چشم بد دور … چشم ما روشن دل ماشاد … شالا نظر نہ لگے اور اللہ زورِ سیاست اور زیادہ کرے۔ مولانا آج کل میڈیا میں کھڑکی توڑ رش لے رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں کسی سینما میں فلم دیکھنے کے لیے لائن لگا کر ٹکٹ لینا پڑتی تھی۔ اس ٹکٹ کے لیے جو کشاکش ہوتی تھی اُسے کھڑکی توڑ رش کہتے تھے۔ پنڈت سر پر ہاتھ رکھے اندازے پر اندازہ لگا رہے ہیں۔ مگر یہ آواز ہے کہ بار بار سنائی دے رہی ہے ’’جینا ہوگا … مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا … دھرنا ہوگا‘‘۔ انتخابی سیاست میں تو مولانا بساط ہار چکے ہیں۔ نہ بلوچستان … نہ کے پی کے اور نہ ہی کشمیر کمیٹی وغیرہ۔ عوام کی یاد داشت بڑی کمزور ہوتی ہے اور وہ صرف حال میں جیتے ہیں۔ مگر ذہن پر تھوڑا سا زور دیں تو پرویز مشرف اور مولاناز کی متحدہ مجلس عمل کا رومانس سبھی کو یاد آجائے گا۔ جیت کے تمام دروازے کھلے تھے متحدہ مجلس عمل کے لیے 2002ء میں۔ کمبی نیشن تھا، مُلا، مشرف کا۔ پھر آئی پی پی پی اور نون۔ دونوں کی اپنی اپنی کمزوریاں ہیں اور مولانا ان سے بخوبی آگاہ ہیں۔ کب سندھ والوں سے ہاتھ ملانا ہے اور کب پنجاب میں نون یا قاف سے، یہ مولانا سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اللہ بھلا کرے ان کا جو الیکشن لڑتے تو نہیں مگر کنگ میکر ضرور ہوتے ہیں۔ وہ جب بھی کسی کی سیاست اور حکومت کو طاقت کا انجیکشن لگانا چاہتے ہیں یا کچھ خون نکالنا چاہتے ہیں تو مذہبی کارڈ استعمال ہوجاتا ہے۔ ورنہ یہ کارڈ جب بھی کھیلا گیا سیاستدان بدحواس بھی ہوئے اور بوکھلا کر سجدہ ریز بھی۔ مسلمان ملکوں میں اگر بے چہرہ قوتیں چاہیں تو یہ کارڈ کھیلتی ہیں۔ ہمارے ہاں ذرا زیادہ کھیلا گیا … اب بعض وجوہات (قومی نہیں) کی بنا پر اس کارڈ کو سائیڈ لائن کردیا گیا۔ ایسے میں بہت سے کردار بدلے گئے۔ عالمی وجوہات نے مولاناز کے ایور گرین کارڈ کو متروک کردیا۔ ترجیحات بدل گئیں۔ بہت سے مذہبی راہنما آئوٹ آف جاب ہوگئے۔ مولانا کے پاس سیاسی ذہن بھی ہے اور مدرسہ کی قوت بھی۔ انہیں یہ بات ہضم نہیںہورہی کہ وہ قوت اور اقتدار کی غلام گردشوں سے مکمل باہر ہیں۔ وہ پاور شیئر چاہتے ہیں۔ مگر وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔ مولانا کے حریف بھی مانتے ہیں کہ طاقت کی بساط پر وہ اپنے مہرے بڑی خوبصورتی سے کھیلتے ہیں۔ کچھ سوالات ہیں جو قومی افق پر بار بار Blink کررہے ہیں۔ مولانا دھرنا دیں گے یا نہیں؟ پیپلز پارٹی اور نون کیوں ہچکچا رہی ہیں؟ مولانا کے اس دھرنے کے پس پردہ عزائم کیا ہیں؟ کیاکسی نے مولانا کو اشارہ دیا ہے؟ اگر دیا ہے تو کیوں؟ کیاادارے اور حکومت ایک صفحے پر نہیں؟ اگر پیچ ایک ہی ہے تو پھر یہ ماجرا کیا ہے اور آخر اس درد (سردرد) کی دوا کیا ہے؟ اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز اور پاور کوریڈورز میں یہی چند موضوعات کھلم کھلا بھی اور سرگوشیوں میں بھی چل رہے ہیں۔ بات تو یہ بھی ہورہی ہے کہ آپ بھارت اور امریکہ کو ہینڈل تو کر نہیں پارہے تو پھر آپ سعودیہ… ایران ثالثی کی طرف کیوں چل پڑے؟ مگر اس وقت صرف مولانا اور ان کا دھرنا۔مولانا کو یہ پتہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون کو اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات۔ ایسے میں انہیں حکومت، طاقت او رسیاست کی فکر کم ہے اور اپنی اپنی بقا کی زیادہ۔ اس وقت بلاول کی بڑھکوں اور ڈائیلاگز کے باوجود آصف زرداری شدید دبائو میں ہیں اور اس لیے ان کی سیاست بھی۔ مسلم لیگ (ن) مکمل طور پر ڈائریکشن کھو چکی ہے۔ میاں نوازشریف موجودہ شکنجے سے مکتی چاہتے ہیں۔ اس کے لیے دونوں بھائی سجدئہ سہو کرنے کو تیار بلکہ کرچکے ہیں۔ مریم کی گولہ باری تھم چکی ہے۔ مریم اورنگ زیب، پرویز رشید اور خود مریم نواز جیسے عقاب مہر بلب ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن کہاں ہے؟ کسی زمانے میں مریم کہا کرتی تھیں بذریعہ ٹویٹ ’’گلیاں ہوجان سنجیاں … وچ مرزا یار پھرے‘‘۔ اپوزیشن کا پائے دان خالی سہی مگر اس وقت عمران خود اپنی اپوزیشن ہیں۔ معاشی سرگرمیاں ناک کے بل پر زمین پر گر چکی ہیں۔ عام آدمی تیزی سے پگھلتا جارہا ہے۔ اگر ایک ملین بیروزگار ہوا ہے تو چار ملین خطِ غربت سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ مولانا کو پتہ ہے کہ ان کے دھرنے کی کامیابی کے امکانات زیرو ہیں۔ مولانا کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے استحکام کو درہم برہم کرنے کے لیے بہت سی مرکز گریز قوتیں بھی سرگرم عمل ہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ وہ جو وفاق سے دور جانا چاہتے ہیں اُنہیں کون فنانس کر رہا ہے؟ ایسے میں مولانا اپنی دکان کی مشہوری کے لیے … اپنے سودے کی افادیت دکھانے کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ پاکستان جس جگہ کھڑا ہے … حکومت اوراداروں کو فوکس کی شدید ضرورت ہے۔ مگر ایسے میں حکومت اپنا فوکس لوز کرچکی ہے۔ اپنی پرفارمنس سے مایوس کررہی ہے۔ عمران خان بعض پالیسی ایشوز پر دھرنے جیسی ہٹ دھرمی پر براجمان ہوچکے ہیں۔ ان کا بیانیہ مخالف سیاسی قوتوں کے حوالے سے جتنا غیرلچکدار ہے … بے چہرہ قوتوں کو سوٹ نہیں کرتا۔