جمعے کی شام یکایک آسمان پہ جانے کہاں سے سیاہ بادل امڈ آئے اور رم جھم پھوار برسنے لگی۔ بچوں نے ’’بارش بارش‘‘ کا شور مچایا اور دونوں ہاتھ پھیلائے سر اٹھائے اور رحمت خداوندی سے شرابور ہونے کے لئے کھلے آسمان تلے ناچنے لگے۔ موسم ٹھنڈا ہو گیا‘ سرد خوشگوار ہوائوں سے جسم و جاں میں راحت کا احساس جاگ اٹھا اور تبھی بجلی غائب ہو گئی۔ آسمان مہربان ہوتا ہے تو زمین کا نظام تلپھٹ ہو جاتا ہے۔ ہے کوئی اس کا علاج اے چارہ گراں۔ اپنے ملک کی جو حالت ہے اور گردو پیش جو کچھ ہو رہا ہے عقل اسے سمجھنے سے قاصر ہے۔ بظاہر حکومت بھی موجود ہے‘ اسمبلی کے اجلاس بھی ہو رہے ہیں‘ بجٹ پر دھواں دھار تقریریں بھی جاری ہیں۔ نیب کے حکم پہ دو بڑی پارٹیوں کے سربراہ بھی اسیر زنداں ہیں۔ اپوزیشن اور سرکار کے مابین بیانات کی گولہ باری بھی ہو رہی ہے لیکن عقل خبط ہے کہ اس بحر کی تہہ سے اچھلتا کیا ہے اور آخر آخر کو تماشے سے نکلتا کیا ہے بس ایک خفیف سا احساس ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کی لگام نہ حکومت کے ہاتھوں میں ہے اور نہ اپوزیشن کے۔ کوئی یہ سمجھے کہ ہمارا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے تو ایسا بھی نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ تو خود حیران و سرگرداں ہو گی کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے اندازوں اور توقعات سے ماسوا ہے۔ دفتروں سے تجارت گاہوں تک‘ غریبوں سے گداگروں تک‘ کوئی محروم نہیں‘ سب کچھ ویسا ہی ہے جیسے ہمیشہ سے تھا۔ زبانوں پہ شکوے ضرور ہیں لیکن گھروں میں چولہے ویسے ہی روشن ہیں اور بچوں کی فرمائشوں میں اور ان کی تکمیل میں بھی کوئی کمی نہیں۔ کے ایف سی میکڈونلڈ کے ہرکارے رات گئے موٹر سائیکلوں پہ متوسط اور نچلے متوسط علاقوںمیں آرڈرز لئے بھاگتے پھرتے ہیں۔ آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بنک اور صاحب حیثیت ملکوں کے جن قرضوں کا اور سود در سود ادائیگی کے بوجھ کا جو شہرہ ہے اور یہ انتباہ کے ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنے ملک میں مقروض پیدا ہوتا ہے۔ اس کی جھلک عوام کی اپنی زندگی میں کتنی نظر آتی ہے؟ سبزی مہنگی‘ گوشت مہنگا‘ انڈے‘ دودھ اور ڈبل روٹی مہنگے‘ کیوں کہ پٹرول مہنگا بجلی اور گیس مہنگی۔ لیکن زندگی اسی طرح چل رہی ہے۔ کاروبارزیست میں ایسی کوئی کمی نہیں کہ لوگ باگ بلبلاکر سڑکوں پہ نکل آئیں ملک کا جو منظر نامہ ہے اس میں بے کسی ‘ بے بسی‘ افلاس اور فلاکت و حرماں نصیبی ویسی ہی اور اسی قدر ہے جیسی پہلے بھی تھی اور جو پڑوس کے ملکوں میں بھی ہے اور شاید ہم سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ مہنگائی اور افلاس کی صورت حال جاننے کے لئے اس خاکسار نے جب بھی کسی چپڑاسی ‘ کسی چوکیدار ‘ کسی مزدور‘ کسی فوجی‘ کسی چھابڑی والے سے پوچھا ہے: بھائی! زندگی کیسی گزر رہی ہیٖ اس نے جواب میں یہی کہا ہے کہ مالک کا کرم ہے اس کی مہربانی ہے۔ یعنی اندازہ لگائیے کہ بچے ہیں چھ سات عدد، آمدنی ہے سترہ اٹھارہ ہزار‘ دو کمروں کا گھر بھی کرائے کا‘ بجلی‘ پانی‘ گیس کی بھی ادائیگی ‘ روٹی‘ دال‘ نان نفقہ‘ بیماری دکھی‘ پہننا اوڑھنا‘ بچوں کا سکولوں کو بھی جانا سب ضرورتیں کسی نہ کسی طرح پوری ہو جاتی ہیں۔ صرف سترہ اٹھارہ ہزار کی آمدنی میں۔ عقل حیران مگر کیسے کتاب اللہ میں وعدہ فرمایا گیا کہ بے شک تنگی کے بعد فراخی ہے۔ بے شک تنگی کے بعد فراخی ہے۔ غور کیا تو کھلا کہ تنگی کے بعد فراخی تو ہے ہی کہ آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جونان شبینہ کے محتاج تھے‘ اب لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں میں کھیلتے ہیں۔ لیکن اگر معنی یہ بھی نکلے کہ بے شک تنگی کے بعد ہی نہیں‘ تنگی میں رہتے ہوئے بھی فراخی ہے۔خداوند تعالی کے نزدیک قلت و کثرت کی کیا اہمیت جس طرح وہ خیر سے شر اور شر سے خیر پیدا کرنے پر قادر ہے ویسے یہ محدود اور تھوڑی روزی میں سب ضرورتوں کو پوری کر دینا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ تو اس ملک میں بجٹ خواہ عوام دوست آئے یا عوام دشمن‘ حکومت اللوں تللوں میں پڑے یا کفایت شعاری سے چلے معاشی پالیسی مستحکم ہو یا ملک کو کسی معاشی پالیسی سے محروم رکھ کر ہی چلایا جائے وہ جس کا زمینوں آسمانوں میں حقیقی اقتدار ہے اور جو بے نیاز ہو کر بھی بے نیاز نہیں‘ وہی ہے جس کی برکت سے گھروں کے چولہے جلتے ہیں اور بھوکوں کی بھوک مٹتی ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ملک میں ایک عادل ایماندار ‘ درد مند اور با بصیرت حکومت کی ضرورت نہیں اور عوام کو حکومت اور حکمرانوں سے کوئی امید‘ کوئی توقع نہ رکھنی چاہیے۔ اس ملک خداداد میں جیسی حکومتیں آتی رہی ہیں اور ان کے حکمران جس کروفر سے حکومتیں کرتے رہے ہیں‘ ان کے صرف انجام کو یاد کر لیا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں اگر نشان عبرت بنایا گیا تو کس نے بنایا۔ عبرت ہے دیکھنے والی آنکھوں کے لئے۔ مگر تم عبرت کم ہی پکڑتے ہو۔اگر یہ غفلت نہ ہوتی تو ہر آنے والا حکمران جانے والے کے انجام سے سیکھ کر عبرت پکڑ کر راستی پر رہتا ۔ ہمارے حکمرانوں کے انجام پر ذرا غور تو کیجیے کوئی گوشہ گمنامی میں مرا‘ کسی کو اپنے ملک کی مٹی نصیب نہ ہوئی‘ کوئی فالج زدہ ہو کر دنیا سے گیا۔ کسی کو رات کی تاریخی میں پھانسی کا پھندا لگا۔ کوئی طیارے کی تباہی میں ایسا خاکستر ہوا کہ کوئی عضو سلامت نہ ملا۔ کسی کے غرور و تمکنت کی یہ سزا ملی کہ آج کوئی اسے یاد کرنے والا پوچھنے والا نہیں‘ طرح طرح کی بیماریوں میں الگ مبتلا اور کسی کی جوان اولاد کی جواں مرگی نے ادھ موا کر دیا۔ اور آج کوئی سزائوں اور مقدموں میں پھنسا کال کوٹھری میں اپنے انجام کا منتظر ہے۔ ان میں کوئی ایک حکمراں بھی تو ایسا نہیں کہ جس نے آٹھ دس برس کی عیش و عشرت کی حکمرانی کے بعد سکون‘ آسودگی اور فارغ البالی کے دن گزارے ہوں۔ کاش کوئی محقق‘ کوئی مصنف اس حوالے سے ہمارے ملک کی تاریخ قلم بند کرے کہ ملک اور عوام کی خوش حالی اور دکھ سکھ سے بے نیاز ہو کر زمام حکومت سنبھالنے والے اور اپنے آپ ہی کو ملک عزیز کا مالک و مختار سمجھنے والوں کو وقت حالات اور قدرت نے کس انجام تک پہنچایا۔ آخر مغربی ممالک میں وہاں کے حکمراں اس انجام تک کیوں نہیں پہنچتے؟ ذرا اس فرق پر بھی غور کر لیا جائے۔ دکھ تو یہی ہے کہ دستور کے دیباچے یعنی قرار داد مقاصد میں یہ سب کچھ لکھ کر بھی ہم اس پہ سچا عقیدہ اور یقین نہیں رکھتے اس ملک کا اصل معما اسی حقیقت میں مضمر ہے۔ اے کاش ! یہ حقیقت کبھی ہم پہ کھل سکے۔