گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے پریس کانفرنس میں معاشی بہتری کے فیصلوں اور ان کے اثرات کو اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کافی حد تک معاشی استحکام پیدا ہو گیا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ معاشی فیصلوں میں ملکی مفاد کو اولیت دی جا رہی ہے۔ اپنی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے رضا باقر نے کہا کہ غیر یقینی صورت کا خاتمہ کریں گے اور حکومت سٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے گی۔ روپے کی قدر پر نظر رکھی جائے گی اور عدم استحکام بڑھا تو مداخلت کریں گے۔ گورنر سٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر دینے کا بتایا۔ انہوں نے اطلاع دی کہ آئی ایم ایف 3جولائی کو پیکج کا اعلان کر دے گا۔ گزشتہ برس جولائی میں تحریک انصاف کو حکمرانی کا مینڈیٹ ملا۔ اس حق حکمرانی کے ساتھ کئی ذمہ داریاں نئی حکومت کی فوری توجہ کی طلبگار تھیں۔ غیر ملکی قرضوں کا حجم ہماری جی ڈی پی کو کھانے لگا ہے۔ پیداواری شعبہ غیر فعال ہونے کی وجہ سے برآمدات کم ہو رہی تھیں، زرمبادلہ کا خطیر حصہ درآمدات کا بل ادا کرنے پر خرچ ہو رہا تھا، تجارتی خسارہ مسلسل بڑھنے سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر پر دبائو پڑا ۔ نئی حکومت کے لیے بہت سے معاملات توجہ طلب تھے۔ احتساب کا وعدہ نبھانا تھا، اداروں میں سرایت ہو چکی بدانتظامی کو ختم کرنا تھا، خارجہ تعلقات میں کئی بگاڑ تھے ان کی اصلاح کرنا تھی۔ بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزگار کی سکیمیں تیار کرنا تھیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کو عام شہری کی چادر اور چار دیواری کا احترام کرنے کے لیے تیار کرنا تھا۔ کھیلوں اور ثقافت کے فروغ کے لیے فیصلے کرنا تھے۔ خطے میں بالادستی کے خواب دیکھنے والے بھارت کو برابری کی سطح پر آ کر مذاکرات سے تنازعات طے کرنے کا سبق پڑھانا تھا۔ صحت، تعلیم اور ماحولیات کے شعبوں میں اہم کام ہونے والے تھے ان پر نئی حکومت نے منصوبہ بندی کرنا تھی۔ یہ منصوبے اس وجہ سے عمل کا منہ نہیں دیکھ سکے کہ ان کے لیے درکار فنڈز قرضوں کی واپسی کی صورت میں ادا کیے جا رہے تھے۔ ملکی معیشت تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی بحران کی زد میں دکھائی دینے لگی۔ جو خرابیاں قالین کے نیچے چھپا دی گئی تھیں وہ باہر نکلیں تو معیشت پے در پے نقصان اٹھانے لگی۔ اس صورت حال کو سنبھالا دینے کے لیے حکومت کے پاس محدود امکانات تھے۔ وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور چین گئے۔ عرب دوستوں اور چین نے مالیاتی مدد فراہم کی۔ ملائیشیا سے ہم نے ایف اے ٹی ایف میں مدد اور قرضوں میں جکڑی معیشت کی بحالی کے لیے مشاورت کی۔ حکومت نے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا تا کہ لوگ قانونی طریقہ کار کے مطابق ریاست کے ٹیکس ادا کر سکیں۔ سابق ادوار میں سرکاری خزانے کا بڑا حصہ حکمرانوں اور ان کے خاندان کی تشریفات پر لٹا دیا جاتا تھا، وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سرکاری رہائش، دفتر اور دیگر اخراجات میں کمی کر دی۔ پوری حکومت کو کفایت شعاری کا پابند کیا گیا ہے۔ اپوزیشن حلقوں نے ان اقدامات کا تمسخر اڑایا۔ حکومت نے بہتری کی کوششوں کو مؤثر بنانے کے لیے اسد عمر کی جگہ زیادہ تجربہ کار ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ مقرر کیا۔ ایف بی آر کے سربراہ کے طور پر شبر زیدی کی تعیناتی ہوئی اور گورنر سٹیٹ بینک کے عہدے پر مصر میں آئی ایم ایف کے سینئر عہدیدار رضا باقر کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ ان تعیناتیوں اور انتظامی اقدامات کے فوائد تاحال عوام کی سہولت کی شکل میں ظاہر نہیں ہوئے۔ تا ہم معاشی ترقی کے ضمن میں اہم اداروں میں بدانتظامی بڑی حد تک کم ہوئی ہے اور حالیہ بجٹ میں تاریخ کے سب سے بڑے حجم کے ٹیکس محاصل کا ہدف رکھا گیا ہے۔ پاکستان تاریخ کے اس مقام پر کھڑا ہے جہاں ریاست کے تمام ستونوں سے مستعدی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں آج تک نہایت عمومی اور کم سطح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ کسی سیاسی جماعت یا رہنما کی زبان سے پالیسی امور کی بابت تجویز یا جائزہ برآمد نہیں ہوتا۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ اراکین اسمبلی خصوصاً اپوزیشن کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ بجٹ کی منظوری میں رکاوٹوں کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بجٹ منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اتحادیوں کی محتاج حکومت کو یہ کہہ کر جھکانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت کے اتحادیوں کو الگ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ با اختیار اور طاقتور شخصیات کے احتساب کو سیاسی و ذاتی انتقام قرار دے کر انہیں بچا لیا جاتا ہے۔ بار بار قانونی عملداری سے بالاتر رہنے والی شخصیات نے اداروں کو بے توقیر کیا ہے۔ یہ سیاست دانوں کی روایت نہیں بلکہ قانون شکنوں کا شیوہ ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کو ظالمانہ قرار دینے والے اپنے دور اقتدار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ قرض کی رقم کو سبسڈیز پر لٹا کر معیشت کو تباہ کرتے رہے۔ یقینا اصلاح کا عمل ایسی جراحی کا تقاضا کرتا ہے جس میں کچھ تکلیف برداشت کرنا پڑے گی۔ حالیہ بجٹ میں اصلاح کے نقطۂ نظر سے کچھ مشکل فیصلے کیے گئے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکج سے مشروط تمام شرائط پوری کر دی ہیں اور روپے کی قدر پر نظر رکھی جائے گی۔ روپے کی قدر میں کمی سے درآمد کنندگان کی مشکلات بڑھی اور تیل و ٹیکنالوجی کی خرید پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے۔ مشکل فیصلوں کے بعد مالیاتی انتظام مؤثر رکھنے کے نتیجے میں یقینا ملک میں ایسے سیاسی و معاشی استحکام کی توقع کی جا رہی ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ کا موجب ہو سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں گورنر سٹیٹ بینک کا کردار اہم ہے۔ پاکستان کے قومی مفاد کو ہر فیصلے میں مقدم رکھا جائے تو دکھ کی ہر رات کا اختتام آسودگی اور خوشحالی کی صبح کی شکل میں طلوع ہوتا ہے۔