اسلام کی ہمہ گیریت اس امر کی متقاضی ہے کہ صرف انسان کے روحانی تقاضوں ہی کی تکمیل نہ کی جائے بلکہ سب سے پہلے اس کی مادی اور دنیاوی احتیاجات و ضروریات کی تکمیل اور ان سب تقاضوں کی فراہمی کا سامان کیا جائے اس لئے کہ اسلام میں ترک دنیا اور رہبانیت کا کوئی تصور موجودنہیں ہے۔ کسب معاش ، تجارتی اصول اور ضوابط ، لین دین ، آجر و اجیر کے حقوق و فرائض وغیرہ وغیرہ جیسی ہر چیز کی وضاحت و ہدایت دے دی گئی ہے ۔ شعبہ معاشیات کو جو سب سے اہم اور حیرت انگیز نظام جو اسلام نے دیا ہے وہ ہے زکو ٰہ ۔ اسلام کا نظام زکوٰۃ دولت کے جمود کو ختم کرنے دولت کو گردش میں رکھنے اور بقائے باہمی کے اصول کا سب سے موثر نظام ہے ۔شرعی حکم ہے کہ مسلم ممالک میں نظام اسلام نافذہواورپھر زکوٰۃ کے نظام کو سرکاری ادارہ بیت المال چلائے اوربیت المال کے ذریعے اسکی وصولی اورتقسیم ہو۔ زکوٰۃ ، صدقات ، جزیہ ، خراج کے مال کو ایک مرکز کے ذریعہ منظم کرنے کا طریقہ ساڑھے چودہ سوسال قبل بیت المال کے ذریعہ اسلام ہی نے پیش کیا ۔آج بھی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں زکو اہ کی وصولی اور تقسیم سرکاری اداروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے ۔ طبرانی کی روایت کے مطابق زکوٰۃ کی عدم ادائیگی قحط سالی کاسبب اور ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ زکوٰۃ مستحقین غریبوں، ناداروں، مفلسوں، مقروضوں، تنگدستوں کا حق ہے زکوٰۃ کی عدم ادائیگی گویا حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بھی تلفی ہے حقوق العباد میں زیادتی ناقابل معافی جرم ہے۔ واضح رہے کہ زکوٰۃ سال بھر میں کسی بھی وقت دی جا سکتی ہے مگر رمضان المبارک میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جو کہ ایک مستحسن امر ہے کیونکہ رمضان میں اجر وثواب کئی گنا زیادہ ملتا ہے اور غریب لوگ بھی اس عمل سے عید کی خوشیوں میں برابر شریک ہوسکتے ہیں۔ زکوٰۃ ایک مضبوط ، مستحکم معاشی نظام ہے۔ جو جہاں کہیںبھی مسلم معاشرے میں مروج ہو وہاں کے معاشی استحکام کی ضمانت ہے جوکہ اشتراکیت، سرمایہ دارانہ نظام،سودی نظام کے برعکس اور انکے مقابلے میں کشادہ، مثالی معاشی نظام کی بنیاد ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے غربت دور اور معاشرے کے معاشی مسائل حل ہو سکتے اور گداگری کی لغت کا خاتمہ یقینی ہو سکتا ہے۔ عصرموجودمیں جن مسلمان ممالک اورمسلم ریاستوں میں غربت کے مناظردیکھے جا رہے ہیں اور مسلمانوں کو معاشی تنگی درپیش ہے اس کا سبب بھی زکوٰۃ ، صدقات اورانفاق فی سبیل للہ سے انحراف ہے۔ یہ بات ذہن میں مستحضر رہے کہ فی نفسہ مال و دولت میں کوئی برائی نہیں اور امیر و غریب ہونا بذات خود کوئی شرف و فضیلت یا تحقیر کی بات نہیں۔ یہ مال و دولت کا استعمال یا عدم استعمال ہے جو اس کی قدر و قیمت اور اہمیت و معنویت کو متعین کرتا ہے۔ اس کی مثال پانی کی سی ہے جو اگر کسی جگہ جمع ہو کر دیر تک کھڑا رہے اور اس کے نکاس کا کوئی اہتمام و بندوبست نہ ہو تو اس میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ پانی جو صاف و شفاف ہونے کی صورت میں انسان کے لیے حیات بخش اور صحت افزا تھا متعفن ہونے کی وجہ سے بیماری کا گھر اور موت کا سامان بن جاتا ہے۔ پانی کو صاف و شفاف اور تعفن سے پاک رکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ وہ ایک جگہ زیادہ دیر جمع نہ ہو اور اس کے نکاس کا خاطر خواہ بندوبست ہوتا رہے۔ اس اعتبار سے زکوٰۃ ، مال و دولت اور سرمائے کیلئے گردش اور نکاس کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو زر و مال کو ایک جگہ بغیر خرچ کیے جمع رہنے سے باز رکھتا ہے۔ اس طرح سال میں ایک بار ادا کی ہوئی زکوٰۃ ، مال و دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہیں ہونے دیتی ،گردشِ زر سے سرمایہ کاری بڑھتی ہے ملک کی معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے۔،اس لحاظ سے زکوٰۃ اپنے مفہوم کے اعتبار سے وہ میل کچیل ہے جسے نکال دیا جائے تو دولت آلودگی سے پاک و صاف ہو جاتی ہے۔ چونکہ زکوٰۃ کا تعلق اقتصادیات سے ہے، یہ اسلام کے اقتصادی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایتائے زکوٰۃ کے حکم کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام، طرزِ زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہو جائیں اور رزقِ حلال کے دروازے کھلتے چلے جائیں۔ اس لئے شریعت مطہرہ نے ہر صاحبِ مال پر یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ اموال پر اڑھائی فی صد کے حساب سے مال نکال کر اجتماعی طور پر حکومت کے بیت المال میں جمع کرا دے تاکہ وہ اسے معاشرے کے نا دہند (Have Nots)اور محتاج افراد کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کر سکے۔ اس شرح سے اگر سب اہل ثروت اور متمول افراد اپنے سال بھر کے اندوختہ و زر و مال سے اپنا اپنا حصہ نکالتے رہیں تو اس طرح نہ صرف ان کی کمائی حلال اور ان کا مال و متاع آلائشوں سے پاک و صاف ہو جائے گا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواریاں بھی از خود دور ہوتی رہیں گی۔ اگر یہ سوچ افرادِ معاشرہ کے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہو جائے تو پوری زندگی میں حلال و حرام کی حدیں متعین ہو جائیں گی اور اجتماعی حیات کے احوال و معاملات سنور جائیں گے۔واضح رہے کہ لفظ زکوٰۃ کا لغوی معنی اور مفہوم پاکیزگی اور اضافہ ،بڑھوتری ہے۔ زکوٰۃ کے مفہوم پاکیزگی سے مراد اس مالی عبادت سے انسان کامال اسکے لئے حلال اور پاک بنتا ہے۔اور نفس بھی برائیوں ،گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔اسی طرح زکو ٰہ کے مفہوم اضافہ اور بڑھوتری سے مراد زکو اداکرنے کی برکت سے مال میں اور انسانی اعمال نامہ میں اجر وثواب میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اسلام کا اقتصادی نظام مفقود ہو نہ ہو تو تو غیر متوازن معیشت کے مضر اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوں گے اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جانے کی وجہ سے ارتکازِ زر کا رجحان فروغ پذیر ہوگا جس سے معاشرے میں برائیاں جنم لینے لگیں گی اور ایسی راہیں کھل جائیں گی جو فسق و فجور کی زندگی پر منتج ہونگی۔ وہ اپنی دولت غلط کاموں پر خرچ نہیں کرے گا۔ یہی سبب تھا کہ اسلام نے سب سے پہلے روحانی ضرورتوں کی بات کی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل کو اولیت دی تاکہ انسان صحیح معنوں میں انسانیت کے منصب پر فائز ہو جائے اور اس کے پاس دولت کی بہتات کہیں اسے فرعون و قارون کے مقام پر نہ گرا دے۔ فرعون و قارون دونوں ایسے بے خدا نظام کے علمبر دار تھے جس کی اساس تعلق باللہ کا فقدان اور مادی دولت و قوت کی کثرت تھی۔