شاید کسی دن اقبالؔ کا یہ شعر ان کے دل میں پڑاؤ ڈالے غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا جنوبی پنجاب میں حمزہ شہباز کا دورہ کامیاب رہا۔بلاول بھٹو کی ساری محبت اکارت گئی۔ ان کی بوئی فصل حمزہ نے کاٹ لی۔ بلاول کے دعوے باطل ہیں۔ مقابلہ نون لیگ اور پی ٹی آئی میں ہوگا۔ معلوم نہیں، شہباز شریف اور عمران خاں یا کپتان اور مریم نواز میں۔ اردن کے شاہ عبد اللہ کے بعد ان کے بھائی شاہ حسن کو تخت نشیں ہونا تھا۔ آخری وقت میں امریکیوں نے ان سے منوا لیا کہ حکومت اپنی انگریز بیوی کے صاحبزادے کو سونپ دیں۔ شاہ عبد اللہ بہت پرجوش اور متحرک آدمی تھے۔خود جہاز اڑایا کرتے۔ خطرہ درپیش ہوتا تو بے رحمی سے مخالفین کو کچل ڈالتے۔ شریفِ مکہ کے پوتے تھے، جن کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا: یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیمِ بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا اور یہ کہا تھا: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیﷺ خاک و خوں میں مل رہاہے ترکمانِ سخت کوش عثمانی سلطنت ٹوٹی تو انگریزاستعمار نے درجنوں چھوٹے، بے بس ممالک اگا دیے۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد برطانیہ کی جگہ انکل سام نے لے لی۔ وہی پاکستان جیسی اشرافیہ ۔ تاویل کا پھندہ کوئی صیاد لگا دے یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد برصغیر کے راجے، مہاراجے، تمن داراور جاگیردار بھی یہی تھے۔ تیس برس ہوتے ہیں، دریائے سندھ کے کنارے ایک خان سے ملنے گیا۔ دیکھا کہ دیواروں پر انگریز افسروں اور سکھ سرداروں کی تصویریں ہیں۔ جاگیردار کے آبا گھوڑوں کی لگامیں پکڑے کھڑے ہیں۔ کچھ نہیں بدلا، کچھ بھی نہیں بدلا۔ مزدور کوچہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی۔ عجیب قوم ہے، یہ عجیب قوم۔ قائدِ اعظم ایسے متوکل، اقبالؔ ایسے علمی مجدد اور خواجہ مہر علی ایسے درویش کو سموچا نگل گئی۔ وہی زمین و آسماں، وہی آقاوغلام۔ ابھی ابھی ایک تصویر کسی نے بھیجی ہے۔اویس لغاری حمزہ شہباز کی گاڑی کے پائیدان سے لٹکے ہیں۔ انتیس برس ہوتے ہیں، ایک قافلہ لے کر نواز شریف ڈیرہ غازی خاں پہنچے تھے۔ فاروق احمد خاں لغاری صدرِ پاکستان تھے۔ دیانت و امانت کے پیکر نواز شریف کا ایک جملہ آج تک کانوں میں گونجتا ہے ’’یہ انگریزوں کے کتے نہلانے والے جاگیردار ہیں۔‘‘ 30اکتوبر 2011ء کو لاہور میں پی ٹی آئی کے تاریخی جلسہء عام کے بعد ریوڑ کے ریوڑ کپتان کی طرف بھاگے۔ ان میں پندرہ بیس ارکانِ اسمبلی اور سینیٹر بھی تھے، اسلام آباد میں جو جہانگیر ترین کے دولت خانے پر جمع ہوئے۔ فیصلہ کیا کہ گروپ بنا کر عمران خاں سے الحاق کریں گے۔ مشورے کے لیے ناچیز کو بھی طلب کیا۔’’اس طرح نہیں ہوتا‘‘ عرض کیا، اس طرح نہیں ہوتا۔ پیپلزپارٹی کو خیر باد کہنے والے گوجوانوالہ کے سرورچیمہ مرحوم کو ناچیز کا خیال خوش آیا۔ ہر چند کوئی بڑے سیاسی دانشور اور مدبر نہ تھے مگر یکسوئی بہت۔ کمال جوش و جذبے کے ساتھ انہوں نے کہا:تبدیلی کے لیے خدا کی مخلوق بے چین ہے اور آپ لوگ مخمصے کا شکار۔ قدرے رنجیدہ، تیور ان کے یہ تھے: اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں کچھ دن کے بعد پھر ملاقات ہوئی۔ اب تقریباً آشکار تھا کہ بہت سا قیمتی وقت عمران خاں نے پارٹی الیکشن میں ضائع کر دیا۔نواز شریف کے ظفرمند ہونے کا امکان اب زیادہ تھا۔ لغاری خاندان اب مخمصے کا شکار تھا۔ نوجوان اویس نے چونکہ، چنانچہ کی تکرار شروع کی تو ملال ہوا۔ اویس ایک بابرکت نام ہے۔ اکثر ان لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، زندگی کو جو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور اپنی ترجیحات خود مرتب کرتے ہیں۔ کردار صرف نام سے متعین نہیں ہوتابلکہ گھریلو اثرات، ماحول اور تعلیم سے بھی۔ علم الاسما کی رو سے کسی اویس کا مخمصے میں مبتلا ہونا تعجب خیز نہیں مگر مرعوب ہونا حیرت انگیز ہے۔ ’’انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔‘‘ جہانگیر ترین سے عرض کیا جو اس گروہ کے سردارتھے۔باقی تاریخ ہے۔ اس میں اگرچہ کوئی کلام نہیں کہ جہانگیر جتنا عرصہ پی ٹی آئی میں رہے، یکسو رہے۔ غلطی شاید یہ کی کہ سبھی کچھ عمران خاں کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ غیر مشروط محبت صرف خالق سے ہوتی ہے، مخلوق سے نہیں۔ حافظ ابنِ قیم نے کہا تھا: اللہ کے سوا کوئی بھی محبت آخر کو درماندہ کرتی ہے۔ لغاری خاندان اپنے گرامی قدر والد کی پیہم تحقیر کرنے والے شریف خاندان کے درِ دولت پہ جا جھکا۔ پچھلے الیکشن میں زرتاج گل نے انہیں شکستِ فاش دی۔ایک عام سی خاتون چیخنے چلانے اور جذبات کی آگ بھڑکانے کے سوا جو کچھ بھی نہیں جانتی۔ اپنے خطے میں لغاری خاندان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔جاگیر دار ہونے کے باوجود اویس کے پرداداجمال خاں لغاری ایک پابندِ شرع آدمی تھے۔ دادا کو البتہ کاروبارِ دنیا سے شغف زیادہ تھا۔ اگرچہ امریکہ کے ایک بہت بڑے معالج نے کیا مگر سردار فاروق احمدخاں لغاری کے دل کا آپریشن مگر نتیجہ خیز نہ ہوا۔ حیاتِ فانی کے آخری ایام میں فاروق لغاری گریہ کیا کرتے کہ زندگی رائیگاں رہی۔ ناچیز کا ان سے رابطہ رہا کرتا۔ عرض کیا کرتا: غلطیاں ضرور آپ سے سرزد ہوئی ہوں گی،نسبتاً ڈھنگ کی زندگی آپ نے گزاری ہے۔ خوشامد کو شعار نہیں کیا۔اللہ کی رحمت سے آپ مایوس کیوں ہوتے ہیں۔جہاندیدہ آدمی نے اس حقیر سے پوچھا، میں کیا کروں؟ عرض کیا:وہی جو آپ کیا کرتے ہیں۔ تہجد پڑھا کیجیے، نماز کے علاوہ مسنون دعائیں بھی۔پروردگار کا حکم یہ ہے کہ مایوسی کفر ہے۔ ایک دن بولے:نیک آدمی ہیں،آپ پرسکون میں رہ سکتے ہیں۔ عرض کیا: قطعی ایسا نہیں لیکن پروردگار کے کرمِ بے پناہ سے مایوس کیوں ہوا جائے۔ سرائیکی وسیب کے بارے میں یہ دعویٰ غلط ہے کہ ابن الوقت اس نے زیادہ جنے ہیں۔ نواب زادہ نصر اللہ اور سردار شیر باز مزاری ایسے فرزند جہاں جگمگائے،یہ طعنہ اس کے لیے؟ کیا عجب کہ نظرِ ثانی کریں۔اویس لغاری بھی ایک دن لوٹ آئیں۔بے شک نون لیگ ہی میں رہیں مگر پائیدان پر نہیں۔ شاید کسی دن کوئی انہیں بتائے کہ ایک ولندیزی کہاوت قائدِ اعظم کو پسند تھی ’’دولت لٹی تو کچھ بھی نہ لٹا، وقت رائیگاں ہوا تو بہت کچھ رائیگاں، عزتِ نفس گئی تو سب کچھ گیا۔‘‘ شاید کسی دن اقبالؔ کا یہ شعر ان کے دل میں پڑاؤ ڈالے غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا