تحریک انصاف کی حکومت نے انتخابی اصلاحات کیلیے چند اقدامات کیے ہیں۔ گو انکی نوعیت محدود ہے لیکن حزب اختلاف ان سے بھی متفق نہیں۔ بہر حال اگر یہ اقدامات فیصلہ کن قانون سازی کے مرحلہ سے گزر گئے تو ایک اہم کام کی کچھ ابتدا تو ہوجائے گی۔بات کچھ تو آگے بڑھے گی۔پاکستان میں سیاسی محاذآرائی کا ماحول اتناگرم رہتا ہے کہ بتدریج ہونے والے اقدامات بھی غنیمت ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے حزب اختلاف کودعوت دی ہے کہ وہ عام انتخابات کے نظام کو غیر متنازعہ بنانے کیلیے اس میںاصلاحات تجویز کرے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس معاملہ پر قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو اس میں شریک ہونے کیلیے خط بھی تحریر کیا ہے۔ تاہم مسلم لیگ(ن) نے تو اس کمیٹی میں شریک ہونے سے صاف انکار کردیا ہے ۔ پارٹی کا موقف کہ ایسی کمیٹی بنانے کا اختیار صرف قومی اسمبلی کے ایوان کوہے‘ اسپیکر کو نہیں۔مزید‘ن لیگ کا موقف ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے لیے کسی مشاورت میںاسوقت شریک ہوگی اگر یہ کام الیکشن کمیشن کے پلیٹ فارم سے ہو۔ظاہر ہے کہ پارٹی کا یہ موقف اصولی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے کہ وہ حکومت کے کسی اقدام کو سند تائید یا جواز مہیا نہیں کرنا چاہتی اور اس سے عدم تعاون کا رویہ اور تاثر قائم رکھنا چاہتی ہے۔ ن لیگ کی طرف سے یہ اظہار بھی کیا گیا کہ انتخابی اصلاحات کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن نتائج کو چرانا چھوڑ دیا جائے۔ بین السطور پارٹی یہ کہنا چاہتی ہے کہ ملک میں کچھ قوتیں ایسی ہیں جو الیکشن نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان میں اپنی مرضی سے ردوبدل کردیتی ہیں ۔ جو پارٹی بھی الیکشن ہارتی ہے وہ عموماً اسی قسم کا الزام لگاتی ہے۔ ماضی میں پیپلزپارٹی ن لیگ پر اس مداخلت سے مستفید ہونے کا الزام لگاتی رہی ہے۔انیس سو نوے اور انیس سوچھیانوے کے عام انتخابات میںمسلم لیگ(ن) کو جس طرح بڑے پیمانے پر یکطرفہ کامیابی ملی تھی اسے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا شاخسانہ سمجھا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کا روّیہ الیکشن اصلاحات کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کے برعکس غیر لچکدار نہیں ہے ۔ تاہم دونوں پارٹیوں میںایک بات مشترک ہے کہ انہوں نے ووٹ ڈالنے کیلیے الیکٹرانک مشینوں کے استعمال کی مخالفت کی ہے اور یہ موقف ظاہر کیا ہے کہ اس سے الیکشن میں دھاندلی کے امکانات ختم نہیں ہونگے۔ دونوں جماعتوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق کی بھی مخالفت کی ہے۔تاہم اس مخالفت کے باوجود تحریک انصاف یہ دونوں اقدامات کرنے کیلیے پُرعزم ہے۔ اس نے الیکشن ایکٹ میںصدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کرکے الیکشن کو پابند کردیا ہے کہ وہ ووٹنگ کے لیے الیکٹرانک مشینیں استعمال کرنے اور تارکین وطن کے ووٹ ڈالنے کے لیے انتظامات کرے۔ اب یہ آرڈیننس بل کی صورت میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کیے جائیں گے جہاں پر ان پر بحث مباحثہ اور شور شرابہ ہوگا۔ چونکہ یہ ترامیم قانون میں کی جانی ہیں اسلیے حکومت کو انہیں منظور کروانے کیلیے سادہ اکثریت درکار ہے جو وہ آسانی سے حاصل کرسکتی ہے بشرطیکہ جہانگیر ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی بغاوت نہ کردیں۔ نوّے لاکھ پاکستانی ملک سے باہر رہتے ہیںاور دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انکی اکثریت تحریک انصاف کی حامی ہے۔ اسلیے اگر انہیں ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا اور اسکے لیے کافی انتظامات کردیے گئے تو اگلے عام الیکشن میں وزیراعظم عمران خان کی پارٹی کو سیاسی فائدہ ہوگا۔ اگر دس بارہ لاکھ تارکین وطن نے بھی ووٹ ڈال دیا توقومی اسمبلی کی اچھی خاصی نشستوں کے نتائج پی ٹی آئی کے حق میں جا سکتے ہیں۔اسلیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی اس ترمیم کی مخالف ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا معاملہ ذرا پیچیدہ ہے۔ ایک تو ان پر ایک سو ارب روپے سے زیادہ اخراجات آسکتے ہیں جو قومی خزانہ پر خاصا بوجھ ہوگا۔ دوسرے‘ انکوپہلی بار استعمال کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔پندرہ بیس سال سے بھارت میںان مشینوںکے ذریعے الیکشن کرائے جارہے ہیں۔ لیکن جب انکا استعمال شروع ہوا تھا تو ووٹرز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ انہیں انکی عادت نہیں تھی۔یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ الیکٹرانک مشینوں کا تجربہ ناکام ہوگیا ہے لیکن عوام کو اسکا عادی بنانے کیلیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ بھارت نے اب تک یہ طریقہ ترک نہیں کیا۔ ان مشینوں کے ذریعے وہاںچار عام الیکشن اور بے شمار صوبائی اور بلدیاتی الیکشن ہوچکے ہیں۔ یہ خدشات بھی درست نہیں ہیں کہ ان مشینوں کے ذریعے زیادہ دھاندلی کا امکان ہے کیونکہ انکے سافٹ وئیر میں بہت حفاظتی بندوبست ہوتے ہیں جنہیںتوڑا نہیں جاسکتا۔البتہ جب نیتیں خراب ہوں تو دنیا کے کسی بھی اچھے سے اچھے نظام پر اعتراضات کیے جاسکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات ایک ہمہ گیر اور بڑا موضوع ہے جو فی الوقت الیکٹرانک مشینوں کے استعمال اور تارکین کے ووٹ ڈالنے ایسے دونکات تک محدود ہوگیا ہے۔ حالانکہ زیادہ اہم معاملات یہ ہیں کہ الیکشن میںدولت کے استعمال کو کیسے ختم یا کم کیا جائے۔ الیکشن قوانین کی پابندیوں کے باوجود ہمارے ملک میں الیکشن دولت کا کھیل بن چکا ہے۔صرف کروڑ پتی اور ارب پتی لوگ ہی پارلیمان کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ غریب آدمی تو دور کی بات ہے اعلیٰ متوسط طبقہ کے افراد بھی الیکشن مہم کے اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ قومی اسمبلی کے ایک حلقہ کے الیکشن پرہر امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے ۔شہروں کے بعض حلقوں میں مجموعی اخراجات ارب روپے سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ قانون کوچکر دینا آسان ہے۔ آج تک کسی امیدوارکو اپنی انتخابی مہم پر زیادہ اخراجات کرنے کی وجہ سے سزا نہیں ملی۔ یہ ثابت کرنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ ان قوانین میں اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن کوئی پارٹی اسکا تذکرہ نہیں کرتی۔ ہر پارٹی پر بڑے زمینداروں‘ پراپرٹی ڈیلروں اور بڑے کاروباری حضرات کا غلبہ ہے۔ جو لوگ الیکشن میں سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ منتخب ہونے کے بعد منافع سمیت اپنا سرمایہ واپس حاصل کرتے ہیں جو ملک میں کرپشن کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہے۔بڑے بڑے ٹھیکیدار اور سٹے باز الیکشن میں امیدواروں کے خرچ اٹھاتے ہیں اور بعد میں انکے اثر و رسوخ سے ٹھیکے لیکر اور اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھا کر مال بناتے ہیں۔ حقیقی انتخابی اصلاحات اسوقت ہونگی جب الیکشن میں دولت کے استعمال کو روکنے کے لیے موثر‘ قابل عمل قانون سازی کی جائے گی اور ملک کے متوسط اور غریب طبقات کے افراد بھی انتخابی عمل میںشرکت کرسکیں گے۔ فی الحال تو یہ اہم ترین بات کسی پارٹی کے ایجنڈہ کا حصہ نہیں ہے۔