تقدیر اور تدبیر کا راستہ کیا ہے؟بے بہرہ اور کوتاہ دانش لوگ اصرار کر رہے ہیں کہ ان پر ساتوں آسمانوں کی کائنات کا نقشہ ہتھیلی پر عیاں ہے۔ دعوے میں خود اعتمادی سے بھی بڑھ کر خودسری کا عنصر ایسے جھلکتا نظر آتا ہے گویا اب سب پرانے مرضوں کا علاج پلک جھپکنے میں میسر آ جائے گا۔ روز قلم یار عقل کی قلمرو میں خیالات کے اشہب منہ زور پر سوار اس فاتحانہ انداز سے بیان جاری کرتے ہیں حل مشکلات کا مژدہ محسوس ہوتا ہے۔ مسئلہ کیا ہے؟ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے ان کا مسئلہ یہ ہے کہ پرانے مسائل کو تلاش کریں پھر شور کریں۔ لوگ جاگیں اور پریشان ہو جائیں اور ان کو حل میسر نہ آئے البتہ یہ بامراد ہو جائیں کہ ان کو اپنے لئے وسائل میسر آ جائیں ۔قصیدہ خواں ہیں یا طنز نگار ہیں۔ تیسری اسالیب کی مشق جاری ہے جس سے اپنی بھڑاس نکلے اور ممدوح کی آتش انتقام فریق مخالف کے لئے اتنی بھڑکے کہ داد دینے کے لئے بھی نئے مطالبات مرتب ہو جائیں۔ کوئی بات جس کا سرا کسی طبقے کی فلاح تک پہنچے بہت ہی خال خال پڑھنے‘ سننے میں آتی ہے۔ تازہ ترین الجھن یہ ہے کہ قوم کے نونہال اور باشعور ،مردان جری کیسے بنیں گے اور ان کی خوابیدہ خوبیاں کیسے جگائی جائیں اور ان کی قوت نشوو نما کو مثبت راہوں پر کیسے چلایا جائے اور بہرحال ایک توانا اور زندہ قوم وجود میں آ جائے۔ زندہ قوم کی شرط اول تو ہے کہ وہ اپنی حیثیت میں آزاد ہو۔ معاشرت میں آزاد ہو۔ معیشت میں کشکول ترک ہو اور اپنے نظریات قومی پر پورا دفاعی حق رکھتی ہو۔ زندہ قوم کی علامت خاص یہ بھی ہے کہ وہ اپنے جغرافیے اور تاریخ کے امتیاز کو باعزت اور باوقار برقرار رکھے۔لیکن زندگی کی یہ حقیقت علم و تربیت کی محتاج ہوتی ہے۔ علم و تربیت کے لئے اداروں کی ساکھ اور ادارہ سازوں کی نیت بہت اہم شمار ہوتی ہے۔ پاکستانی ملی تشخص میں دینی وابستگی اور اس کی مخصوص ثقافت کو بہت دخل ہے۔لیکن کسی بھی ملت کے فکری سلاسل کے استحکام میں اس ملت کے بیدار مغز نوجوانوں کی کاوشوں کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ یہی جوان ہیں جو قبیلے کی آنکھ کا تارہ ہوتے ہیں۔ انہیں جوانوں کا بانکپن جذبہ حریت سے معمور ہوتا ہے۔ غیرت قومی کے محافظ بھی اس طبقہ جنون پرور سے میسر آتے ہیں۔ فکر و فن میں چستی اور اجتماعیت کا نشاط بھی جوانوں کی پختہ عزیمت اور قومی حوصلوں کا مرہون منت ہی ہوا کرتا ہے۔ مرد قلندر نے بجا فرمایا کہ جوانوں کو آہ سحر درکار ہے کہ ابلیسی غلاظت اور نفس امارہ کا چرخہ پوری ذہنی بنت کو تارعنکبوت کا مکروفریب کا ثمر عطا کرتا ہے۔ علم درکار ہے تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ پھر نوجوانوں کا روشن مستقبل جس مستقبل سے قوموں کی خوبرو شناخت وابستہ ہوتی ہے۔ یہ ادارے اور یہ انداز تربیت قوم کو کیا دے رہے ہیں قومی تعلیم کا مذاق یا بے دردانہ سلسلہ زخم و جراحت ایک عرصہ دراز سے تماشہ کر رہا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کا رخ کبھی بھی مائل بہ قبلہ خیر نہیں رہا۔ وزیر تعلیم ہوتے ہیں وہ محض وزیر ہوتے ہیں، ان کے لئے تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری نہیں۔ رہی بات تربیت کی تو وہ بے چارے جوڑ توڑ اور سیاسی دھڑے بندیوں کے اسیر بے بال و پر ہوتے ہیں۔ پرتعیش زندگی اور حیات کی تسکین ان کا ذوق اول اور اقتدار کے جھولے پر اپنی خواہشات کو پورا کرنا ان کا مشغلہ وزارت ہے۔ پھر کچھ داناو بینا لوگ جمع ہوتے ہیں، کچھ ترکیب خیر آوری کا خیال ان کے دام سے کسی سبب سے لپیٹا ہے تو یہ ادارے بناتے ہیں۔ نئے تجربے اور نئے تجربوں میں خیال نو کے حامل افراد کو ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہوتے ہیں۔ دماغ ان کے پرائے ہوتے ہیں‘ جسم ان کے دیسی اور سوچ ان کی بدیسی۔ اسی طرز کا کوئی سول سرونٹ قوم کے کسی درد سے آشنا ہو گا۔ فیصلہ سازی کے لئے دماغ سوزی کی نعمت فراواں سے تہی دست کون سا قدم درست اٹھائے گا۔ راحت کدوں میں بیٹھ کر سخت گرمی کے جھلسا دینے والے موسم میں زندگی بسر کرنے والوں کے مقدر نیم غنودگی کے عالم میں مرتب کرتے ہیں۔ ننگے پائوں چلتے چلتے سکول پہنچنے والے غریب زادے کے علم و تعلیم کے بارے میں لائحہ عمل اور نصاب تعلیم وہ مرتب کرتے ہیں جو یورپ کے عشرت کدوں کے نشہ خماری سے کبھی باہر نہیں آتے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں نجانے کتنی تعلیمی اور تربیتی قباحتیں ہیں۔ نظام کی ڈوری کسی حاجت مند وزیر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ درسگاہوں میں ڈھور ڈنگر باندھے جاتے ہیں۔ زمیندار ہی علم پرور شمار کیاجاتا ہے جبکہ وہ تن پرور ہوتا ہے۔استاد سکولوں میں جاتے نہیں۔ بچے کبھی آتے ہیں اور کبھی آتے نہیں۔ پرائیویٹ سکولز کالجز ہیں۔ یہ سب بندگان زر کا سلسلہ جرأت ہے کہ علم کے نام پر مال بنانے کا نہایت با سلیقہ طرز تجارت ہے۔اب ایک نئی افتاد کہ سکول کھلیں گے۔ یا بند رہیں گے۔ تعلیم و تربیت کے دروازے مقفل رہیں گے یا پھر باب آرزو کسی طرح وا بھی ہو گا۔ اندیشہ ہائے کثیر ہیں۔ سرا نہیں ملتا ہے۔ قوم پر ایک خدائی عذاب کورونا مسلط ہے سماجی فاصلہ احتیاط در احتیاط اور جان کے تحفظ کا بہرحال خیال دھیان کا شور ہے۔ لیکن H.E.C نے نجانے کن آسمانی فضائوں میں بیٹھ کر بالکل غیر سماجی فیصلے صادر کر دیے کہ سب جگہ کلاسز On lineکا سلسلہ شروع کیا جائے ،نہ یہ دیکھا کہ غریب بیوہ کا بچہ بے کس مزدور کا فرزند‘ بے مایہ کسان کی بیٹی تو ایسی امیرانہ آسودگی سے بالکل ہی تہی دست ہیں۔ اکثر مقامات پر اس ٹیکنالوجی کی دسترس ہی نہیں۔ اگر ہے ہی تو غرباء کے بچوں کی اس راحت افزا آسائش پر دسترس نہیں۔ لیکن اسلام آباد کے پرسکون اور پرآسائش ماحول میں بیٹھنے والے فیصلہ ساز اس فیصلے کو نوشتہ و سماوی بنا کر نافذ کرنے پر مصر ہیں۔ہر طرفہ تماشہ یہ کہ امتحان بھی اسی طرح لے لیں گے کون کیا پوچھے گا کون کیا بتائے گا۔ قوم سے مذاق تو سیاستکار ایک عرصہ سے کر رہے ہیں لیکن علم اور علوم کی کائنات پر بیٹھے لوگ کس انداز سے شاہین بچوں کے بال و پر نوچنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