قومی سیاست میں آڈیو‘ویڈیو کی تاک جھانک اور ایک دوسرے کو اشتعال دلانے کے حربوں کی آزمائش کے بعد اب معاملہ تخت یا تختہ تک آن پہنچا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری نے سیاسی میدان میں لگے تماشے میں ہلچل مچا دی ہے، یہ تو درست ہے کہ وقت کبھی ساکت نہیں رہتا اور گزر ہی جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ ہم کب تک محض چند سوالات اور مطالبات پر اٹکے رہیں گے۔کوئی نہ کوئی راستہ تو ڈھونڈنا پڑے گا کیونکہ ریاستی مفادات کو جذبات کا غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے۔ ہمیشہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں تاکہ ہمارا قصور چھپا رہے۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے اس کا خمیازہ کس کو بھگتنا پڑے گا۔ اس کا اندازہ اس بیچاری قوم کو نہیں۔سیاسی انجینئرنگ کی تمام قلابازیاں اور پینترے بدلنے کی چالاکیاں اور نت نئے شگوفے چھوڑنے کی دوڑ میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں کسی کو نہیں پتہ کہ درودیوار پر لکھی حقیقت کیا ہے، بس یہ لگ رہا ہے کہ اس افراتفری آپا دھاپی ہڑبونگ‘ انتشار دھینگا مشتی اور فہم سے عاری جلن نے ہمیں بھنور میں غوطے کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ایسا تو نہیں کہ کوئی نادیدہ مخلوق نے ہمارے ہاتھ پائوں باندھ کر ہمارے منہ میں کپڑا ٹھونس کر اور ہمیں پاتال میں دھکیل کر خود کہیں غائب ہو گئی ،ہرگز نہیں۔یہ سب کردار ہمارے اردگرد ہی ہیں۔سب ہی نمایاں ہو رہے ہیں۔ایک دوسرے کی تضحیک کرنے تکلیف دینے‘ تکلیف سہنے اپنی بات اندھا دھند انداز میں کہنے اور بات کہہ کر مکر جانے کا فن نت نئے طریقوں سے آزمایا جاتا رہا ہے۔تاریخ سوچ رہی ہے کہ اس گزرے ماہ و سال میں ہونے والے حالات اور واقعات کا تذکرہ کن الفاظ میں کیا جائے اگر عمران خان سڑکوں پر سرکس لگانے کے بجائے قومی اسمبلی میں ایک توانا اپوزیشن کا کردار ادا کرتے تو کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ غالب امکان پیدا ہو سکتا تھا کہ انتخابات کا مرحلہ آنے سے قبل ہی وہ دوبارہ اقتدار میں آ جاتے پھر انہوں نے پنجاب اور سرحد اسمبلیاں توڑنے میں عجلت سے فیصلہ کیا ۔پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین اگر تعلقات میں بہتری کے لئے کوئی ایک چھوٹی سے کھڑکی بھی کھل سکتی تھی تو آج کی صورتحال میںشاید وہ بھی بند ہو گئی ہے پھر جو واقعات رونما ہوئے اس پر پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے ردعمل نے اس بات پر مہر ثبت کی کہ جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے وہ اسے فوری ردعمل اشتعال اور طیش سے تعبیر کر رہے ہیں اس کی کھل کر مذمت نہیں کر رہے ۔نہ جانے ہم سب یہ کیوں نہیں سوچ رہے کہ ہم نے ماضی میں جو کچھ کیا یا جو کچھ ہم اس وقت کر رہے ہیں ہمیں اب سنبھل جانا چاہیے یہ تاثر موجود ہے کہ ادارے کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ ایک بار عمران خان کے اس استفسار پر کہ ان سے آخر کیا غلطیاں ہوئیں اور وہ ان پر کیونکر قابو پا سکتے ہیں۔ایک سینئر بیورو کریٹ نے اس وقت کے وزیر اعظم کو بتایا سر آپ نے اپنی ترجیحات نہیں دیکھیں اور مختصر وقت میں بہت جگہ ہاتھ پائوں مارنے کی کوشش کی جسے اب آپ سمیٹ نہیں پا رہے ۔اس نظام میں رہتے ہوئے بھی بہتری لائی جا سکتی ہے بس تین چار بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں بعد میں عمران خان نے اپنے دور حکومت اور گزشتہ ایک سال کے دوران اپوزیشن میں رہ کر جو کچھ کیا اور جو طرز عمل اختیار کیا ایک ساتھ کئی محاذوں پر لڑائی کو پھیلانے پر خطر راستے سے پہلو تہی کرتے ہوئے بچ نکلنے کی پالیسی پر کبھی بھی عمل نہیں کیا نہ جانے غیر ضروری طور پر الجھنے اور محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کرنے میں ان کی کیا حکمت تھی ۔