دانا کہتے ہیں کہ جمہوری ریاست میں حکومت بنتی اکثریت سے‘ چلتی حکمت سے ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمران اشرافیہ نے ہمیشہ حکمت و دانش اور دانائی کی مٹی پلید کی مگر اس قول کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور موجودہ حکمران اتحاد نے لگا رکھا ہے‘ مخالفین بالخصوص عمران خان روز اوّل سے یہ ثابت کرنے میں مصروف کہ موجودہ حکومت اکثریت کے بل بوتے پر نہیں کسی مُنہ زور طاقتور کی ذاتی خواہش اور خاندانی و گروہی مفاد کی تکمیل کے لئے قائم ہوئی اور حکمران ٹولہ جس کے سبب تین تین چار چار بار کوچہ اقتدار سے بے آبرو ہو کر نکالا گیا‘ بیمار و لاچار ہوا‘ ایک بار پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتا ہے مگر حکمران اتحاد کا کمال یہ ہے کہ وہ نہ صر ف اپنے مخالف کے ہر دعوے کو سچا ثابت کرنے پر تلا ہے بلکہ حکمت و تدبیر پر بھی تین حرف بھیج چکا ہے۔ دنیا بھر میں اپوزیشن ملک میں ہیجان‘ اضطراب ‘ محاذ آرائی کا بازار گرم رکھتی ہے‘ مقصد حکومت کو ملک و قوم کی خدمت سے روکنا ‘حسن کارکردگی سے عوام کو لبھانے‘رجھانے کے بجائے الجھائے رکھنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اگست 2018ء سے مارچ 2022ء تک موجودہ حکمران جماعتوں نے یہ کام دھڑلے سے کیا‘کبھی یہ مارچ‘ کبھی وہ مارچ اور سلیکٹڈ‘ سلیکٹر کی گردان‘ کورونا کے دنوں جب پوری قوم اس موذی وبا کے خلاف برسر پیکار تھی اپوزیشن کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ عمران خان استعفیٰ دے کر عام انتخابات کرائیں تاکہ عوام کو 2018ء کے مینڈیٹ پر نظرثانی کا موقع مل سکے۔اپوزیشن کی احتجاجی تحریک سے یقینا حکومت کی کارکردگی متاثر ہوئی مگر گزشتہ گیارہ ماہ سے ملک میں ہیجان‘ اضطراب اور سیاسی افراتفری کو بڑھاوا دینے میں جتنی کدوکاوش حکمران اتحاد نے کی ہے کسی اور نے باید و شائد۔ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کی واحد وجہ اس کا بیانیہ‘ حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کے کھیل کے اہم عناصر سے عوامی بیزاری اور منتخب وزیر اعظم کو ایوان اقتدار سے نکالنے کا بھونڈا انداز نہیں‘ گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران حکومت کی ناقص بلکہ عوام دشمن کارکردگی اور اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں نے بھی ہر طبقہ فکر کو برہم کیا ہے۔اس پر مستزاد 25مئی 2022ء اور 8مارچ 2023ء کے پرتشدد واقعات‘ تحریک انصاف کے ایک ملنگ ٹائپ کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کی افسوسناک موت پر حکمران اتحاد اور پنجاب حکومت نے جو موقف اپنایا اس نے نالاں عوام کی ناراضگی میں مزید اضافہ کیا‘ پولیس کی قیدیوں والی وین میں علی بلال عرف ظل شاہ کی موجودگی سے انکار‘ پھر اقرار اور تین دن بعد حادثاتی موت کی کہانی کو صرف وہی مان سکتا ہے جس کے دل میں خوف خدا ہے نہ آنکھ میں شرم و حیا۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں چھبیس ستائیس مہلک زخموں‘ نازک اعضاء پر تشدد اور دیگر وحشیانہ شواہد کے باوجود اس کی ہڈی پسلی ٹوٹی نہ کپڑے پھٹے‘ حکومت کے بیانیے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کھلے تضاد کو آخر کون نظر انداز کر سکتا ہے ؟