصوصاً تاجروں کو بہت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن ہمارے سیاستدان اس پر قومی اسمبلی کے اندر آواز اٹھا رہے ہیں نہ ہی حکومت خواب غفلت سے بیدار ہو کر اس کا سدباب کرتی نظر آتی ہے۔ خدانخواستہ اگر ایسی ہی غفلت برتی گئی تو پھر مستقبل میں سبزیوں ‘ چاولوں‘ پھلوں اور جانوروں کی خوراک کے لئے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت پاکستان نے اب تک 250240اسکوائر کلو میٹر رقبے کا سروے کر دیا ہے جبکہ ابھی تک صرف 5121مربع کلو میٹر رقبہ پر کنٹرول آپریشن کیا گیا ہے ۔ صوبہ پنجاب میں پچھلے 48گھنٹے میں 110778ہیکٹر ایریا کا سروے کیا گیا ہے جبکہ ٹڈی دل کی موجودگی میں 98ہیکٹر ایریا پر سپرے کیا گیا ہے ،جس میں 2227سے زائد افراد اور 279سے زائد گاڑیوں نے حصہ لیا ہے۔ صوبہ سندھ میں پچھلے 24گھنٹوں میں 65050ہیکٹر ایریا کا سروے کیا گیا جن سے 740ہیکٹر ایریا پر ٹڈی دل کی موجودگی میں سپرے ہوا ہے۔ اس آپریشن میں 387افراد بشمول پاک فوج پر مشتمل 35ٹیموں اور 641گاڑیوں نے حصہ لیا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اب متحرک ہوئی ہے اور اس نے ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے کمر کس لی ہے لیکن جس برق رفتاری سے ہمیں اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی اس طرح سے نہیں کی۔ اب بھی اگر حکومت منصوبہ بندی کے ساتھ ٹڈی دل کا پیچھا کرے تو آنے والے دنوں میں جب اس کے مزید غول پاکستان میں داخل ہونگے نہ صرف انہیں روکا جا سکے گا بلکہ موجودہ غول کو مزید بچے پیدا کرنے سے قبل ہی تلف کر کے فصلوں کو بچایا بھی جا سکتا ہے۔ کورونا وائرس کے باعث سوا تین ماہ سے معاشی سرگرمیاں ویسے ہی رکی ہوئی ہیں، رہی سہی کسر ٹڈی دل نکال رہی ہے۔ ان حالات میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تمام اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کے خاتمے کے لئے کوششیں کرے۔ وزیر اعظم عمران خان حکومتی مشینری کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹڈی دل کے خلاف بھر پور طاقت کیساتھ کارروائی کریں خدانخواستہ اگر اب اس بارے میںسستی دکھائی گی تو پھر کورونا وائرس سے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ہماری زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ چاروں وزراء اعلیٰ بھی اپنے اپنے صوبے میں حکومتی مشینری کو متحرک کریں اور وفاقی حکومت کیساتھ رابطہ کر کے ایسا موثر منصوبہ ترتیب دیں تاکہ اس کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