جامعہ الازہر جب مرکزی تعلیمی ادارہ بنا ،تب بغداد کی سیاسی و تعلیمی عظمت ہلاکو خان کے ہاتھوں ختم ہو چکی تھی، بیت الحکمہ کا نام و نشان ختم، بخارا و سمرقند کے مدرسے منگولوں کی یلغار سے تباہ ہو چکے تھے۔ اس دور میںسنٹرل ایشیا کے مسلمان علما نے مصر میں پناہ لی۔اسی بنا پر مسلمانوںکاجامعہ الازہر پر انحصارزیادہ ہوا۔تب جامعہ الازہر نے بھی اپنے بازوں پھیلائے۔ حنفی ،شافعی،مالکی اور حنبلی مسالک کو خوش آمدید کہا ۔مسالک اربعہ کے الگ الگ شیوخ مقرر کیے ۔ الازہر بنیادی طور پر علوم قرآن‘ تجوید و تفسیر‘ علوم حدیث و اصول کے علاوہ فقہ حنفی‘ مالکی‘ شافعی اور حنبلی کی درس گاہ ہے۔ طلبہ کی تقسیم بھی انہی فقہی مسالک کے مطابق ہوتی اوروہ اپنے اپنے مسالک کے شیوخ و اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے ۔ایک دور تھا جب بغداد میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا ہو ا تھا ۔بخارا اورسمر قند میں ایک سے بڑھ کر ایک علمی مرکز اور شیخ۔مگر نااہل قیادت ،اپنوںکی ستم ظریفی اور مخالفین کی چنگیز خانی پالیسی نے سب تہس نہس کر دیا ۔جامعہ ازہر دنیا کی ان چند درس گاہوں میں سرفہرست ہے ،جو اپنی قدامت اور شہرت کے لیے ممتاز ہیں۔ اس کی تاریخ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی ۔یہی وجہ ہے کہ اس درسگاہ میں تعلیم حاصل کرنا ہر طالب علم کی منشا ہوتی ہے ۔راقم الحروف یہ اعزاز کبھی حاصل نہ کرپاتا،اگر محکمہ اوقاف پنجاب کے سیکرٹری و چیف ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر سید طاہر رضابخاری اوراستاذی الشیخ ابو الخیر زوارحسین الازہری کی مدد شامل حال نہ ہوتی ۔ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ الازہر کو بیشمار اعزازات حاصل ہیں۔ جامعہ الا زہر کی لائبریری دنیا کی قدیم لائبریریوں میں سے ایک، جامعہ الازہر کو اسلامی دنیا میں نمایاں مذہبی حیثیت حاصل ،اس کے جاری کردہ فتویٰ سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابتدائی طور میں جامعہ الازہر کا زیادہ تر نصاب تھیولوجی، اسلامی قوانین، شریعہ، فقہ، حدیث، عربی گرائمر، عربی ادب، تاریخ، منطق ، فلکیات وغیرہ کے شعبوں پر مشتمل تھا۔بعد ازاں اس میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی گئی ہے ۔موجودہ وقت میں جامعہ الازہر میں 359 اکیڈمک ڈیپارٹمنٹ اپنے تعلیمی فرائض انجام دے رہے ہیں ،یہ اکیڈمک ڈیپارٹمنٹ 81 فیکلٹیز میں تقسیم ہیں۔اس وقت جامعہ الاز ہر سے چار ہزار تعلیمی ادارے اور بیس لاکھ کے قریب طلباء وطالبات منسلک ہیں۔ یہاں مقیم طلبا کی تعداد نوے ہزار کے قریب ہے۔ مصر کے شہر قاہرہ کے وسط میں واقع جامعۃ الازہر ایک وسیع کمپلیکس کی صورت میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کمپلیکس میں تاریخی مسجد ، یونیورسٹی کی عمارات، ہال ، لائبریریاں اور دیگر عمارات شامل ہیں۔ جامعہ ا لازہر کی یہ کلاسیکل عمارات مختلف مسلم ادوار جیسے فاطمی، ایوبی اور عثمانی خلافت کے زمانے میں تعمیر کی گئی تھیں ،یہی وجہ ہے کہ آپ کو یہاں نویں صدی عیسوی سے لے کر بیسویں صدی تک کی ہر طرز تعمیر دیکھنے کو ملے گی۔جامع الازہر اپنے پانچ دیدہ زیب میناروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے، یہ پانچ مینار 1340, 1469 اور 1510 میں تعمیر کئے گے تھے۔ حال ہی میں مصر میں جامعہ الازھر کی تاریخی اہمیت اور اس کے تعارف کے حوالے سے ایک کتاب ’’جامع الازھر الشریف‘‘کے عنوان سے شائع کی گئی،اس کتاب میں جامعہ کے ایک ہزار سالہ علمی دور اور اس کی تعمیر میں مسلمانوں کے فن تعمیر کی مہارتوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب میں لکھا ہے’’ کہ آج کی دنیا کی سب سے معتبر دینی درسگاہ دراصل ایک ہزار سال پیشتر محض ایک جامع مسجد تھی، جسے جامع مسجد الازھر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ مسجد ایک دینی مدرسے اور وہاں سے آگے بڑھتے ہوئے ایک بڑی دینی درسگاہ بن چکی ہے اور آج اس کا شمار دنیائے اسلام کی ان معدودے چند درسگاہوں میں ہوتا ہے، جو حصول علم دین کے متلاشیوں کی توجہ کا مرکز ہیں‘‘۔ جامع مسجد الازہرکی تعمیر بھی مسلمان معماروں کی فنکاری کا شاہکار ہے۔ جامع مسجد کا ڈیزائن کافی حد تک تیونس کی دو مشہور مساجد القیروان شہر کی جامع مسجد عقبہ بن نافع اور دارالحکومت تیونسیہ کی جامع مسجد الزیتونہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ جب عباسیوں نے اسے اپنی تحویل میں تو عباسی خاندان کیساتھ بغداد کے جلیل القدر دانشور ، عالم ، مذہبی اسکالرز بھی تشریف لائے ، جسکے باعث جامعہ الازہر کی رونقوں میں خوب اضافہ ہوا۔ دوسری طرف مسلم اندلس پر عیسائیوں نے یلغار شروع کر دی، قرطبہ اور اشبیلیہ کے جید علما نے بھی قاہرہ کا رخ کیا اور اپنی زندگی اور علمی کام جامعہ الازہر کے سپرد کیا، یوں یہ ادارہ بیبرس کے زمانے میں پورے عالم اسلام کا سب سے عظیم تعلیمی ادارہ بن گیا تھا۔ پندرہویں صدی میں عثمانی خلافت نے مصر کو فتح کیا تاہم جامعہ الازہر کا مکمل احترام ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ عثمانی خلافت میں بھی جامعہ الازہرکو مکمل خود مختاری دی گئی۔ عثمانیوں نے جامعہ الازہر کو معاشی طور پر خوشحال بنانے کیلئے باقاعدہ جاگیریں مقرر کیں۔ جن کے استعمال سے جامعہ الازہر اپنے اخرجات چلاتا تھا ،یہ بعینہ ایسا ہی سسٹم ہے جو پاکستان میں محکمہ اوقاف کا ہے ۔اپنے محدود وسائل میں سارا نظام چلانا،اگر ادارے کا سربراہ گھر کا متولی ہو، تووہ اپنے بچوںکے لیے وسائل بھی بڑھا سکتا ہے ،جس پر اب کام شروع ہوا ۔جو مفصل کالم کامتقاضی ۔ یوں تو جامعہ الازہر سے لاکھوں شخصیات نے علم حاصل کیا ،جن میں اب کچھ پاکستانیوں کا مزید اضافہ ہوا ہے ۔مگر چند طلبا وہ ہیں، جن پر الازہر بھی فخر کرتا ہے ۔ان میںابن الہیثم،ابن خلدون،سبط المردینہ، عبدالقادر البغدادی،شہاب الدین نقشبندی، علامہ ابن حجر عسقلانی ان میں سے ہر ایک اپنے فن کا ماہر اور چمکتا ہوا ستارہ ہے ۔ نو مارچ 2023بروز جمعرات کو ابو الحسن علی بن عثمان جلابی ہجویری غزنوی المعروف بہ داتا گنج بخش ؒکی درگاہ پر ہجویری حال میں تقسم اسناد کی ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔جس میں قاری سید صداقت علی شاہ نے تلاوت قرآن مجید سے حاضری کے دلوں کو گرمایا ۔ڈاکٹر حافظ محمد منیر الازہر ی اور ڈاکٹر مشرف حسین الازہر ی نے فارغین کو پند و نصائح کیں ۔محکمہ اوقاف کے روح رواں ڈاکٹر سیدطاہر رضابخاری نے جامعہ الازہر کی انتظامیہ سمیت پاکستان میں مصر ی سفارت خانے کے احباب کاشکریہ ادا کیا ، مستقبل قریب میںجامعہ الازہر،محکمہ اوقاف پنجاب کیساتھ مل کر وسیع پیمانے پر کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔الشیخ زوار حسین نعیمی الازہر ی نے پروگرام کو بہت ہی احسن انداز سے ترتیب دے رکھا تھا ،برادرم شیخ جمیل نے کمال کی میزبانی کی ۔ہر فرد مبارک باد کا مستحق ۔ جامعہ الازہر سے سند کا حصول خود میرے لیے باعث فخر ہے۔ لیکن اس فخر و مباہات کاذکر میں اس تزک و احتشام سے نہیں کر پایا،جیسا ہونا چاہیے تھا۔شاید اس معاملے میںہم اکابرین جیسے مطالعہ کے شوقین نہیںیا تلاش و جستجو کی کوشش نہیں کرتے ۔ ورنہ جامعہ الازہر کی تاریخ کے تلاطم خیز سمندر، اس کی موجوں کی طغیانی اور اس کی تہوں میں ابھی بھی بہت سے درِنایاب موجود ہیں۔ مصر کی تاریخ سے کون واقف نہیں۔کیونکہ: جھوٹی تہمت ہی سہی دامن یوسف پہ مگر مصر میں اب بھی زلیخا کی سنی جاتی ہے