امریکی ادیب بنجمن فرینکلن نے کہا تھا :تم دیر کر سکتے ہو، وقت دیر نہیں کرے گا۔ قانون اپنا راستہ خود بناتا ہے ،لاکھ بہانے تراشیں ،خراب معیشت کی مثالیں دیں۔حکومتی مشینری لاتعلق ہو جائے ،مگر جب قانون بولے گا تو ہر کسی کو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا ۔ہر گزرتے دن کے ساتھ حکمران اتحاد کی نااہلی کھل کر سامنے آ رہی ۔ 13جماعتیں ملکر بھی وقت کو روک سکیںنہ ہی عوام میں جانے کے قابل رہیں ۔170ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگنے کے بعد عوام کے جسموں سے کپڑے بھی اتر جائیں گے ۔کل تک جو حکمران اپنے کپڑے بیچ کر عوام کے چولہے جلانے کی باتیں کرتے تھے ،اب انھوں نے عوام کے کپڑے اتارے شروع کر دیئے ہیں ۔ لاہور کے ادبی میلے میں نامور ادیب انور مقصود نے پنجاب پولیس پر طنز کرتے ہوئے کہا :83 برسوں میں،میں نے اپنے کپڑے خود اپنی مرضی سے اتارے ہیں ۔غلط باتیں کہہ کر میں اپنے کپڑے پنجاب پولیس سے نہیں اتروانا چاہتا،کیونکہ پنجاب پولیس کو بزرگوں کے کپڑے اتارنے کا بڑا شوق ہے ۔ اب تو گلی محلے میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں ۔لہذا سرکاری اداروں کو بھی اپنا قبلہ درست کرنا چاہیے ۔ صدر مملکت نے خط لکھ کر الیکشن کمیشن کو 90 روز میں الیکشن کروانے کا کہا ،مگر وہاں تو خاموشی ہی خاموشی ۔اب لاہور ہائکورٹ کے فیصلے کے بعد حکمران اتحاد سمیت سبھی پر سکوت طاری۔یا للعجب۔ آئین میں جمہوری اصولوں اور اقدار کی پابندی اور پیروی کے بارے میں کوئی ابہام نہیں۔ آرتھر شوپنہاؤر نے کہا تھا : ہر سچائی تین مرحلوں سے گزرتی ہے: پہلے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ پھر شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ پھر اسے ایک بدیہی حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ 13 اتحادی جماعتوں اور ان کے پیرو کاروں نے پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلی توڑنے کے اعلان پر پہلے پی ٹی آئی کا مذاق اڑایا ،پھر تحریک عدم اعتماد پیش کر کے اس کی مخالفت کی ۔مگر اب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد وہ قانون کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ اس عظیم ملک کوجاگیرداروں، وڈیروں، لٹیروں، سرمایہ داروں اور مفاد پرست سیاستدانوں نے اغیار کے پاس گروی رکھ دیا۔ اب یہاں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ والا نظام رائج ہے ۔ اشرافیہ، طالع آزماؤں اور فوجی ڈکٹیٹروں نے باری باری اِسی ظالمانہ نظام کے تحت عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ رکھا ہے ۔ سیاستدانوںنے اپنے کیسز ختم کروانے کیلئے قانون سازی کی، یہی وجہ ہے کہ اس غیر عادلانہ، غیر فطری اور غیر عوامی نظام کی کوکھ سے جنم لینے والی پارلیمنٹ کی حیثیت ربڑ اسٹیمپ سے زیادہ نہیں ۔ مہنگائی جو کئی سو گنا بڑھ گئی ، اس کی روک تھام کیلئے نہ صرف کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ پارلیمنٹ اور کابینہ کے ممبران براہِ راست چینی، آٹے، چاول، گھی، پٹرول اور آلو، پیاز جیسے بحرانوں کا سبب بنتے رہے۔ مرغی کا گوشت کیوں مہنگا ہوا،فیڈ لانے کی اجازت کس نے نہ دی ؟یہ قصہ پرانا نہیں ،تازی واردات ہے۔ پاکستان میں رائج موجودہ نظام انتخابات جسے سادہ اکثریتی نظام کہا جاتا ہے کسی بھی لحاظ سے اسلام کے دیئے ہوئے تصورِ انتخابات و حکمرانی کے مطابق نہیں اور نہ ہی یہ عوام کی حقیقی نمائندگی کا عکاس ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ میں 1988ء کے انتخابات کے بعد بہت سی درخواستیں موجودہ نظام انتخابات اور انتخابی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر کی گئیں ، ان درخواستوں کے دلائل کی بنیاد پر فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی موجودہ نظام انتخاب کو قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا۔ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سب سے بڑی دلیل یہی پیش کی گئی تھی کہ موجودہ نظام انتخاب میں انتخابی مہم ایک میلے یا سرکس کے انداز میں چلائی جاتی ہے۔امیدوار منافقت اور فریب کا لبادہ اوڑھے ہوئے لالچ، دھمکی اور جھوٹے وعدوں کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ ووٹوں کے حصول کی خاطر ایک ایک دروازے پر پہنچ کر ووٹروں کا تعاقب کرتا ہے ۔مگر ٹرن آوٹ نہ ہونے کے برابر ۔کراچی کاحالیہ ضمنی الیکشن میں تازہ مثال۔ 1970ء کے انتخاب میں برسر اقتدار جماعت کو صرف 38.9 فیصد ووٹروں کی تائید حاصل تھی۔ 88ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 37.63 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 45 فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے 29.56 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 28 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ 1990ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کو 37.37 فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 106 ملیں یعنی 52.8 فیصد جبکہ پی ڈی اے کو 36.65 فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 44 یعنی 22.7 فیصد۔1988ء کے عام اِنتخابات میں ٹرن آؤٹ 43.07 فیصد ہوا، 1990ء کے عام اِنتخابات میں 45.46 فیصد تک پہنچ گیا، 1993ء کے عام اِنتخابات میں 40.28 فیصد پر آگیا، 1997ء کے عام اِنتخابات میں 35.42 فیصد کی نچلی سطح پر آگیا جوکہ 2002ء کے عام اِنتخابات میں 41.26 فیصد کی سطح پر پہنچایا گیا۔ بعد ازاں 2005 میں ہونیوالے بلدیاتی اِنتخابات میں ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد کی اِنتہائی نچلی سطح تک گر گیا ۔عوام کی جمہوریت میں یہی دلچسپی ہے ۔ موجودہ نظام انتخابات صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے ۔اس نظام کے تحت صرف سرمایہ دار اور جاگیردار ہی منتخب ہو سکتے ہیں۔ عوام کی پسند کو محدود کر دیا جاتا ہے اور جب اقتدار ان طبقات کے ہاتھ میں آتا ہے تو یہ صرف ایسے قوانین وضع کرتے ہیں اور دستور اور قانون میں ایسی ترامیم کرتے ہیں ،جن سے صرف ان کے اعلیٰ سطحی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی پالیسی بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک غریب عوام کی بہتری کے لئے ان بالادست طبقات کے ہاتھوں کوئی اصلاحات نافذ نہیں ہو سکیں ۔جمہوری رہنمائوں کو اصلاح احوال کی کوشش کرنی چاہیے ۔ نیلسن منڈیلانے کہا تھا :آزادی کا راستہ آسان کہیں بھی نہیں۔ ہم میں سے بہتوں کو اپنی آرزوؤں کی منزل تک پہنچنے سے پہلے موت کے سایوں والی وادی سے بار بار گزرنا پڑے گا۔