چودھری صاحب اپنی بیٹی کا نکاح مسجد میں کریں گے۔!یہ بات پہلے پہل جس کے بھی کان میں پڑی وہ اس بات کو سراہے بنا نہ رہ سکا۔واہ بھئی اس دور میں اتنی سادگی سے بیٹی کو رخصت کرنا۔ یہ تو ایک مثال قائم ہو جائے گی اس سادگی کو ابھی سراہا جا ہی رہا تھا کہ شادی کارڈ خاندان میں بانٹ دیے گئے۔ مسجد میں نکاح تو شادی کی چھ سات روزہ تقریبات میں سے ایک تقریب تھی۔ پوری شادی برائیڈل شاور‘ مہندی مایوں ‘نکاح بارات ‘ ولیمہ اور چوتھی کی رسم پر مشتمل تھی، نکاح میں جن کو مدعو کیا گیا تھا انہیں لکھی ہوئی ہدایات مل گئی تھیں کہ نکاح کا تھیم‘ سرخ ‘ سفید اور سنہری ہے۔صرف انہی رنگوں کے لباس پہنے جائیں گے۔ سو ان رنگوں کے لباس سلوائے گئے۔ دلہا دلہن نے بھی یہی رنگ زیب تن کئے۔ بشمول پھولوں کے ہر طرح کی سجاوٹ سرخ سفید اور سنہری رنگ میں تھی۔ لاہور کی ایک پوش ہائوسنگ سوسائٹی میں واقع مسجد میں نکاح کی بکنگ کرائی گئی تھی۔ اس مسجد میں نکاح کا آج کل خوب ٹرینڈ تھا۔ مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا۔دونوں طرف سے بلائے گئے پروفیشنل فوٹو گرافروں کے کیمرے کلک‘ کلک کرنے لگے۔ مسجد کے دلآویز تعمیراتی حسن کے پس منظر میں تصویریں بننے لگیں۔ پروفیشنل فوٹو گرافر کی ہدایات پر عمل ہونے لگا۔ ذرا سا ساتھ ہو جائیں۔ ٹھوڑی اوپر اٹھائیں۔ بس زیادہ نہیں تھوڑا سا دائیں رخ پر مڑ جائیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں آنچل کو ذرا اس طرف پھیلائیں۔ دلہا دلہن کا ہاتھ تھامے اور اس کے عقب میں سرخ سنہری اور سفید لباس میں ملبوس سارے مہمان نیم دائرہ بنا لیں۔ ہوا میں کبوتر اڑائیں۔ پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں ۔پوز بنتے رہے اور یہ سارے لمحے کلک کلک کیمروں میں محفوظ ہوتے رہے اور ان تصویروں کے عقب سے جھانکتے پس منظر میں جلوہ دکھاتے‘ تمکنت سے ایستادہ گنبد و محراب۔ جو حیرت سے اس ساری کارروائی کو دیکھتے تھے اور سوچتے تھے کہ یہ مسجد‘ جب سے بنی ہے۔ یہ منظر تواتر سے دیکھ رہے ہیں۔ سرخ سنہری‘ پوشاکوں والے کیمروں والے۔ اب رخصت ہو چکے تھے اور خوش تھے کہ مسجد کے حسین گنبدوں اور محرابوں کے پس منظر میں انتہائی خوب صورت فوٹو گرافی ہوئی۔ خاندان میں خوب واہ واہ ہو گی۔ مسجد میں نکاح کا مقصد کبھی سادگی ہوا کرتا تھا مگر آج کل مسجد کا دلآویز تعمیراتی حسن دلہن دلہا کے شوٹ کے لئے بہترین سمجھا جاتا ہے۔ہزاروں روپیہ فیس دے کر مسجد کی بکنگ کروائی جاتی ہے اور پھر پروفیشنل فوٹو گرافروں کی ہدایات کے آئینے میں مختلف پوز۔ انداز اور سٹائل کی تصاویر بنائی جاتی ہیں۔ میرے خیال میں اس ساری کارروائی میں بھی مسجد کا تقدس اور احترام کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ پامال کا لفظ بہت سخت ہے اسے استعمال نہیں کیا۔ لیکن جب ہم مسجد کو صرف تصاویر بنانے کے ایک سٹوڈیو کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو اللہ کے گھر کا احترام اور تقدس کمپرومائز ہوتا ہے۔ مسجد امن کا گھر ہے مسجد عبادت کی جگہ ہے۔ مسجد میں اندر داخل ہوتے وقت دعا پڑھنا سنت ہے۔ جس میں مسلمان اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اس پر رحمت کے دروازے کھول دے۔ مگر انہی مسجدوں میں سپارہ پڑھنے کے لئے جانے والے بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور ننھے بچوں پر سبق نہ سنانے کی پاداش میں بدترین تشدد مسجد کے احاطوں میں کیا جاتا ہے۔ ایسی خبریں اکثر و بیشتر اخبارات میں آتی ہیں یہاں تک کہ ہم ان کا نوٹس لینا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ احتیاط پسند باشعور والدین اپنے بچوں کو سپارہ پڑھنے کے لئے مسجدوں نہیں بھیجتے۔مسجد جسے میرے سرکار ﷺ نے امن کا گھر قرار دیا۔ جس کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے مسلمان اللہ سے رحمت کا طلب گار ہوتا ہے کہ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہاں سے امن اور رحمت ضرور ملے گا۔ہم وہاں اپنے بچوں کو بھیجنے سے خوفزدہ ہیں۔ یہ بیماری کیسے پیدا ہوئی۔ اس کا علاج کیسے ہو گا کون کرے گا۔ کیا ہمیں امام مسجد اور قاری حضرات کے مسائل کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے اور یقینا ہے۔ اس معاشرے میں جہاں لان کا برانڈڈ سوٹ آٹھ‘ دس ہزار میں ملتا ہو امام مسجد کی تنخواہ دس ہزار ہوتی ہے۔ امام مسجد کی نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سب ایسے نہیں ہوتے۔ مگر جو اللہ کے گھر میں بیٹھ کر یہ قبیح فعل کرتے ہیں۔ جنہوں نے سارے تالاب کو گندا کر رکھا ہے ان کا ہر طرح کا ’’علاج‘‘ ضروری ہے۔سماجی زوال کے اس سارے پس منظر میں مسجد وزیر خان میں ہونے والا گانے کا شوٹ‘ مجھے تکلیف سے دوچار ضرور کر گیا مگر حیرت نہیں ہوئی مجھے اس پر کیونکہ انہی مساجد میں آئے روز شادیوں کے شوٹ ہو رہے ہوتے ہیں اور دراصل اسی روایت نے مسجد وزیر خان کی انتظامیہ کو یہ ترغیب دی کہ 30ہزار فیس لے کر مسجد میں کیمرہ مینوں اور اداکاروں کو آنے دیں۔مسجد کا تقدس اس واقعے میں یقینا پامال ہوا۔ اس میں ذمہ داروں کا احتساب ضروری ہے۔ اس کے ساتھ وہ تمام گھنائونے جرم جو مسجد کی چار دیواری میں ہوتے ہیں۔ ان پر عبرت ناک سزائیں دینا چاہئیں۔ مسجد کے تقدس اور سٹیٹس کو بحال کرنا ضروری ہے اور یہ محاسبہ بھی کریں کہ ہم کیوں مسجد کے ادارے سے اس انداز میں فائدہ نہیں اٹھا سکے جیسے کہ ترکی نے ہمارے سامنے شاندار مثال قائم کی۔لاک ڈائون اور بے روزگاری کے سخت دنوں میں استنبول کی ایک مسجد میں رکھے ہوئے ریکس کو اشیائے خورو نوش سے بھر دیا گیا۔ ساتھ ایک نوٹ لکھا تھا کہ ضرورت مند بھائی یہاں سے سامان لے جا سکتے ہیں۔ ہمارے دین میں مسجد کا یہی حقیقی تصور ہے جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں۔ یہ عبادت کی جگہ ہے یہ امن کا گھر ہے اور یہاں سے خیر پورے معاشرے میں بانٹی جاتی ہے اور ہم سماجی زوال کی ڈھلان پر لڑھکتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ اپنے بچوں کو مسجد بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔ کیا یہ ایسا المیہ نہیں ہے کہ جس کا ماتم پورے مسلمان معاشرے کو کرنا چاہیے۔