سال 1990ء کشمیر کیلئے ایک قیامت تھا۔ 19جنوری کی رات جب جگموہن ملہوترہ نے گورنر ی کا چارج سنبھالا، سرینگر کے وسط میں گاوٗکدل علاقہ پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے نام پر 50افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ جنوری کے مہینے میں ہی وادی کے طول و عرض میں ایک اندازہ کے مطابق 300کے قریب افراد ہلاک کر دیئے گئے تھے۔ اسی سال مئی میں میر واعظ مولوی محمد فاروق کے جنازہ کے جلوس پر فائرنگ سے 60افراد ہلاک ہوگئے۔ دہلی میں گو کہ ان دنوں کشمیر طلبہ کی تعداد نہایت قلیل تھی، مگر سبھی ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار تھے۔ کشمیر سے آئے دن قتل عام کی خبریں متواتر موصول ہو رہی تھیں۔ ٹیلیفون و ڈاک کا نظام درہم برہم تھا۔ پولیس کی نگرانی سے نظر بچاتے ہوئے چند طلبہ روز کسی نہ کسی سفارتی مشن یا میڈیا کے اداروں کا دروازہ کھٹکھٹا کر کشمیر میں ہورہے قتل عام پر ان کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ بھارت میں سوشلسٹوں کا ایک طبقہ ہمیشہ سے ہی کشمیر کیلئے ایک نرم گوشہ رکھتا تھا ۔ جس میں مردولا سارابائی، رام منوہر لوہیا اور جے پرکاش نارائن کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس قبیل میں آخری نام جارج فرنینڈس کا تھا، جن کا حال ہی میں 88برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ 1989ء میں کانگریس کی شکست کے بعد انکو وزرات امور کشمیر کا اضافی چارج دیا گیا تھا۔ یہ وزارت پہلی بار قائم ہوئی تھی اور جلد ہی وزارت داخلہ کے احتجاج کے بعد ختم بھی ہوئی۔گاوٗ کدل کے قتل عام کی خبریں جب دہلی پہنچی، تو تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ہمدرد میں زیر تعلیم چند دیگر طلبہ کے ہمراہ بے بسی کے عالم میں احتجاج درج کروانے کی خاطر ہم جارج فرنینڈس کی رہائش گاہ تین کرشنامینن روڑ کے باہر بیٹھ گئے۔ اسی دوران جب پولیس والوں نے وارننگ دینی شروع کی، تو فرنینڈس نے باہر آکر ہمیں تسلی دی ۔ گو کہ اسی وقت محسوس ہوا کہ ان کی تسلی میں زیادہ دم نہیں تھا، مگر انہوں نے ہمیں حقوق انسانی کے سرگرم کارکنان روی نئیر، تپن بوس، سمنتا بنرجی، دنیش موہن اور گوتم نولکھا سے متعارف کروایا۔ ان سے یہ رشتہ ابھی بھی برقرار ہے۔ روی نئیر جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی ڈاکومینٹیشن کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے۔ فلم میکر تپن بوس، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) میں استاد دنیش موہن، سمانتا بنرجی اور گوتم نولکھا پر مشتمل وفد نے فروری 1990ئمیں کشمیر کا دورہ کیا۔ یہ کسی انسانی حقوق کے وفد کا کشمیر کا پہلا دورہ تھا۔ واپسی پر مارچ میں انہوں نے ’’کشمیر میں بھارت کی جنگ‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل رپورٹ جاری کرکے ایک تہلکہ مچا دیا۔ عالمی اداروں میں ابھی بھی اس رپورٹ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ دہلی میں یہ بات زد و عام تھی کہ جارج فرنینڈس کی ایما پر یہ رپورٹ ترتیب دی گئی تھی ، جو خود مرکزی وزیر تھے۔