باپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو کہ اپنے بچوں کی پرورش کے لئے اپنی جان تک لڑا دیتا ہے ۔ و الد ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی خاندان کی نگرانی کرتا ہے ۔باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل وعیال اور اولادکو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کریا روکھی سوکھی کھاکرگزارہ کرتا ہے ، لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھاکھانا، پینا،تعلیم اور تربیت میسرہو ۔باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے خاتم النبیین سرور ِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’باپ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے ۔‘‘ ایک موقع پر ایک صحابی بارگاہ ِ اقدس میں حاضر ہوکر شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں ایسے موقع پر میں کیا کروں۔؟ خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیاتو او رتیرا مال تیرے والد ہی کیلئے ہے ۔یہاں پربڑی غورطلب بات ہے کہ باپ اک چھت کی مانند ہوتا ہے جس طرح ایک چھت گھر کے مکینوں کو موسم کے سرد گرم ماحول سے محفوظ رکھتی ہے ،اسی طرح باپ موسم کے ناروا سلوک سے ہمیں تحفظ دیتا ہے ۔ آندھی طوفان اور گرج چمک سے بچا کے رکھتا ہے ۔ اگر باپ کی عظمت کا پاس کرتے ہوئے اطاعت ،فرمانبرداری ،خدمت اورتعظیم کرکے اس کی رضاحاصل کی جائے تو اللہ پاک کی طرف سے ہمیں دین ودنیا کی کامیابیاں ، سعادتیں اورجنت ایسی نعمتیں مل سکتی ہیں۔ ماں باپ سی نعمت دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔ والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔اگر کسی کویہ نعمت حاصل ہے اوروہ اُن کی خدمت واِطاعت کررہاہے تو وہ بڑاسعادت مند اوراللہ کا محبوب بندہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’آپ کے پروردگار کا فرمان ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جا ئیں تو ان کو اُف تک نہ کہو۔ اور نہ ان کو جھڑ کو۔ بلکہ ان سے نر می سے بات کرو۔ اور اپنے بازوں کو نرمی اور عاجزی سے ان کے سامنے پھیلا ؤ۔ اور ان کے لئے دعا رحمت کرو۔ اے میر ے پروردگار !تو ان پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان لوگوں نے بچپن میں مجھ پر رحمت اور شفقت کی۔(بنی اسرائیل) اللہ تعالی نے اس آیت میں اپنی عبادت اور بندگی کے حکم کے ساتھ ہی والدین کے سا تھ نیکی اورحسن سلوک کا حکم بھی دیا ہے ۔ اس سے معلوم ہواکہ والدین کی خدمت نہایت ضروری اور اطاعت کی حامل ہے ۔ والدین اولاد پر ظلم زیادتی بھی کریں تو اولاد کو ان کے ظلم و زیادتی کا جواب دینے کی اجازت نہیں ہے ۔ بلکہ ان کو سراپا اطاعت و نیاز بنے رہنا چاہئے ۔ جھڑکنا تو دور کی بات ان کے سامنے اُف تک کرنے کی اجازت نہیں۔ اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ والدین کی زیارت کرنا حج کے برابر اجروثواب کا حامل ہے ۔سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کے چہرے کی طرف رحمت اورمحبت سے ایک نظر دیکھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک حج مقبول کا ثواب لکھ دیتا ہے ۔صحابہ کرام نے عرض کیا:اگر وہ ہر روز سو بار دیکھے تو؟ خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، اللہ سب سے بڑا ہے اور اس کی ذات بہت پاک ہے ، یعنی اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں،وہ سوحج کاثواب بھی عطافرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اورنیکی کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو۔ والدین کے حقوق ادا کرنادر حقیقت اللہ کی تابعداری ہے ۔ پس اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں مضمرہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا ،وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا ،وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا ،عرض کیا:کون یارسول اللہ ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے اپنے ماں باپ میں دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور پھر اُن کی خدمت نہ کر کے دخولِ جنت کا حق دار نہ بن سکا۔‘‘ او لاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اللہ اور خاتم النبیین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کے سوا والدین کے ہر حکم کی تکمیل کریں۔ اور ان سے ہمیشہ محبت اور نرمی کا سلوک کریں۔ ان کی رائے کو تر جیح دیں۔ یعنی ان کی رائے کو مقدم کرکے اسے تسلیم کریں۔ اوراس کی بجا آوری کریں۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے میں پہنچ جائیں۔ تو ان کے جذبات اور احساسات کا خیال کریں۔ ان سے نرمی اور محبت سے پیش آئیں۔ اپنی مصروفیات میں کچھ وقت ان کے لئے مخصوص کردیں۔ ان کی بھرپور خدمت کریں۔ اور ان کی وفات کے بعد ان کے ایصال ثواب کیلئے وقتاً فو قتاً دعائے مغفرت و رحمت کا اہتمام کرتے رہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