یہ 75سال کا قصہ ہے! ایک دو برس کا رونا نہیں۔ہر سال کی طرح امسال بھی مون سون کی بارشیں اور سیلاب پاکستانیوں کے ارمانوں کے ساتھ جان و مال بھی بہا کر لے گئے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی سیلاب کی تباہی کے بعد حکومت وقت حرکت میں آئی اور جان کی قیمت 5لاکھ لگا کر اپنا فرض ادا کر دیا۔ جن کے گھر سیلابِ بلا سے تباہ ہوئے ان پر دو لاکھ زرتلافی کا احسان کیا گیا تاکہ الیکشن کے وقت اس احسان کا بدلہ ووٹ کی صورت میں مل سکے۔خیبر سے کراچی تک فلڈ ریلیف کیمپ کے نام پر افسر شاہی کا’’ روزگار‘‘ کھول دیا گیا ہے۔ اب افسر شاہی جانے اور سیلاب کی بے رحم موجوں کے شکار متاثرین! بیورو کریسی ہر روز 15منٹ کی ملٹی میڈیا پریزنٹیشن دے کر حکمرانوں کو گہری نیند سلا دے گی اور راوی چین ہی چین لکھے گا۔ رہے سیلاب سے تباہ ہونے والے تو ان کے بارے میں تو پہلے ہی باقی صدیقی نے کہہ دیا تھا: کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو عالمی ادارے پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں کر رہے ہیں جو 2025ء تک شدید آبی بحران کا شکار ہوں گے۔ اقوام متحدہ تو پہلے ہی متنبہ کر چکا ہے کہ آئندہ کی جنگیں پانی کے لئے لڑی جائیں گی۔ اسے حکمرانوں کی خودغرضی کہئے یا نااہلی کہ پاکستانی سال کے دس ماہ پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں مگر مون سون کے دو ماہ میں یہی پانی سینکڑوں پاکستانیوں کی جان لے جاتا ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہو کر حکومت سے مایوس کھلے آسمان تلے زندگی بتا رہے ہوتے ہیں ۔حکومت ہر سال سیلاب میں مرنے والوں کو معاوضہ تو دے دیتی ہے مگر موت بانٹنے والے دریائوں کے پانی کے آگے بند باندھنے اور آبی ذخائر بنانے کے بارے میںکبھی نہیں سوچتی۔ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے دریا پاکستان کے شمال سے بہتے ہوئے جنوب میں سمندر میں گرتے ہیں۔ عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً 150ملین ایکڑ فٹ پانی دریائوں میں بہتا ہوا سمندر برد ہو جاتا ہے ۔پچھلے 75 برسوں کی مسلسل تباہی کے باوجود ہمارے حکمران صرف 17ملین ایکڑ فٹ پانی جو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم اور بیراج بنا سکے وہ پاکستان کی 30دن کی ضروریات کے لئے بھی ناکافی ہے۔ ارسا کی رپورٹ کے مطابق کوٹری بیراج سے نیچے سمندر کی طرف جانے والے پانی کا بہائو سال کے ایک سو چالیس دن سے ایک سو اسی دن تک صفر ہوتا ہے۔ اس دوران پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کاشتکار مہنگی بجلی اور ڈیزل استعمال کر کے ہم وطنوں کے لئے اناج پیدا کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں قابل استعمال زیر زمین پانی 810ملین ایکڑ فٹ ہے ،پاکستان میں کاشتکار 10لاکھ ٹیوب ویلوں کے ذریعے 55ملین ایکڑ فٹ سالانہ پانی سے فصلیں کاشت کرتے ہیں جبکہ 134 ملین ایکڑ دریائوں کا مفت پانی ہر سال سمندر برد ہو جاتا ہے۔