وطن عزیز کا پہلا متفقہ آئین چودہ اگست تہتر کو نافذ ہوا اور پانچ جولائی ستتر کو اسے معطل کر دیا گیا۔یہ ٹھیک تین سال آٹھ ماہ عرصہ ہے۔ذوالقار علی بھٹو نے بطور منتخب وزیر اعظم نے اتنا عرصہ ہی حکومت کی ہے۔انہیں اقتدار تو سقوط ِ ڈھاکہ کے فورا بعد پیش کر دیا گیا مگر ان کی آئینی مدت یہی چار سال سے کم کا عرصہ ہے۔اصولاََبھٹو کو اقتدار سنبھالنے کے بعد انتخاب کروانے چاہییں تھے کہ ان کو مینڈیٹ متحدہ پاکستان کے دور میں ملا تھا۔ وزیر اعظم وہ صرف سابقہ متحدہ پاکستان کے مغربی صوبے کے تھے۔اس کا مینڈیٹ عوام نے ان کو قطعاً نہیں دیا تھا۔یہی ان کی پہلی سیاسی غلطی ہے جس کا انہوں نے ارتکاب کیا۔یہی کچھ پاکستان بننے کے بعد ہوا۔ہندوستان نے آزادی کے تین سال بعد الیکشن کروا کے اپنا مینڈیٹ منتخب لوگوں کے حوالے کر دیا تھا۔شومئی قسمت سے یہ سب کچھ یہاں نہ ہو سکا۔یہی وجہ ہے کہ بقول شخصے وہ کھوٹے سکے قیام پاکستان سے لے کر ایوب خان کے مارشل لا تک اقتدار کی کرسی کا طواف کرتے رہے۔کاش قیام ِ پاکستان کے بعد فوراً الیکشن کا اہتمام کر دیا جاتا تو جو ہوا اس کا شاید تصور بھی نہ کیا جا سکتا۔انیس سو چھیالیس کے انتخابات ہندوستان کی تقسیم پر لڑے گئے تھے یا وہ تخلیق پاکستان کے لیے لڑے گئے تھے۔وہ پاکستان کی حکمرانی کے لیے قطعاََنہیں تھے۔سیاسی قیادت کو بہر حال قیام ِ پاکستان کے بعد الیکشن نہ کروا کر بہت کچھ بھگتنا پڑا قیادت کو اس بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ خشت ِاول چوں نہد معمار کج تا ثریا می روَد دیوار کج کہ اگر تعمیر کی پہلی اینٹ ٹیڑھی ہو تو دیوار آسمان تک ٹیڑھی ہو گی۔ پاکستان میں یہی الیکشن تئیس سال بعد انیس سو ستر میں ہوئے۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے سارا پانی بہہ چکا تھا۔نئی نسل آ چکی تھی۔پرانی نسل جس نے پاکستان بنایا تھا قصہ ِ پارینہ ہو چکی تھی۔اس نسل کے اپنے عصر کے مسائل تھے۔ اپنی ترجیح تھی سو اس الیکشن میں وہ سارا دکھ ساری بھڑاس نکالی اور ملک دو لخت ہو گیا۔جو الیکشن نہ کروا کے نقصان کیا گیا تھا وہی الیکشن کروا کے ہوا۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کو اقتدار اس وقت ملا جب ملک عزیز گوناگوں مسائل سے دوچار تھا۔ان سب کی مثال اس کپتان کی ہے جس کا جہاز کریش ہو چکا ہو۔سینتالیس، اکہتر اور دو ہزار بائیس میں ملک ایک جیسی سنگینی سے دوچار تھا۔معاشرے کا فیبرکس تار تار تھا۔(ویسے فیبرک کا لفظی معنی بنانا ہے)۔بھٹو سے عمران کا موازنہ اس بات پر دال ہے کہ دونوں کے اقتدار کے آخری دنوں میں یہ بات پھیلائی گئی تھی کہ وہ عوام میں مقبول نہیں ہیں۔انہیں عوام کا اعتماد حاصل نہیں رہا۔اس عدم مقبولیت کے غیر حقیقی تجزیے ہوئے۔یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ وہ غیر مقبول ہو چکے تھے۔ یہ تلخ حقیقت ان دونوں کی اقتدار سے برخاستگی کے بعد ہر کسی پر روشن ہو گئی۔(برخواستگی کی املا غلط ہے) استاد ابو طالب کلیم کا فرمایا یاد آیا سرکشی با ہر کہ کردی رامِ او باید شدن شعلہ ساں از ہر کجا برخاستی، آنجانشیں تو نے جس کے ساتھ سرکشی کی ہے پھر اس کی اطاعت کر لے شعلے کی طرح جس جگہ سے اٹھا تھا اسی جگہ پر بیٹھ جا)۔ دونوں کی عدم مقبولیت کو ہوا دینے والوں کی تب بھی اور اب بھی وہی حالت تھی کہ کاٹو تو لگتا ہے جسم میں خون ہی نہیں۔تب بھی بت بنے کھڑے تھے آج بھی ان کے چہروں سے ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔تب بھی وہ غیر حقیقی سہاروں کے متلاشی تھے آج بھی ان کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔ہمارے بڑے اور دوست دانشور بھٹو کی بر خاستگی کو درست مانتے ہوئے بھی یہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ وہ مقبول ترین لیڈر ہیں۔اس وقت کے بڑے بڑے ہیوی ویٹ جن کا ستتر کی تحریک میں طوطی بولتا تھا ایسے چپ ہوئے کہ گویا کہیں تھے ہی نہیں۔اصغر خان، ولی خان، مفتی محمود، شیر باز مزاری اور شاہ احمد نورانی جیسے رہنما سیاسی منظر نامے سے ایسے غائب ہوئے کہ دوبارہ انہیں قومی اسمبلی میں نہیں دیکھا گیا۔سن اکیاون میں لیاقت علی خان کی شہادت کے انیس سال بعد لوگوں کو جب حق رائے دہی کا حق ملا تو انہوں نے اْس وقت کی ساری قیادت کو قومی منظر نامے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔نئی نسل نے نئے تقاضوں کے مطابق اور اس سے ہم آہنگ قیادت کو سیادت سپرد کر دی۔اب عمران کی برخاستگی کے بعد سیاسی دانشوروں کو امید تھی کہ عمران خان کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ اس کو ملک کی سربراہی سے ہٹا کر کوئی طوفان یا کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔یہ سارے قیافے یہ سارے تجزیے سراسر غلط ثابت ہوئے۔وہ ایک اکیلا ایک طرف ہے اور پی ڈی ایم کی صورت میں باقی ساری جماعتیں ایک جانب ہیں۔اس کی مقبولیت نے اسے ایک نیا دم خم دے دیا ہے۔وہ پی ڈی ایم کو نو حلقوں سے کھڑا ہونے کا اعلان کر کے پریشان کر رہا ہے۔اس کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کی کسی میں سکت کسی میں حوصلہ نہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کو مری ریسٹ سے رہا کیا گیا تو ایک دنیا اس کی جانب دوڑتی آئی۔ چھ اگست ستتر کوبھٹو کے ٹرین کے سفر اور ریلوے اسٹیشنوں پر فقیدالمثال استقبال نے حکمرانوں کی نیندیں اڑا دیں۔وہ یوں کہ ٹرین کا سفر ہی اس کے لیے ممنوع قرار دیا گیا۔تب وہ بذریعہ ہوائی جہاز ملتان اور لاہور پہنچے۔اس کا سیاسی طور پر مقابلہ ناممکن ہو گیا۔اب بھی وہی صورت ِ حال ہے۔نوبت بایں جا رسید کہ عدالت میں درخواست دائر کی گئی ہے کہ عمران خان چونکہ پہلے ہی ایم این اے ہیں انہیں 9 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے۔