ظلم رہے اور اَمن بھی ہو۔ہم نہیں جانتے حبیب جالب آج زندہ ہوتے تو کیا ہوتے۔ جمہور دوست اورآمریت مخالفت باغی ہوتے ،یا باقیوں کی طرح آج وہ بھی محض جمہوریت پسندہی ہوتے ۔ جمہوریت پسند آخر ہیں کون؟ سولہویں صدی میں جڑ پکڑنے والے لبرل فلسفے نے سیاست کی بنیاد استدلال، اصول اورمنطق (Rationalism) پر رکھی۔لبرلز ازم سے مراد ’آزاد معاشرے‘ کے اندر شہریوں کی زیادہ سے زیادہ آزادی ہے۔ لبرل ازم کو ماننے والے سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ آزاد مملکت کے آزاد شہریوں کی آزادانہ رائے پر چھوڑ دیا جائے کہ امورِ مملکت کون چلائے گا۔ اسی کو ہمارے ہاں ’مغربی جمہوریت ‘ کہا جاتا ہے۔گذشتہ کئی برسوں پر محیط ہمارے ہاںکے جمہوریت پسند لبرلز کا طرزِ عمل دیکھا جائے تونظر یہی آتا ہے کہ اس طبقے سے وابستہ افرادکچھ اور نہیں محض اسٹیبلشمنٹ کے وجودہی کو تمام موسمیاتی، معاشرتی ، معاشی،ملکی اور بین القوامی مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ سے جمہوریت لبرلز کی مخاصمت کی وجہ ہمیں معلوم ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک عمران خان سے ان کی ناراضگی کا سبب بھی ہم جانتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ہمارے لبرل جمہوریت پسندوں کو اب عمران خان پر غصہ کیوں آتا ہے؟مورثی سیاست دانوں سے اگر موازنہ کیا جائے تو کیا عمران خان ان کے مقابلے میں کم جمہوری طرزِ عمل کے حامل ہیں ؟ کیا عمران خان روایتی سیاسی خاندانوں کے مقابلے میں کم اصول پسند ہیں؟ کیا ان سے پہلے اور موجودہ حکومت کا انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کا ریکارڈ ان کی حکومت سے بہتر رہاہے؟وہ کہ جن کی وابستگیاں حکمران خاندانوں کے ساتھ اب ڈھکی چھپی نہیں، وہ ’جمہوریت پسند‘ جو اب حکومتی عہدوں پر براجمان ہیں،ان کی بات اور ہے۔ مگر کچھ تو ایسا ہے کہ کچھ اوربھی ہیں جو عمران خان کو اقتدار میں واپس لوٹتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے۔ایک خاندان سے وابستہ بڑے اردو میڈیا ہائوس اور اس کے کارندوں کی سرگرمیاں قابلِ فہم ہیں۔ اکیسویں صدی کے ظہور کے ساتھ ہی خطے میں بدلے ہوئے حالات کی بناء پر ہماری اسٹیبلشمنٹ بیرونی محاذپر ’ڈو مور‘ کے لا متناعی مطالبے اور اس مطالبے سے پھوٹنے والے اندرونی اور بیرونی دبائو اور مخاصمتوں میں گھری ہوئی تھی۔ کبھی کوئی میڈیاہائوس اس پر چڑھ دوڑتا تو کبھی امریکی عہدیدارپاکستان سمیت خطے کے تمام مسائل کے لئے ’ڈیپ سٹیٹ‘ کی نشاندہی کرتے۔سیاست،انصاف کے سیکٹر ، میڈیا ،سول سوسائٹی غرض کہ زندگی کے ہر شعبے میں موجود جمہوریت، انسانی حقوق اور سویلین بالا دستی کے نام پر اسٹیبلشمنٹ مخالف عناصرسرگرم رہتے۔ بھارت میں پاکستان کو انسانی حقوق کے نام پربدنام کرنے والا حال ہی میں بے نقاب ہونے والا فیک نیوز نیٹ ورک اپنے عروج پر جبکہ افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکومت بھی مخاصمانہ مہم میںکسی سے پیچھے نہ تھی۔ سوشل میڈیا نے زور پکڑا تو انہی سب عناصر نے ایک مربوط نیٹ ورک کی صورت میںڈیجیٹل محاذ سنبھال لیا۔تنائو کے اس ماحول میںسکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی صورت میں ایک معجزاتی سہارا مل گیا۔ اس کے بعد جو ہوا حالیہ تاریخ کا حصہ ہے۔ عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تواسٹیبلشمنٹ مخالف وہی تمام عنا صر باپ بیٹی کو مزاحمت کا استعارہ بنا کرعمران حکومت کے خلاف یکجا ہو گئے۔ دوسری طرف ریاست کے اندر ریاست ، جبری گمشدگیوں ، اظہار رائے پر پابندیوں،صحافیوں پر تشدد جیسی انسانی حقوق کی پامالیوں کا بیانیہ زور پکڑ گیا۔ انصاف کے سیکٹر میں اہم شخصیات عمران حکومت کے خلاف انہی معاملات کوجا بجا اٹھاتیں۔ آئے روز سیمینار ہوتے، جلسے ہوتے، لانگ مارچ ہوتے۔عمران حکومت کو ’ہائبرڈ رجیم‘ اور عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی ’کٹھ پتلی‘ کہا جاتا۔ تاہم پھر وقت نے پانسا پلٹا۔ عمران خان کو تاریخ کی دھول بنانے کا فیصلہ ہو گیا۔ حکومت توالٹا دی گئی، تمام تر توقعات کے برعکس مگر عوامی ردعمل نے بازی پلٹ دی۔آج حالات یوں بگڑے ہیں کہ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت اورملکی سیاست کے طاقتور ترین فریق آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ کل کے حلیف آج کے حریف بن چکے ہیں۔تمام تر جبر کے باوجود سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں ان کو ایک ایسی مخاصمانہ مہم کا سامنا ہے کہ کچھ ماہ پہلے تک جس کا تصور بھی محال تھا۔ مڈل کلاس اگرچہ خوف زدہ ہے، دل گرفتہ ہے مگر اپنی جگہ پر کھڑی ہے۔ کیاآزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا مطالبہ غیر آئینی ہے؟ قومی سطح پر انتخابات کااعلان تو ابھی دور کی بات ہے موجودہ حکومتی بندوبست دو صوبوں میں انتخابات کے باب میں آئین کی غیر مبہم شقوں پر علمدرآمداور سپریم کورٹ کے حکم کو بھی ماننے سے گریزاں نظر آتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے شکست کا خوف لا حق ہے۔ شکست کے خوف میں مبتلا تیرہ جماعتوںکے حیلے بہانے’ قابلِ فہم‘ ہیں۔طاقتورحلقے حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ اب وہی جمہوریت پسند کیوں خاموش ہیں؟ انسانی حقوق پر بے حد حساس قاضی اوربلند آہنگ وکلاء انتخابات کو غیر آئینی التوا ء پر بظاہر مضطرب کیوںنہیں؟بات بے بات جمہوریت اور انسانی حقوق پر اپنی تشویش کا اظہار کرنے والی مغربی دنیا صورت حال سے لاتعلق کیوں ہے؟ کیا ان سب سوالات کے جوابات ڈھونڈنا مشکل ہے؟صورتِ حال یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ، اس کے سربراہ، ارکان اور اس کی حمایت میںکھُل کر بولنے ،لکھنے اور پُر امن احتجاج کے لئے باہر نکلنے والوں پرخدا کی زمین تنگ ہو چکی ہے۔ جمہوری حقوق ایک سیاسی جماعت کے لئے عملاََ معطل ہیں۔ حکومت مخالف صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو ہراساں کیا جانا عام ہے۔ ایک ہی مبہم’ جرم‘کی پاداش میں’ ملزم‘ پر ملک کے طول وعرض میںمقدمات درج ہوتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا حصول اکثر گھروں کے لئے محال ہوچکا ہے۔ خوف کا مگر یہ عالم ہے کہ کوئی کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں۔ اندیشہ ہائے دور دراز کے پیش نظر شریف شہری ایک دوسرے کو احتیاط سے کام لینے کی نصیحت کرتے ہیں۔ دوسری طرف آئین میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کی نگہبانی کی صلاحیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔اندریں حالات، ایک اقلیتی اور اپنے ہی بوجھ کے نیچے کسمساتی حکومت کے وزراء تندو تیز بیانات کے ذریعے ہمہ وقت سب تہمتیں اپنے سر لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ کوئی مگر ان سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ بات کس سے کرنی ہے۔ ابھی کچھ ماہ پہلے تک نواز شریف اور زرداری بھی یہ بات جانتے تھے۔ اب عمران خان بھی جانتے ہیں۔سویلین بالا دستی کے علمبردار ہمارے جمہوریت پسند بھی یہ سب جانتے ہیں۔ عمران خان پرلیکن انہیں اب بھی غصہ آتا ہے ۔اچھا ہوا حبیب جالب برسوں پہلے مر گئے۔ آج ہوتے تو کیا ہوتے ، ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