حکمران اشرافیہ اور ریاستی اداروں کی سوچ اب بھی یہی ہے کہ جس ملک میں سانحہ ساہیوال مقتول ڈرائیور اور خاندان پر ڈال کر سب نے جان چھڑا لی‘ سانحہ ماڈل ٹائون کو علامہ طاہر القادری کا ڈرامہ قرار دے کر ذمہ دار انتظامی و پولیس افسروں نے ترقیاں پا لیں وہاں علی بلال عرف ظل شاہ کا قتل ناحق ہضم کرنا کیونکر مشکل ؟ ؎ قاتل کی یہ دلیل بھی منصف نے مان لی مقتول خود گرا تھا‘ خنجر کی نوک پر 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں یہ باتیں چل جاتی تھیں کہ دو تین اخبارات اور دس بیس سینئر صحافیوں‘ ایڈیٹروں ‘ کالم نگاروں کو دام فریب میں لانا آسان تھا اور اپوزیشن کی طرح میڈیا کو دبانا بائیں ہاتھ کا کھیل ‘مگر اب غیر روائتی میڈیا نے کھیل کے قواعد و ضوابط تبدیل کر دیے ہیں۔ دبائو اور پابندیوں سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے اُلٹا یہ حربے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ گیارہ ماہ کا تجربہ شاہد ہے‘ اب سوچا یہ جا رہا ہے کہ عمران خان کی نااہلی اور گرفتاری سے سیاسی و انتخابی کامیابی کو یقینی بنایا جائے۔اگرچہ ترکی سمیت کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں مگر پاکستان میں بھٹو کی پھانسی‘ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور میاں نواز شریف کی جلاوطنی اور نااہلی کے تجربہ سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ مقبول سیاسی جماعت‘ قیادت اور بیانیے کو قانونی ضابطوں اور فسطائی حربوں سے ملیا میٹ کیا جا سکتا ہے نہ عوام کے دل و دماغ کو من مانی تبدیلی ماننے پر آمادہ۔ کالم کے آخر میں بھارت کے مزاحمتی شاعر کلیم عاجز کی ایک خوبصورت اور مقبول غزل قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر‘ مگر غزل سے قبل اس کا پس منظر’’بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975ء میں ایمرجنسی نافذ کی ‘اکیس ماہ کی اس ایمرجنسی میں انسانی حقوق پامال کئے گئے‘ اپوزیشن رہنمائوں کو جیل بھیجا گیا اور پریس پر پابندیاں لگیں۔انہی حالات میں پندرہ اگست کو نئی دلی کے لال قلعہ میں تقریب ہوئی ‘وزیر اعظم اندرا گاندھی اس تقریب کی کرسی صدارت پر براجمان تھیں‘‘۔ کلیم عاجز نے خوب رنگ جمایا‘ داد پائی مگر منتظمین کا خون خشک ہو گیا ؎ میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو دن ایک ستم‘ ایک ستم رات کرو ہو وہ دوست ہو ‘دشمن کو بھی مات کرو ہو ہم خاک نشیں‘ تم سخن آرائے سربام پاس آکے ملو ‘ دور سے کیا بات کرو ہو ہم کو جو ملا ہے وہ تمہی سے ملا ہے ہم اور بھلا دیں تمہیں ‘کیا بات کرو ہو یوں تو کبھی مُنہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو اندرا گاندھی کو مخاطب کر کے کلیم عاجز نے اگلا شعر پڑھا تو مرحبا مرحبا‘ مکرر مکرر کی صدا سے پورا لال قلعہ گونج اٹھا ؎ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو بکنے بھی دو عاجز کو‘ جو بولے ہے بکے ہے دیوانہ ہے‘ دیوانے سے ‘کیا بات کرو ہو