ڈائریکٹر حج ریحان کھوکھو نے جب اپنی معروضات کے اختتام پر ہمارے دوست شاکر شجاع آبادی کے دو اشعار پڑھے تو ہمیں بہت اچھا لگا: تو محنت کرتے محنت داصلہ جانے خدا جانے تو دیوا بال کے رکھ چا ہوا جانے خدا جانے ایہہ پوری تھیوے نہ تھیوے مگر بے کارنئیں ویندی دعا شاکر توں منگی رکھ دعا جانے خدا جانے ان خوبصورت اشعار کے پس منظر میں ان کا وہ جذبہ تھا جو اللہ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے کمربستہ اور توانا رکھتا ہے۔ حج پر جانے والوں کو وزارت حج کی طرف سے ٹریننگ سیشن میں مدعو کیا گیا تھا۔ جون کی شدید گرمی میں اس کا اہتمام انجینئرنگ یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں کیا گیا تھا اپنی بیگم کے ہمراہ میں بھی وہاں پہنچا۔ یہ ذہن میں رہے کہ اس سے پیشتر بھی ہم ایوان اقبال میں تین گھنٹے کا سیشن اٹینڈ کر چکے ہیں جہاں ماسٹر ٹرینر حج پر جانے سے لے کر واپس آنے تک سب کچھ بتاتے ہیں اور مناسک حج کے حوالے سے تفصیل بتاتے ہیں۔ میں اس کا تذکرہ اپنے ایک کالم میں کر بھی چکا ہوں۔ اس مرتبہ یہ ہوا کہ ریحان کھوکھر صاحب نے مجھے بھی سٹیج پر لا بٹھایا۔علامہ عمران بشیر تھے اور دوسرے مولانا ثناء اللہ خان بھی ساتھ بیٹھے تھے ریحان کھوکھر تو مدارلمہام تھے۔ ان کے ساتھ ان کے دست راست مجیب شاہ تھے اور دوسرے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ذکاء اللہ۔ جو بات میں اپنے معزز قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں وہ ہے خلوص اور محبت ریحان صاحب سے سیشن سے ہٹ کر گفتگو ہوئی تو بڑا مزہ آیا۔ بتانے لگے کہ ان کا تعلق ملتان سے ہے اور دنیا گھوم چکے ہیں اور اچھے عہدوں پر رہے مگر جب دس بارہ سال پہلے وہ حج کے محکمے میں آئے تو بچپن کی کچھ یادیں عود آئیں۔ بتانے لگے کہ ان کا گھر شاہ محمود قریشی کے گھر کے قریب ہی ہے۔ بچپن میں ان کی والدہ نے ان کی ڈیوٹی بہائوالدین زکریا ؒکے دربار پر لگائی کہ عرس پر آنے والے زائرین کو دودھ سوڈا پلانا ہے۔ اہتمام کیا جاتا ٹب میں دودھ کے ساتھ سوڈے کی بوتلیں ڈالی جاتیں۔ وہ اپنی والدہ سے کہتے کہ اتنے ملازمین گھر پر ہیں انہیں بھیجیں تو ان کی والدہ کہتی کہ نہیں یہ سب حضرت بہائوالدین زکریاؒ کے مہمان ہیں ان کی خدمت ہم نے خود کرنی ہے۔ یہ اعزاز تم حاصل کرو گے۔ کہنے لگے کہ جب وہ ڈائریکٹر بنے تو انہیں اپنی ماں کی باتیں یاد آئیں تو وہ سوچنے لگے کہ اب تو مجھے اللہ اور اس کے رسولؐ کے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے اس سے بڑا اعزاز کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ بس یہ سپرٹ ہے جو انہیں بحال اور نہال رکھتا ہے۔ مجھے پتہ چلا کہ حج کے اخراجات کا محکمہ سے کوئی تعلق نہیں وہ تو حج لوازمات پر خرچ ہوتے ہیں حج پر جانے والوں کی ٹریننگ اور آگاہی سیشن پر خرچ وزارت مذہبی امور خود کرتی ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ مخیر حضرات کے ساتھ رابطے کرتے ہیں اور کمپنیوں سے سپانسر کرواتے ہیں اللہ کے گھر جانے والوں کے لئے ٹھنڈی بوتلیں اور دوسری کولڈ ڈرنک وہ مفت مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی رہنمائی کے لئے بک لٹس اور کتاب بھی وہ خود مہیا کرتے ہیں مجھے معاً خیال آیا کہ واقعتاً حکومت کافی پاپڑ بیلتی ہے مجھے میرے ماموں زاد مبشر اقبال صدیقی جو کہ حج و عمرہ کرواتے ہیں اور موجودہ حکومت کے حق میں بھی نہیں ہیں ہنس کر بتانے لگے کہ یہ جو حج کے پیسے بڑھے ہیں اس میں واقعتاً حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں کہ ایک تو ویزہ فیس بڑھی‘ پیسہ ڈی ویلیو ہوا تو حج کے اخراجات اپنے آپ ہی بڑھ گئے۔ حکومت مفت میں بدنام ہوئی کوئی پیسہ حکومت کے کھاتے میں نہیں گیا۔ ریحان کھوکھر ایک تخلیقی آدمی ہیں آئیڈیاز متعارف کرواتے ہیں۔ انہوں نے حج کوئز شروع کروا دیا کہ حج پر جانے والے ماسٹر ٹرینر کی تقریر سننے کے بعد اگر سوالوں کے صحیح جواب دیں تو انہیں حج ٹرالی انعام ملتی ہے غالباً چالیس پچاس ٹرالیز ہوتی ہیں ہر ایک میں دس ہزار روپے کے قریب حج کا سامان ہوتا ہے یعنی احرام‘ اور دوسرے لوازمات‘ اس سے یہ ہوتا ہے لوگ تقریر غور سے سنتے ہیں انہیں انعام کا لالچ ہوتا ہے وہ موٹی ویشنل پروگرام بھی کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ان سیشنز کے لئے سکول وغیرہ نہیں لئے جیسا کہ روایت چلی آ رہی تھی بلکہ اچھی جگہیں لی ہیں ہر ضلع میں ایسا ہی اہتمام ہے۔ مثلاً جہاں ہم لوگ تھے یعنی ایڈیٹوریم میں اڑھائی تین ہزار لوگ تھے۔ پتہ چلا کہ اتفاق سے اے سی کام کرنا بند کر گئے تو ایمرجنسی چلرز کا اہتمام کیا گیا کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ محکمہ واقعتاً اللہ کے مہمانوں کی خدمت کرنے کو سعادت جانتا ہے۔ سابق ڈائریکٹر حج صبغت اللہ نے بھی بہت اچھی باتیں کیں۔ بڑے نپے تلے انداز میں رہنمائی کی کہ حجاج کرام کس طرح ان سے رابطہ میں رہیں گے کہ ان کے لوگ خاص یونیفارم میں انہیں ہر جگہ دستیاب ہونگے ۔یہ بات ہمارے ماسٹر ٹرینر کو بھی سیکھنی چاہیے کہ وہ اپنے لیکچر کو آدھ یا پون گھنٹے میں سمیٹیں وہ اپنی خطابت کا لطف اٹھاتے ہوئے اسے طویل کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر عورتیں جو بچوں کو چھوڑ کر آئی ہوتی ہیں مشکل میں پڑ جاتی ہیں ویسے بھی اختصار و اعجاز بات کا حسن ہے۔ میں یہ گزارش پہلے بھی کر چکا ہوں خاص طور پر ٹیکنیکل باتیں بتانے کی ضرورت ہے مثلاً وہ باقاعدہ طواف کر کے بتاتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے ازبر ہو جاتی ہے آنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ کاپی قلم لے کر بیٹھیں اور نوٹس لیں ویسے تو ان کی مہیا کی ہوئی کتب میں سب کچھ موجود ہے دعائیں آپ یاد کر سکتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے کتابچہ میں اہم معلومات بھی ہیں اصل بات تو آپ کا خلوص والہانہ پن اور عقیدت ہے کہ آنکھیں جب ان منظروں کو اٹھاتی ہیں تو دل روشن ہو جاتے ہیں کتنی منزلیں لمحے میں طے ہو جاتی ہیں۔ دو تین اشعار۔۔۔ عالم طواف حرم سب سے نرالا ہے میاں ایک منظر ہے کہہ بس دیکھنے والا ہے میاں رنگ سارے ہی یہاں جذب ہوئے جاتے ہیں اور گردش میں جہاں بھر کا اجالا ہے میاں والہانہ کوئی پتھر کو کہاں چومتا ہے اس محبت میں محمدؐ کا احوال ہے میاں بات ہو رہی تھی خلوص نیت اور خدمت خلق کی ریحان کھوکھر کے ایک اور واقعہ نے مجھے متاثر کیا۔ بتانے لگے کہ منیٰ والا پل عبور کرنا عمر رسیدہ لوگوں کے لئے مشکل پیدا کرتا ہے وہاں ریڑھیوں والے دو تین صد ریال لے کر لوگوں کو لے جاتے کہنے لگے میرے ذہن میں خیال آیا تو دل نے رہنمائی کی حج وزارت سے کچھ پیسے ملے تو میں نے دوستوں کو ساتھ ملایا اور چیئرز خرید کر فی سبیل اللہ بوڑھوں کو پل عبور کراتے۔ بس یہی اصل خدمت ہے کہ خدمت سے خدا ملتا ہے اس خدمت کا کوئی متبادل نہیں۔