بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کے بارے میں کوئی خاص تصور قائم کر لیتے ہیں اور پھر خاصے عرصے تک اسی پر کاربند رہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ اس کی مضبوط وجہ ہو، بس آدمی کبھی سنگل ٹریک ہو کر سوچتا اور اس سے باہر نہیں نکل پاتا۔ میرے ساتھ یہ اخوت کالج یونیورسٹی کے حوالے سے ہوا۔ اخوت یونیورسٹی کا اشتہار کہیں دیکھا اور اس کا ذکر سنا تو اسے ایزی لیا۔ ذہن میں آیا کہ اس طرح کے تو کئی ادارے اور بھی ہیں ۔ بلاسود چھوٹے قرضے دینے والے ادارے’’اخوت‘‘سے کون واقف نہیں۔ اخوت ایک زندہ جاوید، لہلہاتی ، خوش رنگ حقیقت بن چکی ہے۔ کامیابی کی ایک حیران کن داستان ،جسے لوگ مبہوت ہو کر سنتے رہ جائیں۔ مجھے یاد ہے کہ صرف چند سال پہلے ہمارے فورم سی این اے (کونسل آف نیشنل افیئرز)کے ہفتہ وار اجلاس میں ڈاکٹر امجد ثاقب تشریف لائے۔ انہوںنے بتایا کہ مواخات مدینہ سے رہنمائی لیتے ہوئے انہوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ادارہ اخوت بنایا ہے۔ اخوت بنگلہ دیش کے مشہور گریمن بینک اور دیگر مائیکرو فنانس اداروں کی طرح چھوٹے قرضے جنہیں مائیکروکریڈٹ فنانس کہا جاتا ہے، وہ دے گا۔ فرق یہ کہ اخوت یہ تمام قرضے کسی بھی قسم کے سود کے بغیر دے گا۔ یاد رہے کہ چاہے بنگلہ دیش کا گریمن بینک ہو اور چاہے دنیا بھر کا کوئی اور مائیکروفنانس ادارہ وہاں سود کی شرح عام بینکوں سے خاصی زیادہ یعنی پینتس ، سینتیس فی صد تک ہے۔ اس پس منظر میں اخوت کا بلاسود قرضے دینے کا اعلان انقلابی تھا۔خوشگوار حیرت سے سب نے سنا۔ یہ سوال بار بار پوچھا گیا کہ اگر آپ سود نہیں لیں گے تو پھر آپریشنل اخراجات کہاں سے اور کیسے پورے کریں گے؟ ڈاکٹر امجد کے پاس ایک پورا پلان تھا۔ انہوںنے چار بنیادی اصول طے کئے تھے۔ اخوت کا کوئی بھی ڈائریکٹر تنخواہ یا کسی بھی قسم کی مالی معاونت نہیں لے گا، قرضے دینے کی تقریبات مساجد میں ہوں گی تاکہ بابرکت ہوں اور اخراجات میں بھی کمی ہوسکے۔اخوت کے لئے کام کرنے والے رضاکار ڈھونڈے جائیں گے اور ان کی ایسے انداز میں تربیت ہو کہ وہ اس بلاسود پراجیکٹ کو آگے بڑھا سکیں، ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ کسی بیرونی عالمی ادارے سے مدد قبول نہیں کی جائے گی کہ یہ پاکستانیوں کے لئے بنایا گیا ادارہ ہے، اسے پاکستانی ہی بنائیں گے۔ ان دنوں اخوت چند لاکھ روپے کے قرضے تقسیم کر چکی تھی، اس کا سٹرکچر تشکیل کے مراحل سے گزر رہا تھا، مسائل تھے، مگر اخوت ٹیم کے حوصلے بلند اور عزم جواں تھا۔ مجھے آج بھی سی این اے کا وہ اجلاس یاد ہے، میز کے دوسری طرف بیٹھے ڈاکٹر امجد ثاقب کی آنکھوں میں جو چمک اور یقین جھلکتا تھا، اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کوئی کرشمہ تخلیق کریں گے اور رب تعالیٰ کی نصرت انہیں آگے لے جائے گی۔ اخوت کی بنیادی ٹیم یعنی ڈائریکٹرز سے بھی بعد میں واسطہ پڑا اور بعض کے ساتھ محبت ، خلوص کا گہرا تعلق قائم ہوا۔ پروفیسر ہمایوں احسان جنہیں میں لاہور کے چند جینوئن دانشوروں میں سے ایک سمجھتا ہوں، ڈاکٹر اظہار ہاشمی جو ایثار کا پیکر ہیں، ڈاکٹر کامران شمس جنہوں نے پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ(PEEF) جیسا شاندار ادارہ قائم کر کے دکھا دیا،سلیم رانجھا جنہوں نے بیوروکریسی میں بھی درویشی کا چراغ جلایا۔ آج اخوت ایک عالمی شہرت رکھنے والا ادارہ بن چکا ہے۔ اس وقت تک اخوت اکیاسی (81) ارب روپے کے قرضے تقسیم کر چکی ہے، بتیس لاکھ کے قریب گھرانوں نے ان بلاسود قرضوں سے فائدہ اٹھایا، عالمی پیمانوں کے مطابق ایک خاندان اوسطاً چھ افراد پر مشتمل تصور کیا جاتا ہے، اس طرح ایک کروڑ اسی، نوے لاکھ کے قریب لوگوں تک اخوت کے ثمرات پہنچ چکے ہیں۔ رب تعالیٰ کی رحمت سے یہ سب ممکن ہوا۔ اخوت نے قرضوں کے ساتھ کئی ذیلی پراجیکٹس چلائے۔ اخوت ہیلتھ کئیر فری کلینکس، نادار لوگوں کے لئے کپڑوں کی فراہمی ، مہلک امراض میں مبتلا بچوں کی آخری خواہش کو پورا کرنا وغیرہ وغیرہ۔ تین چار سال پہلے خواجہ سرائوں کے لئے ایک بڑا پراجیکٹ شروع کیا گیا۔ خاص کر پچاس سال سے زیادہ عمر کے خواجہ سرا جن کی زندگی بڑی تکلیف دہ اور کربناک ہوجاتی ہے، انہیں مختلف صورتوں میں کارآمد بنانے کی پلاننگ کی گئی، بعض کو وظائف بھی دئیے گئے ۔ اخوت کے پراجیکٹس میں ایک خاص بات یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم اقلیتوں کے لئے بھی کئی فلاحی پراجیکٹ شروع ہوئے۔ یہ سب تو خیر پس منظر تھا، آج بات اخوت کالج یونیورسٹی کی ہوگی۔ شروع میں ذکر کیا کہ اخوت کالج کے حوالے سے ذہن میں ایک روایتی فری ادارے کا تصور آتا تھا۔ دو دن پہلے قصور میں واقع اخوت کالج یونیورسٹی کا وزٹ کیا تو تمام تر تصورات یکسر بدل گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسے صرف ایک تعلیمی ادارہ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ یہ تودراصل ایک خواب ہے۔ ایک حسین خواب ۔ڈاکٹر امجد ثاقب کے تصور کے مطابق ملک بھر سے نادار، مگر ٹیلنٹیڈ طلبہ ٹیسٹ کے ذریعے منتخب کر کے اخوت کالج یونیورسٹی میں پڑھائے جا رہے ہیں۔ ہر صوبے کا بیس فیصد کوٹہ ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ، بلوچستان بیس بیس فیصد جبکہ گلگت بلتتسان اور آزاد کشمیر پر مشتمل بقیہ بیس فیصد۔ قصور کے مقامی طلبہ کی خاص تعداد بھی شامل کی جارہی ہے کہ یہ تعلیمی ادارہ بلھے شاہ کی دھرتی پر قائم ہے۔چار کلاسیں آ چکی ہیں، انٹر کر کے طلبہ کی دو کلاسز جا بھی چکی ہیں۔ اس وقت ڈھائی سو کے قریب طلبہ اخوت کالج یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہیں۔اس تعداد کو بڑھا کر پانچ سو تک کرنا مقصود ہے۔زمین خاصی ہے، تعلیمی بلاک ابھی زیر تعمیر ہے۔ ہاسٹل کی نہایت خوبصورت، دیدہ زیب چار منزلہ بلڈنگ پہلے بنائی گئی۔ نوے فیصد سے زیادہ وہ مکمل ہوچکی ہے، اگست تک تکمیل ہوجائے گی۔ کالج کے تمام طلبہ ہاسٹل میں مقیم ہوں گے، یعنی ڈے سکالرز کی گنجائش نہیں ۔ کالموں میں اگر تصاویر دینے کی روایت ہوتی تو اخوت کالج یونیورسٹی کے ہاسٹل کی تصویر ضرور شیئر کرتا۔ کمال کی ڈیزائن بنا ہے۔ جھروکے دار، نہایت خوبصورت ہوادار بلڈنگ۔ سب طلبہ اکٹھے کھانا کھاتے ہیں، مختلف انڈرو سرگرمیوں کے لئے بہترین انتظامات موجود ہیں۔ ایک کمرے میں چار چار طلبہ کے بیڈ، ان کی الماریاں، پڑھنے کی میز وغیرہ موجود۔ سادہ مگر پروقار اور دلنشیں۔ اس کا اہتمام کیا گیا کہ مختلف صوبوں کے طلبہ مکس ہوں۔ہر کمرے میں چاروں صوبوں، جی بی ، آزاد جموں کشمیر کے طلبہ مل جل کر رہ رہے ہیں۔ ہمیں ہاسٹل کا وزٹ ایک بگٹی نوجوان نے کرایا، تقریب کی نہایت عمدہ کمپیئرنگ بھی فرسٹ ائیر کے اسی طالب علم نے کی۔ اس نے بتایا کہ باہمی میل جول سے اس نے پنجابی کے چند جملے سیکھ لئے ، جبکہ دوسرے طلبہ بلوچی، پشتو، سندھی اور دیگر زبانوں سے روشناس ہو رہے ہیں، کچھ لفظ سیکھ لئے ، ٹوٹے پھوٹے جملے بولتے اور پاکستانیت کے ایک نئے تصور سے سرشار ہیں۔ ہمارا وزٹ اس لئے ہوا کہ اخوت کالج میں الہجرہ کالج ، زیارت کے طلبہ آئے ہوئے تھے۔ الہجرہ بھی ایک خواب کا نام ہے۔ برمنگم ، انگلینڈ کے ایک نیک دل پاکستان عبدالکریم ثاقب نے یہ سپنا دیکھا کہ بلوچستان کے طلبہ کی بہترین تعلیم وتربیت کے لئے زیارت میںادارہ کھولا جائے۔ الہجرہ سکول قائم ہوا، اس وقت غالباً وہ انٹرکالج تک کام کر رہا ہے۔ 2011ء ، چودہ اگست کی ایک سرد صبح مجھے جناب ہارون الرشید، خالد مسعود خان اور محمد طاہر کے ساتھ الہجرہ کی تقریب میں شرکت کا موقعہ ملا۔اتنا عمدہ تعلیمی معیار جو آٹھ برس بعد بھی بھلا نہیں سکا۔ اس سال شدید برفباری کی وجہ سے الہجرہ بند ہوا تو طلبہ کی تعلیم کا نقصان بچانے کے لئے اخوت کالج، قصور نے پیش کش کی۔ ستر کے قریب طلبہ دو ماہ یہاں رہ کر پڑھتے رہے، اب موسم بہتر ہونے پر واپس جا رہے تھے۔ اخوت کالج کے وسیع وعریض صحن کے ایک گوشے میں قدیم یونانی، رومی فکری روایت کو تازہ کرتے ہوئے تھیٹر بنایا گیا۔روایت کے مطابق ایک نیچی جگہ، چاروں طرف سیڑھیاں جہاں پر شائقین یا طلبہ بیٹھ کر کارروائی دیکھ سکیں اور نیچے درمیان میں سٹیج پر مقررین دھواں دھارتقریریں کرتے، نوجوانوں کی تربیت کا یہ اہم ادارہ تھا۔ یونانی، رومن تاریخ کے عظیم ترین مقررین انہی تھیٹرز سے طاق ہو کر نکلے۔ اخوت کالج یونیورسٹی میں اسی روایت کا احیا کیا جا رہا ہے۔ یہیں پر ہم نے ڈھلتی دوپہر میں ڈاکٹر امجد ثاقب کا سحرانگیز خطاب سنا۔ وہ اخوت یونیورسٹی کے تصور کو شیئر کر رہے تھے، ایسے ہونہار بچوں کی فصل کاشت کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے، جو اپنے ہنر سے ملک سنواریں گے، مایوسیوں کا خاتمہ اور روشنیوں کے آنے کا راستہ بنائیں گے۔ ڈاکٹر امجد کی تقریرسنتے ہوئے میں نے اپنے پاس بیٹھے یار دیرینہ کرامت بھٹی سے کہا،’’ یہ ایک ایسا حسین خواب ہے ، جس کا ہم سب کو حصہ بننا چاہیے۔اخوت کالج یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ خواب سرائے ہے،جہاں خواب دیکھے اور تراشے جائیں گے، انہیں یقین میں ڈھالا جائے گا۔‘ ‘ اخوت کالج یونیورسٹی کا سفر ابھی شروع ہوا ہے۔ کروڑوں ، اربو ں انہیں اکٹھے کرنے ہیں، بلڈنگ کی تکمیل پھر اسے خودمختار پراجیکٹ بنانے کے لئے انڈومنٹ فنڈ بنانے کی سوچ اور بھی بہت کچھ۔ یہ سوچ مگر حوصلہ دیتی ہے کہ درست سمت میں اگر قدم اٹھا دیا جائے تب قدرت کی لافانی قوتیں مددگار ہوتی ہیں اور اہل خیر کی پزیرائی مشکلیں آسان کر دیتی ہے۔