لاوارث تو ظل شاہ(علی بلال) بھی نہیں ہے‘ اس کا وارث صبر اور شکر کرنے والا بوڑھا باپ ہی نہیں عمران خان بھی ہے‘ جی ہاں! علی بلال شہید کا خونِ ناحق عمران خان پر قرض ہے‘ عمران خان کی وساطت سے 80فیصد پاکستانیوں پر بھی قرض ہے جو قطار در قطار اس کے آگے اور پیچھے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں ۔علی بلال قتل(شہادت) ان کے سینوں میں زہر آلود خنجر کی طرح پیوست ہو گئی ہے‘ انصاف کے کان بہرے اور محافظ اندھے ہو جائیں تو ورثا کے اندر انتقام کی آگ دہکتے لگتی ہے‘ جس مقتول کے ورثاء کی تعداد کروڑوں میں ہو ان کی نظروں سے آلۂ قتل چھپا رہ سکتا ہے نہ دست قاتل۔ کہتے ہیں تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے‘ جی ہاں تاریخ ایک مرتبہ پھر سے خود کو دوہرانے چلی ہے‘ پاکستانیوں کو ذوالفقار علی بھٹوکی بنائی فیڈرل سکیورٹی(ایف ایس ایف) فورس اچھی طرح یاد ہے‘ جس کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل میاں عباس ہوا کرتے تھے‘ پولیس فورس کے چھٹے ہوئے سفاک درندے ان کی بربریت پر بھی لب خاموش ہی رہتے تھے‘ عمران خان تو اشاروں اشاروں میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں‘ میر جعفر‘ میر صادق‘ کبھی ایکس وائی زیڈ اور کوئی ڈرٹی ہیری‘ لیکن بھٹو صاحب کے ڈرٹی ہیریوںکا کوئی نام بھی نہیں لیتا تھا‘ بھٹو صاحب نے کرائے کے یہ قاتل اعلیٰ سرکاری عہدوں پر سرکاری خرچے پر مستقل ملازم رکھ چھوڑے تھے‘ ان کے ظلم و جور‘ سفاکی اور کمینگی گزشتہ دس مہینوں میں ہونے والے واقعات گویا انہی کا ’’ایکشن ری پلے‘‘ ہے۔میاں طفیل محمد‘ ملک قاسم‘ سیالکوٹ سے پی پی کے ایم این اے اور بے شمار لوگ ان کمینہ سفاکی کا شکار ہوئے‘ اپنی پارٹی کے قصور سے منتخب ہونے والے ایم این اے احمد رضا قصوری کے قتل کا حکم صادر ہوا‘ ان پر متعدد قاتلانہ حملے ہوئے بچانے والے نے انہیں بچائے رکھا‘ لاہور شادمان کالونی کی چورنگی پر آخری قاتلانہ حملہ ہوا‘ احمد رضا قصوری بچ رہے لیکن ان کے والد نواب محمد احمد خاں قصوری اس حملے میں شہید ہو گئے‘ احمد رضا قصوری نے تھانہ اچھرہ میں ایف آئی آر درج کروائی۔مزید کارروائی کرنے کی بجائے خاموش بیٹھ کر مناسب وقت کا انتظار کرتے رہے۔ جلد ہی مناسب وقت آنے والا تھا‘ الیکشن کا اعلان ہوا‘ ٹھوک بجا کر کھلم کھلا دھاندلی ہوئی‘ تحریک چلی‘ مارشل لاء تک نوبت آئی‘ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق اور معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو آمنے سامنے ہوئے۔ یہی مناسب وقت تھا جس کا نواب محمد احمد خاں شہید کے بیٹے احمد رضا قصوری کو انتظار تھا جھاڑ پونچھ کر تھانہ اچھرہ سے ایف آئی آر نکالی گئی جس میں بڑے ملزم کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کا نام تھا اور شریک ملزمان میں فیڈرل سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بھی تھے، سرکاری ملازم عموماً سیاست دانوں کے مقابلے میں ہوشیار ثابت ہوئے ہیں‘ دونوں جھٹ سے ضیاء الحق سے آن ملے‘ ’’وعدہ معاف گواہ‘‘ بنے‘ پکی براہ راست گواہی اور ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھ گئے۔ احمد رضا قصوری بقید حیات ہیں اور کبھی کبھی خبروں میں کبھی ٹیلی ویژن سکرین پر نمودار ہوا کرتے پیرانہ سالی کی وجہ سے وہ دم خم تو نہیں رہا لیکن شہید باپ کا انتقام لینے پر مسرور اور خوش نظر آتے ہیں۔ بھٹو کی بیٹی دو بار وزیر اعظم بنی اور داماد بھی صدر پاکستان رہے لیکن کسی کو احمد رضا قصوری کی طرف میلی نظر ڈالنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ہندوستان کے مغل فاتح بابر اعظم کا لاڈلا بیٹا اوروارث ہمایوں لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو کر بستر مرگ پر بے سُدھ پڑا تھا‘ بہادر جنگ جو بابر کمرے میں داخل ہوا‘ بیٹے کی بیماری ‘ بے بسی اور جان کنی ‘ کی حالت دیکھ کر اپنی محبت کے ہاتھوں جوہر صاحب دل باپ کے قلب و ذہن میں ہو سکی‘ ایسا پسیجا کہ سب اہل و عیال کو ہمایوں کے کمرے سے نکالا، پھر اس کے پلنگ کے گرد طواف کیا‘ تنہائی میں گِڑ گڑا کر اپنے رب کے حضور عرض گزاری یا باری تعالیٰ جو کچھ میری عمر باقی ہے، میں بیٹے پر اپنی جان صدقہ کرتا ہوں‘ اس کو صحت عطا کر اور میری جان بدلے میں حاضر ہے‘ وہی قبولیت کے لمحات تھے شاید‘ بابر بیمار پڑا جوں جوں اس کی بیماری بڑھتی گئی ہمایوں تندرست ہوتا گیا‘ ہمایوں نے غسلِ صحت کیا اور اس کے باپ بابر کا جنازہ تیار تھا‘ باپ نے بیٹے کے لئے اپنی جان تصدق کر دی۔ نواب احمد خاں قصوری نے لاہور میں شادمان چوک کے نزدیک اپنے بیٹے احمد رضا قصوری پر اپنی جان صدقہ کر کے رتبہ شہادت حاصل کیا اور بیٹا دہائیاں گزر جانے کے بعد آج بھی چنگا بھلا لاہور میں ہے! علی بلال عرف ظل شاہ‘ عمران خان کا بیٹا تھا نہ باپ لیکن وہ اس کی محبت میں عشق و جنون کی حدوں سے گزر چکا تھا‘ اس نے اپنے لیڈر کے لئے اپنی جان وقف کر رکھی تھی‘ معصوم الفطرت ‘ گناہ و ثواب‘ بیش و کم سے بے نیاز‘ جب دشمن عمران خان کی جان لینے کے درپے تھا تو علی بلال ایک محافظ نہیں عاشق کی طرح اپنے عشق پر نثار ہو گیا۔جاتے جاتے اس نے اپنی شہادت کو بے نشان نہیں چھوڑا‘ خون کی لکیر قاتل کی دہلیز سے گزر کر ہر اس مقام اور نشان تک پہنچ گئی جہاں جہاں بھی قاتل کی رسائی ممکن تھی۔ نہ صرف واقعاتی شہادتوںکا انبار دستیاب ہے بلکہ وعدہ معاف اور چشم دید گواہوں کی لمبی قطار بھی ہے‘ قاتل کتنے بھی طاقتور اور بااثر کیوں نہ ہوں وہ چشم دید اور واقعاتی شہادتوں کو مٹانا بھی چاہیں تو اس کام کے لئے عمرِ خضر چاہیے مگر قاتلوں کے پاس عمر خضر کہاں ہوتی ہے۔ آصف علی زرداری نے غصے یا ترنگ میں کسی کو للکارا تھا اور کہا ’’تمہارے پاس زیادہ سے زیادہ تین سال ہیں‘ تم نے تین سال رہنا ہے‘ ہم سیاستدان ہیں ساری عمر یہیں رہیں گے: فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا نکل جاتی جس کے منہ سے سچی بات مستی میں رندِ باد خوار کا نشہ اترا‘ مستی سے باہر آیا تو خوف سے گھگی بندھ گئی‘ بھاگم بھاگ دوبئی چلے گئے‘ معافی تلافی کی درخواست قبول ہوئی‘ جان کی امان پا کر واپس لوٹ آئے لیکن مستی میں کہی بات تو سچ تھی اور سچ ہی رہی‘ تین‘ تین پھر تین برس گزر گئے‘ سب کے تاج چھن گئے‘ کلاہ اتر گئے‘ تخت ویران ہوئے اور سیاست دان زرداری ابھی تک بنام بھٹو سندھ کے تخت شاہی پر براجمان ہے۔ عمران خان کو چیلنج کرنے والے یا چیلنج بننے والوں کا ہیجان اور ذہنی انتشار اپنی حدوں کو چھو رہا ہے ،دن آرام نہ رات کا چین ۔اوپر سے مصیبت یہ آن پڑی کی مدت گھٹتی جاتی ہے‘تین سال ہی تو تھے‘ اب دن ہی کتنے باقی ہیں‘ احمد رضا قصوری کے لئے تو اپنے باپ کے قاتلوں تک رسائی مشکل ہو سکتی تھی کڑیاں ملنا مشکل تھا۔میاں عباس اور مسعود محمود پولیس سروس کے جانے اور مانے نام وہ بھی کہیں چھپ چھپا جاتے لیکن وہ رضا کارانہ حاضر ہوئے انہیں بھی اس کام پر آمادہ کرنے کے لئے بازو مروڑے اور دبائو ڈالا گیا تھا، انہوں نے بھید کھول کے رکھ دیا‘ بھٹو ان کڑیوں میں سے کسی ایک کو رستے سے ہٹا دیتا مگر نہیں ہٹا سکا‘ اقتدار اور قوت نشہ بادہ و جام سے کہیں تیز تر نشہ اترنے تک پھانسی کا پھندہ تیار تھا ’’تارا مسیح‘‘ نے صاحب جلال کی گردن لمبی کر دی، وہ لمبی گردن لئے خاموشی سے قبر میں اتر گیا۔ برمزارِ ماغریباں نے چراغے نے گلے نے پرِ پروانہ سوزد،نے صدائے بلبلے واشنگٹن سے لے کر اسلام آباد واقعاتی شہادتوں‘ چشم دید گواہوں اور وعدہ معافوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ انہیں راہ سے ہٹانا بھی چاہیں تو ہٹا نہیں سکتے‘ واشنگٹن سے لکھوائے گئے ’’مراسلہ ‘‘کو عمران خاں کے اقدام قتل کی JITرپورٹ کی طرح غائب بھی نہیں کیا جا سکتا۔’’ماسکو‘‘ کے وزیر خارجہ توتھے ہی اس مراسلہ کے گواہ تو امریکہ کے بغل بچے برطانیہ سے بھی رضا کارانہ بول پڑے ہیں۔وہ دستاویز ایوان صدر‘ ایوان عدل ،دفتر خارجہ نہیں معلوم اور کہاں کہاں کتنی تعداد اور مقدر میں دھری ہے۔ عمران خاں پر وزیر آباد میں ہونے والا حملہ ’’حملہ آور کی جان کو خطرہ ہے، اسی لئے اسے عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا لیکن ایک وہی گواہ تو نہیں ہے‘ گجرات کا ایس ایس پی‘ پنجاب کا آئی جی‘ تھانے کا انچارج ‘ بیان رٹانے والے ‘ اس کاکہا ریکارڈ کرنے والے فون کے ذریعے بھیجنے والے‘ ایک لامتناہی سلسلہ ہے نہ ختم ہونے والا اور ختم کرنے والوں کے قوت و اختیار کی کتنی مدت باقی ہے؟؟؟