یوم آزادی 14 اگست کی آمد آمد ہے ، پورے ملک میں تقریبات منعقد ہو رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یوم یکجہتی کشمیر بھی منایا جا رہا ہے، اس موقع پر ایک یوم اقلیتوں سے بھی یکجہتی کا ہونا چاہئے، جب ہم قیام پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب مسلمان ہندوستان میں اقلیت میں تھے تو اس وقت مسلمانوں کی طرف سے اقلیتوں کے حقوق کی آواز بلند ہوتی تھی اور اس بات پر احتجاج ہوتا تھا کہ اقلیتوں کے حقوق غصب ہو رہے ہیں۔ پاکستان قائم ہوا ، مسلمان اکثریت میں آ گئے تو ہمیں کسی بھی لحاظ سے اقلیتوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ پاکستان سب کا ہے، سب کو اس قدر مساویانہ حقوق حاصل ہونے چاہئیں کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ خوش دلی کے ساتھ کہہ سکیں ’’میں بھی پاکستان ہوں ، تو بھی پاکستان ہے، اور یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے‘‘۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بانی پاکستان کی تقریر سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ انہوں نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا پہلا صدر منتخب ہونے پر جو خطبہ صدارت دیا اوراقلیتوں کو ان کے حقوق و مفادات سے متعلق ایسے شاندار الفاظ میں ذکر کیا کہ ایک ایک لفظ محفوظ کرنے کے قابل ہے۔ آپ نے فرمایا’’ آج سے آپ آزاد ہیں‘‘، آپ اپنے مندروں میں جانے میں آزاد ہیں ، آپ اپنی مسجدوں میں جانے میں آزاد ہیں اور اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں خواہ وہ مملکت پاکستان میں کسی بھی جگہ واقع ہو جانے میں آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب ، ذات یافرقے سے ہو کاروبار ریاست کو اس سے کوئی تعلق نہیںجیسا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ انگلستان کے حالات ہندوستان کے مروجہ حالات سے بھی بدتر تھے ۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک د وسرے کی جان کے دشمن تھے حتیٰ کہ آج بھی دنیا میں ایسی ریاستیں موجود ہیں جہاں کسی ایک جماعت یا گروہ یا فرقے یا طبقے پر امتیازی قوانین اور پابندیاں عائد ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ ہم اپنی اس نئی ریاست کا آغاز ان دنوں میں نہیں کر رہے ہیںہم آج کے جدید زمانے میں آغاز کر رہے ہیں جب قومیت، نسل ، رنگ ذات یا کسی اور طرح کے فرقہ واریت اور طبقہ بندی پر کوئی امتیازی سلوک اور قید و پابندی روا نہیں رکھی جاتی۔ ہم آغاز کر رہے ہیں اس بنیادی اصول سے کہ ہم سب ایک ہی ریاست کے شہری ہیں اور مساوی شہری ہیں، انگلستان کے لوگوں کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ اس قسم کی صورتحال کی حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انہیں بھی اس آگ میں سے قدم بہ قدم گزرنا پڑا تھا اور اس ملک کی حکومت کو بھی مصائب اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا پڑا تھا، آج آپ بنام عدل و انصاف کہہ سکتے ہیں کہ وہاں رومن کیتھولک اور پرونسٹنٹ وجود نہیں رکھتے جو چیز وجود رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص شہری ہے، برابر کا شہری ہے اور ہر شخص قوم کا رکن و فرد ہے۔ ہمیں اسی مقصد کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور آپ دیکھیں گے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہندو‘ہندو نہ رہیں گے اور مسلمان‘ مسلمان نہ رہیں گے ۔ خدانخواستہ مذہبی معنی میں نہیں‘ کیونکہ مذہب تو ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے‘ بلکہ سیاسی معنی میں ریاست کے شہری کی حیثیت میں‘‘۔ 11 اگست 1947ء کو قائد اعظم نے اقلیتوں کے مساویانہ حقوق کی بات کر کے پاکستان کے لئے ایک روڈ میپ دیدیا اور دنیا پر واضح کیا کہ پاکستان انتہاپسندی مذہبی سٹیٹ نہیں یہ مسلم اکثریتی علاقے پر ایسا ملک ہوگا جو دیگر تمام مذاہب کا احترام کرے گا اور اس میں رہنے والے تمام افراد کو مذہبی آزادی ہو گی ۔ انہوں نے اپنی کابینہ میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنایا ۔ قیام پاکستان کے دو سال بعد جوگندر ناتھ منڈل نے استعفیٰ دیدیا ۔ اقلیتی رہنما فادر یونس عالم اور بھیا رام نے مجھے بتایا کہ ہم اسی مٹی پر پیدا ہوئے، ہمارا جینا مرنا سب کچھ پاکستان کے ساتھ ہے ہم پاکستان اور آئین پاکستان سے محبت کرتے ہیں ، آئین پاکستان میں لکھا ہوا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے تمام افراد بلا رنگ ، نسل و مذہب برابر کے شہری ہیں ،ایسی آزادی کسی اور ملک میں کہاں۔ 11 اگست کا دن نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کی بنیاد جمہوریت ہے اور ہم جمہوریت کے ذریعہ ہی آگے بڑھ سکتے ہیں ہمیں کسی بھی لحاظ سے جمہوری اقدار کو فراموش نہیں کرنا چاہئے، سب کو برابر حقوق ملنے چاہئیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی دن اپنے تاریخی خطاب میں فرمایا تھا کہ بلا رنگ ، نسل و مذہب پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے حقوق مساوی ہونگے۔ قائد اعظم کے خطاب سے اقلیتوں کو بہت حوصلہ ملا تھا ۔ریاست ماں ہوتی ہے اور اس میں رہنے والے سب بیٹے ماں کو سب سے برابر پیار ہوتا ہے اور ماں کے بیٹے بھی اپنی ماں دھرتی کو مقدس جانتے ہیں ۔ گلستان کی خوبی اس کے مختلف پھولوں ‘ مختلف رنگوں اور مختلف خوشبوؤں سے ہوتی ہے ۔ پاکستان کو بھی اسی طرح کا گلدستہ ہونا چاہئے ۔