تاجروں کی ملک گیر ہڑتال پر شہباز شریف کا تبصرہ حقیقت پسندانہ کیا جائے یا ستم ظریفانہ ؟ فرمایا‘ عمران خاں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پورے ملک کا لاک ڈائون کریں گے اور آج انہوں نے یہ وعدہ پورا کر دکھایا۔ شاید ان کے اپنے اندازے سے بھی زیادہ۔ چلئے‘ شہبازشریف صاحب یہ تو مان گئے کہ خان نے ایک وعدہ تو پورا کر دیا۔ خاں صاحب نے پچھلے برسوںمیں کتنے وعدے اور دعوے کئے تھے؟ گنتی کرنا تو بہت مشکل ہے لیکن فرض کر لیجیے ایک ہزار وعدے کئے تھے۔ ان میں سے ایک پورا ہو گیا تو باقی کتنے سچے؟ صرف 999پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ ٭٭٭٭٭ ایک صاحب اس ہڑتال کا موازنہ 1977ء کی ہڑتال سے کر رہے تھے حالانکہ وہ ہڑتال سیاسی تھی۔ یہ غیر سیاسی ہے اور تاجروں نے اپنے مسائل کے حوالے سے کی ہے۔ اگرچہ حکومت اور ایف بی آر نے اسے سیاسی کہا ہے لیکن جو غیر سیاسی ہے وہ غیرسیاسی ہی رہے گی‘ سیاسی کہنے سے سیاسی نہیں ہو جائے گا۔ یہ بات البتہ الگ ہے کہ غیر سیاسی ہڑتال کو سیاسی ہونے میں شاید زیادہ دیر نہ لگے؟ حالات ایسے اشارے دے رہے ہیں۔ اشارہ کیا‘ منظر دیکھئے۔ ملک میں کہیں کوئی تحریک نہیں چل رہی۔ کسی ضابطہ تحریک کی تاریخ بھی نہیں دی گئی اور پھر بھی ماحول سارے کا سارا کسی تحریک کا بنا ہوا ہے۔ ابھی تو سیاسی جماعتیں محض انفرادی جلسے کر رہی ہیں۔ پری مون سون بادلوں کے لکّے فلک پر تیرتے پھرتے ہیں اور اچانک سے گھل مل کر گھٹا بن جاتے ہیں۔ سارا ماحول تحریک کا ہے‘ ماحول سر میدان چاہے نہ دیکھیے ‘ ورکروں اور ترجمانوں کے بیانات ہی دیکھ لیجیے۔ اندیشہ ہائے قرب و جوار سے پر دھمکیانی لہجہ آنے والے دنوں کی تصویر ہی نہیں‘ حاضر صورت حال کا اشارہ بھی دے رہا ہے۔خیر‘ موازنے میں ابھی جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔1977ء کی ہڑتال اور حوالوں سے بھی مختلف تھی۔ مثلاً وہ کئی روز تک چلی۔ اس میں شٹر ہی نہیں ڈائون ہوا تھا۔ پہیہ بھی جام ہوا تھا۔ تاجروں کی حالیہ ہڑتال ایک روز کی ہے۔ حکومت نہ مانی تو آگے چل کر شاید یہ بھی کئی روز تک پھیل جائے۔یہ ہڑتال پورے ملک میں ہوئی۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہوئی۔1977ء کی ہڑتال زیادہ تر بڑے اور درمیانے درجے کے شہروں میں ہوئی۔ چھوٹے شہروں میں پیپلز پارٹی کے حامی زیادہ تھے۔ وہاں یا تو ہوئی نہیں یا جزوی رہی۔ 1977ء کی تحریک بہت بڑی تھی۔ کامیاب ہو جاتی تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہو جاتی لیکن امریکہ نے اسے بیچ راستے میں اصغر خاں کے ذریعے ہائی جیک کر لیا۔ آخر میں یہ تحریک جمہوری رہی نہ سیاسی‘ انتقامی ہو گئی۔ نئے الیکشن کا مطالبہ پیچھے رہ گیا‘بھٹو کو پھانسی دو کا مطالبہ منظر پر چھا گیا۔ امریکہ نے جمہوریت کا بوریا بستر گول کر کے بھٹو کو پھانسی دے دی اور پاکستان کا جمہوری اور آئینی کارواں بھول بھلیوں میں گم ہو گیا۔ ٭٭٭٭٭ تحریک کی پیش گوئی اپنی جگہ‘ جس طرح ڈنڈے مار مار کر لوگوں سے پیسے’’چھینے‘‘ جا رہے ہیں اور انہیں سوکھی روٹی ملنے کے امکانات بھی عدم امکان کے بلیک ہول کی نذر ہو رہے ہیں‘ اس کی بدولت ملک میں سماجی انارکی کے خدشات پیدا ہونے لگے ہیں۔ پتہ نہیں چارہ گروں کو اس کی خبر ہے کہ نہیں کل ہی جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے ایک ٹویٹ میں انگریز دور کے پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کارناموں پر روشنی ڈالی۔ فرمایا: ’’پاکستان میں رنجیت سنگھ کا صرف مجسمہ ہی نہیں‘ نظام بھی آ رہاہے۔ عوام سے زبردستی مال وصول کرنا‘ خوف اور بے یقینی پیدا کرنا۔ عوام کی آزادی اور اظہار رائے کو سلب کرنا’اسے ریاستی طاقت سے دبانا رنجیت سنگھی اسلوب ہے‘‘ بلوچ صاحب نے آخر میں بے فائدہ انتباہ کیا کہ عدم حکمت سب کو لے بیٹھے گی۔ بے فائدہ اس لئے کہ دانش عمرانی کچھ اور سمجھتی ہے۔ اس کے خیال میں عدم حکمت سے بڑھ کر کوئی حکمت ہے نہ حکمت عملی۔ بالکل ویسے ہی جیسے کسی نے کہا تھا کہ سب سے اچھی خبر کسی خبر کا نہ ہونا ہے۔ تو نیوز از گڈ نیوز۔ ٭٭٭٭٭ سماجی انارکی کے لئے میدان ہموار ہو نہیں رہا۔ ہو چکا ہے۔ تھڑے ٹھیلے اور کھوکھے گرا کر کتنے افراد بے روزگار کئے گئے؟ وہ الگ اور جو مہنگائی اور چھانٹیوں سے بے روزگار ہوئے اور ابھی ہونے والے ہیں‘سو الگ۔ گزشتہ روز انگریزی اخبار نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی رپورٹ چھاپی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ پانچ سال پہلے پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانیوں کی تعداد 44.5فیصد تھی۔2013ء اور 2018ء کے درمیان اس دور کی حکومت نے (احتیاطاً حکومت کا نام نہیں لے رہا) اس میں 6.2فیصد کمی کی اور یہ کم ہو کر 38.3فیصد پر آ گئی۔ سلسلہ معمول کے مطابق چلتا رہتا تو۔؟آئی ہوئی خوشحالی نے کیسا یوٹرن لیا۔ شاید یہ کم ہو کر 30فیصد ہو جاتی۔ لیکن اب کے حالات کچھ اور ہی طرف چل پڑے ہیں۔ پانچ ملین آبادی خط غربت سے نیچے لڑھک گئی ہے اور خود موجودہ حکومت کے حامی اکانومسٹ کہہ رہے ہیں کہ سال بہ سال یہ تعداد بڑھتی رہے گی۔ بے روزگار ہونے والے افراد بھی ملینز میں ہیں اور اگلے چند مہینوں میں پھر مسلسل تین سال تک بے روزگاری کی رفتارت تیز ہوتی جائے گی۔ حیرت ہوتی ہے۔ کسی اور ملک نے ایسا انوکھا تجربہ نہیں کیا۔ عوام مایوس اور مشتعل ہیں نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ چارہ گروں کو کسی نے خبر نہیں کی۔ خیر چلیے‘ چھوڑیے‘ اس بات کا جشن منائیے کہ عمران خان نے اپنے ایک ہزار وعدوں میں سے ایک کی تکمیل کر دی اور سارا ملک لاک ڈائون کر کے دکھا دیا۔