بعد میں مرحوم ایڈوکیٹ سالار محمد خان نے تپن بوس کے دفتر سے ہی’’ کشمیر ڈوزیر‘‘ نام سے ایک جرنل شائع کرنا شروع کیا جس کیلئے مواد وجمع کرنے اور پروڈکش وغیرہ کیلئے میں ان کی مدد کرتا تھا۔ یہ جرنل ان حالا ت میںکشمیر کے روز مرہ کے واقعات دہلی کے مختلف حلقوں تک پہنچانے میں خاصا مدد گار ثابت ہوا۔ جنوبی بھارت کے شہر منگلور میں 1930ء میں پید ا ہوئے فرنینڈس کو ان کے والد ایک پادری بنانا چاہتے تھے۔ مگر تین دہائی بعد وہ اقتصادی دارالحکومت بمبئی کے ایک قد آور ٹریڈ یونین لیڈر کے طور پر ابھرکر سامنے آ گئے ۔ 1974ء میں بھارت کی اب تک کی سب سے بڑی ریلوے ہڑتال کے محرک اور اندرا گاندھی کی حکومت کے خلاف ایک موثر آوازکے بطور وہ نوجوان طبقہ کیلئے ایک مقناطیسی شخصیت تھے۔ بہار میں لالو پرساد یادو ، نتیش کمار ان گنت سوشلسٹ لیڈروں سمیت وہ جنوب اور شمال مشرق کی کئی تحریکوں کے ایک طرح کے سرپرست تھے۔ 1976ء میں ایمر جنسی کے دوران ہتھکڑی پہنے ان کی تصویریں، خاصے عرصے تک مزاحمتی تحریکوں کیلئے ایک سمبل کا کام کرتی تھیں۔ 1977ئمیںایمرجنسی کے خاتمہ اور اندرا گاندھی کی شکست کے بعد بہار کے مظفر پور سے لوک سبھا کیلئے منتخب ہوگئے اور مرکزی وزیر بنائے گئے۔ چونکہ وہ بھارت کے ہر مرض کو اور کشمیر کے مسئلہ کو بھی کانگریس اور نہرو۔گاندھی خاندان اور انکے خاندانی راج کی دین سمجھتے تھے، اسلئے ان کی مخالفت میں کسی کے ساتھ بھی سمجھوتہ کرنے کو صحیح ٹھہراتے تھے۔ کانگریس مخالف سوشلسٹ اتحاد جنتا پارٹی اور جنتا دل کے تجربہ کی ناکامی کے بعد انہوں نے سمتا پارٹی تشکیل دیکر اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی سے اتحا د کرکے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس ( این ڈی اے) کی بنیاد ڈالی۔ وہ اس اتحاد کے کنوینر تھے۔ ان پر الزام لگایا جاسکتا ہے کہ ہندو قوم پرستوں کو انہوں نے ایک طرح سے سیاسی حیثیت عطا کی، ورنہ عموماً بھارتی سیاست میں وہ شجر ممنوعہ تھے۔ جب بھی ان کو یہ یاد دلایا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ اندرا گاندھی کا غرور پاش پاش کرنے اور اسکو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے جے پرکاش نارائین نے بھی تو راشٹریہ سیوم سنگھ اور جن سنگھ سے ہاتھ ملایا تھا۔ واجپائی حکومت میں وہ وزیر دفاع رہے۔ ستم ظریفی یہ رہی کہ پوری زندگی عالمی نیوکلیئر مخالف مہم کے سرخیل ہونے کے باوجود 1998ئکے جوہری دھماکے انہی کے دور وزارت میں کئے گئے۔ واجپائی کی زیر قیادت پچھلی این ڈے اے حکومت اور نریندر مودی کی زیر سربراہ موجودہ این ڈی اے حکومت میںجو واضح فرق ہے وہ جارج جیسے زیر ک سیاستدان اور برجیش مشرا جیسے تخلیقی سفارت کار کی عدم موجودگی ہے۔ جارج اتحادیوں کی موثر نمائندگی کے علاوہ ہندو قوم پرستوں پر لگام لگانے کے ساتھ ساتھ حکومت کے اندربھی ایک کشن کا کام کرتے تھے۔ گو کہ بطور وزیر دفاع اپوزیشن نے انکو مختلف دفاعی سودوں کے اسکینڈلوں میں گھسیٹنے کی خاصی کوشش کی، تاہم ان کی نجی زندگی خاصی سادہ تھی۔ نئی دہلی کے کیپٹل ایریا جس کو لارڈ لٹن کے نام پر لٹن زون بھی کہتے ہیں۔ (جاری ہے)