75سال میں پاکستان پر سیاستدان اور آمر حکمران رہے مگر سوائے ایوب خان کے کسی نے بڑے ڈیم بنانے کی ضرورت محسوس نہ کی ہر کوئی اقتدار کو طول دینے کے لئے ڈیموں کے منصوبوں کو التوا کا شکار کرتا رہا تو اپوزیشن مخالفت برائے مخالفت میںڈیموں کو سیاسی رنگ دیتی رہی۔ کالا باغ ڈیم 50سال سیاسی تنازع کا موضوع رہنے کے بعد قومی اسمبلی میں ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ۔حکومت نے متبادل ڈیم بنانے کا اعلان کیا 2017ء میں داسو ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی۔ پانی کے ذخائر کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت نے عملی کام کرنے کی کوشش ضرور کی۔ ،واپڈا حکام کے مطابق ہمالیہ قراقرم اور کوہ ہند کے پہاڑوں کے درمیان پانی ذخیرہ کرنے اور سستی بجلی بنانے کے درجنوںمقامات موجود ہیں ان میں سے ایک سکردو کا کتزرہ ڈیم بھی ہے جو 35ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بن سکتا ہے جس سے 15ہزار میگاواٹ سستی بجلی کے علاوہ پاکستان کی ضرورت کے لئے 30دن کے بجائے 90دن تک کے لئے پانی موجود ہو سکتا ہے۔ 2016ء میں اس منصوبے کی لاگت کا اندازہ 7ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ اسے حکمرانوں کی نااہلی نہیں تو کیا کہا جائے کہ ہماری حکومتیں طول المدتی منصوبہ بندی سے عاری ہیں تو عملدرآمد کی رفتار اس سے کہیں زیادہ سست ہے۔ یقیناً موجودہ معاشی بحران میںحکومت کو 7 ارب ڈالر جمع کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن محسوس ہوتا ہے۔ جب ایک ارب ڈالر کے قرض کے لئے حکمران امریکہ سعودی عرب اور یو اے ای کی منتیں کر رہے ہوں تو عالمی مالیاتی ادارے کیونکر کتزرہ ڈیم کے لئے قرض دیں گے۔ہمارے عالمی دوستوں کی تو تاریخ ہی یہ رہی ہے کہ اتنا دو جس سے پیٹ نہ بھر سکے اور محتاجی قائم رہے۔ان حالات میں صرف ایک چین تھا جو پاکستان کے ترقی و خوشحالی کے لئے عملی مدد کرنے پر آمادہ تھا۔ چین نے 70بلین ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی مگر حکمرانوں نے ڈیموں کے بجائے درآمدی ایندھن سے چلنے والے مہنگے بجلی گھروں کو ترجیح دی۔مقصد قلیل المدنی منصوبوں کی تعمیر سے ووٹ بٹورنا تھا۔ممکن ہے چین طویل المدتی آبی منصوبوں کے لئے بھی سرمایہ کاری پر آمادہ ہو جاتا مگر بدلتے عالمی منظر نامے نے پاکستان کے لئے امکانات محدود کر دیئے ہیں۔ اگر امکانات ہیں بھی تو شاید ان کی قیمت ادا کرنے کا حوصلہ مفقود ہے۔پاکستان میں جو 155ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال تباہی کا باعث بنتا ہے۔یہ پاکستانیوں کے لئے نعمت بن سکتا ہے شرط صرف حکمرانوں کا اخلاص اور دیانتداری ہے۔اخلاص ہی سیاستدانوں کو ملکی خود انحصاری کے لئے مل بیٹھنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔اگر ہمارے سیاستدان اسی طرح اقتدار کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ غدار غدار کھیلتے رہے تو پانی جیسی قدرت کی عظیم نعمت پاکستانی قوم کے لئے اگلے 75سال بھی زحمت بنتی رہے گی۔ جہاں تک سیلاب کی تباہی سے بچنے کا تعلق ہے تو حل تو سب کو معلوم ہے باقی صدیقی نے سچ ہی کہا ہے تلخیِ غم کا مداوا معلوم پڑ گیا زہر کا چسکا ہم کو