پاکستانی سیاست میں عمومی طوور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اصل طاقت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے اور سیاستدان صرف شوقیہ کھلاڑی ہیں خود عمران خان یہ تسلیم کرتے رہے ہیں کہ وہ بے اختیار تھے اور جنرل باجوہ سپر باس تھے۔اگر یہ سب کچھ ایسا ہی تھا جیسا وہ کہہ رہے ہیں تو پھر مجھے یہ کہنے میں ذرا برابر بھی تامل نہیں ہے کہ جنرل باجوہ کے کہنے اور ان کی ہدایت پر کام کرنے کے تحت انہوں نے کم و بیش وہی غلطی کی جو 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی تھی۔اقتدار تک پہنچنے کے لئے کچھ شرائط کو پیشگی تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے کے لئے مقبولیت کے ساتھ ساتھ قبولیت بھی ضروری ہے۔2018ء میں عمران خان کو بھی اسی طرح کے حالات کا سامنا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مثالی حمایت اور پذیرائی حاصل رہی اور یہ حمایت اس وقت تک جاری رہی جب تک چند امور پر اختلاف رائے سامنے نہ آیا میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمارے سیاستدان خواہ وہ بے نظیر ہوں نواز شریف یا عمران خان یہ بات فراموش کر چکے تھے کہ شرائط پر سیاست نہیں ہوتی شرائط پر کاروبار ہوتا ہے اور اگر آپ اپنی سیاست کو شرائط کے ساتھ نتھی کریں گے تو اس میں جگہ جگہ مجبوریاں بے بسی اور شکوے شکایات پیدا ہوں گے اسی طرح جیسے عمران خان کو ہوئے۔لیکن عمران نے خود اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کیا کہ آخر ان کی کیا مجبوری تھی کہ انہوں نے مشروط اختیار و اقتدار حاصل کرنے کو ترجیح دی۔میں اپنے سیاست کاروں خصوصاً حکمرانوں کی توشہ خانہ سے لئے جانے والے تحائف کی 20سال کی 446صفحات پر مشتمل رپورٹ پڑھتا ہوں تو یہ ہمارے حکمران طبقے کی ذہنی افلاس کا مکمل نوحہ ہے اس رپورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں یہ تمام لوگ انتہائی امیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دولت شہرت اور اقتدار سے نواز رکھا ہے لیکن ثابت ہو گیا کہ دل کے انتہائی فقیر ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آپ نے ماضی میں جو کچھ کیا وہ کر دیا ہمیں بہرحال اب سنبھل جانا چاہیے۔ جب ہم اپنی اعلیٰ عدالتوں پر نظر ڈالتے ہیں جہاں پر انتہائی اہم گرما گرم قانونی اور آئینی بحث جاری ہے سسٹم کو پٹڑی پر چڑھانے کے لئے آرڈرز پاس کئے جا رہے ہیں کبھی لگتا ہے کہ ایک حکم سے سب کچھ تلپٹ ہو جائے گا پورا منظر پورا نقشہ بدل جائے گا اور کبھی لب و لہجے کی شیرینی کسی نئے انجام کی خبر دیتی ہے۔لیکن ابھی بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ غیر یقینی کے اس گرداب سے کیسے نکلا جائے اس وقت ایک مسئلہ سوشل میڈیا کے کردار کا بھی ہے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خیر خواہ کسی نوعیت کی ہو کوئی انکشاف کتنا چونکا دینے والا اور ہوشربا ہو خیر خواہ کتنی سنسنی خیز ہو کتنے ہی اثرات مرتب کرنے والی ہو لیکن خیر خود تقاضا کرتی ہے کہ وہ سچی ہو خیر کو پھلجڑی کی طرح چھوڑنے اس میں چسکا ڈالنے اس کے عنوان کو چٹ پٹا سسپنس اور ہیجان خیز بنانے میں اپنی تمام مہارتیں صرف کرنے سے شاید آپ دوسرا مقصد حاصل کر لیں لیکن یہ ساری پھرتیاں آپ کی ساکھ وقار اور نام کو معتبر بنانے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتیں۔