حدیث قدسی ہے کہ خالق کائنات نے فرمایا: ’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جائوں تو میں نے خلق کو تخلیق کیا‘‘۔ نبی آخرالزماںؐ نے فرمایا: ’’الفقر فخری‘‘ (مجھے فقر پر فخر ہے)۔ فقر کیا ہے؟ کائنات کی تخلیق کا مقصد رب کا اپنی پہچان کروانا تھا اور وہ بندے … خاص بندے جو اس پہچان کا حق ادا کرتے ہیں فقیر کہلاتے ہیں۔ کیا کوئی محدود اور فانی شخصیت ایک لامحدود اور باقی رہنے والی ذات کی پہچان کا حق ادا کرسکتی ہے؟ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کبھی مصور ہی تصویر کے رنگوں میں رنگ بھر دے یا پھر تصویر … مصور کے رنگ اجاگر کرنے لگے۔ کیا شریعت کی راہداریوں میں برس ہا برس گردش کرتے رہنے سے یہ ممکن ہے کہ کوئی انسان درویش اور فقیر بن جائے؟ اسے فقر کے بال و پر عطا ہوجائیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ فقیر اور درویش کیسے بنتا ہے؟ کسی کتاب مقدس میں اس کا طریقہ درج نہیں۔ اس کائنات کے رب نے کیا کہیں یہ ارشاد فرمایا کہ کوئی انسان اتنی نمازیں، اتنے نوافل، اتنے روزے، اتنی عبادات اور اتنی زکوٰہ ادا کرکے یہ ’’مقام‘‘ حاصل کرسکتا ہے؟ اپنی کوشش سے انسان شہید بھی نہیں ہوسکتا نہ ہی میدانِ جہاد سے غازی بن کر زندہ لوٹ سکتا ہے۔ تو پھر فقر کا حصول کیسے ممکن ہے؟ فقر تو عطائے ربانی ہے۔ محبت ہے … محبوب خدا کا عطیہ ہے۔ کسی ذاتی ریاضت اور مجاہدے کا بھی تب تک صلہ نہیں ملتا جب تک ’’وہ‘‘ نہ چاہے۔ فقیر اورفقر تو کسی کی نظر کا فیضان ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ربط اور رابطے میں ہوتا ہے۔ صرف ایک خاص وقت تک اس کا منتظر ہوتا ہے یا وہ وقت کے انتظار میں ہوتا ہے۔ اسے رب ایک خاص مزاج عطا کرتا ہے۔ اسے ایک مخصوص ماحول بھی خالق ہی فراہم کرتا ہے۔ پھر اسے ایک خاص وقت میں، کسی خاص جگہ پر، کچھ مخصوص لوگوں کے درمیان پروان چڑھایا جاتا ہے۔ وہ جو مناظر دیکھتا ہے وہ ازل سے اس کی آنکھ کا مقدر ہوتے ہیں۔ اس کی سماعت کے رزق میں جو آوازیں آتی ہیں وہ بھی رب کائنات کی عنایت کا حصہ ہوتی ہیں۔ یہ سب ایک بڑے ڈیزائن کا حصہ ہوتا ہے جسے ابھی وقوع پذیر ہونا ہوتا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی، سفیان ثوری، جنید بغدادی، بو علی قلندر، حضرت نظام الدین اولیاؒئ، سلطان باہوؒ، حضرت علی ہجویریؒ، خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ، بابا فرید، قطب الدین بختیار کاکیؒ جیسی ہستیاں … رب کی پہچان کا ذریعہ بنیں۔ مخلوق کے لیے فیض کا سبب بنیں۔ اپنے اپنے عہد میں کلمہ گو بندوں کو راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے بڑے مسئلوں میں، انفرادی راستوں میں، اجتماعی منزلوں کی طرف۔ ہر عامی اور گناہگار کو اس کی روح کا رزق اس کے عصر، عہد اور زمانے کے مطابق کسی نہ کسی درویش کی صورت میسر آجاتاہے۔ بابا جی اشفاق صاحب کہا کرتے تھے لکھا ہوا لفظ اور بولا ہوا جملہ بھی رزق ہوتا ہے۔ اب یہ نصیب کی بات ہے کہ آپ کی سماعت میں کس کا جملہ اور خیال رزق بن کر اترا۔ آپ کی بصارت اور بصیرت نے کس کی بات کو دل میں اتار لیا۔ ایک دفعہ پی ٹی وی میں ریکارڈنگ سے پہلے اشفاق صاحب اور برادرم اجمل نیازی سے روحانیت پر گفتگو ہورہی تھی۔ ان دنوں واصف علی واصف صاحب کی کرن کرن سورج، شب راز اور شب چراغ نے پوری قوت سے مجھے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ میں نے ایک سوال دونوں احباب کے سامنے پیش کردیا۔ ’’واصف صاحب بولتے زیادہ اچھا تھے، یا لکھتے زیادہ اچھا تھے‘‘؟ شاعرانہ مزاج کے حامل اجمل نیازی نے بلاتوقف جواب دیا ’’وہ بولتے زیادہ اچھا تھے‘‘۔ مگر میراذاتی تجربہ کچھ اور ہی گواہی دے رہا تھا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے بابا جی اشفاق صاحب کی طرف دیکھا۔ چند سیکنڈ کے توقف کے بعد وہ گویا ہوئے ’’واصف صاحب جتنا اچھا لکھتے تھے اس سے زیادہ اچھا بولتے تھے۔ وہ جتنا اچھا بولتے تھے اس سے زیادہ اچھا لکھتے تھے‘‘۔ قبلہ واصف صاحب کے صاحبزادے محترم کاشف صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ قبلہ واصف صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا مجھے قلم یا بیان عطا کردیا جائے۔ جواب آیا … آپ کو قلم اور بیان دونوں دیئے جاتے ہیں۔ کثرت ذکر سے واصف صاحب کا چہرہ ایک خاص چمک کا حامل تھا۔ آپ از خود کم بولتے تھے مگر جب کوئی سوال آپ کے سامنے پیش کیا جاتا تو الوہی دانش کے باب کھل جاتے۔ 1984ء میں ایم اے او کالج لاہور میں آپ کو ایک پروگرام میں مدعو کیا گیا۔ جب اس کی روئیداد اخبار میں شائع ہوئی تو پڑھنے والوں کا اصرار بڑھ گیا کہ آپ کی تحریروں کا کوئی باقاعدہ سلسلہ ہونا چاہیے۔ تب اخبار میں آپ نے باقاعدہ کالم لکھنا شروع کیا۔ آپ کے پہلے کالم کا عنوان ’’محبت‘‘ تھا۔ آپ کی پہلی تصنیف کرن کرن سورج تھی۔ آپ کے کالموں کا مجموعہ ’’دل دریا سمندر … قطرہ قطرہ قلزم اور حرف حرف حقیقت ہیں۔ آپ کی شاعری کے دو مجموعے شب چراغ اور شب راز بے مثال ہیں۔ آپ کی مکالموں کی ریکارڈنگ اب کتابی شکل میں ’’گفتگو‘‘ کے نام سے بہت ساری کتابوں کی صورت میں منظر عام پر آچکی ہے۔ آپ نے بہت خوبصورت حمد، نعت اور منقبت لکھی ہے۔ آپ کی حمد اور نعت کے چند اشعار: تو اک قلزم رحمت وسیع و بے پایاں میں ریگ زارِ تمنا، میں تشنہ باراں تو لامکاں کا مکیں اپنی ذات میں تنہا مری شریک سفر کیوں ہو گردشِ دوراں یہ روز کن سے بھی پہلے زمانے کی کہانی ہے! دو عالم میں محمدؐ کا نہ تھا ثانی، نہ ثانی ہے! فنا زیر قدم ان کی بقا پر حکمرانی ہے! محمدؐ کے غلاموں تک ہستی جاودانی ہے!