بجٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر عمر ایوب نے یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ سی پیک اور پاک چین دوستی کی بنیاد ان کے دادا حضور ایوب خاں نے رکھی تھی۔ بعض حلقے اس پر چیں بچیں ہوئے لیکن شک کا فائدہ دیا جانا چاہیے۔ ممکن ہے دادا حضور کے زمانے میں سی پیک کو سیٹو سنٹو کہا جاتا ہو اور امریکہ کو پیار سے لوگ چین بلاتے ہوں۔ ویسے بھی پی ٹی آئی اپنی کارکردگی کا سہرا دوسروں کے سر باندھنے میں خاصی فیاض ہے اور دوسروں کے ’’جرائم‘‘ اپنے سر لینے کے معاملے میں بھی بہت فراخ دل ہے۔ کل پرسوں ہی پختونخواہ کے وزیر خزانہ کا ارشاد سنا کہ مہنگائی اللہ کی طرف سے ہے۔ خیر‘لیکن سی پیک(جو اس وقت بحرہ منجمد کے کسی گلیشر پر ٹھٹھر رہا ہے) کے حوالے سے اچانک ایک پرانی بات یاد آ گئی اور اسی بات میں پاکستانی سیاست کی ’’شاہ کلید‘‘ بھی ہے۔ یہ 1991ء کی بات ہے نواز شریف کو حکومت میں آئے سال بھر ہوا ہو گا۔ راقم اس وقت ایک معاصر اخبار میں تھا۔ متعدد و غیر ملکی اخبارات اور ہفتہ وار جریدوں میں پاکستان کے بارے میں رپورٹیں دیکھیں تو لب لباب یہ تھا کہ مغرب میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ نواز حکومت پاک ایران ترکی کی باہمی کونسل کو وسط ایشیا تک وسعت دینے کا سوچ رہی ہے۔ ایسی کوئی خبر سرکاری حوالے سے نہیں آئی تھی۔ راقم نے ایک قدرے تفصیلی خبر بنا کر دے دی جو دو کالم کی پانچ سرخیوں کے ساتھ صفحہ اول پر اپر ہاف میں شائع ہوئی۔(20ستمبر 1991ئ) اگلے روز بائیں بازو کے ایک سینئر اخبار نویس ملے۔ یہ خبر چونکہ میرے نام کے ساتھ شائع ہوئی تھی اس لئے وہ اس پر بات کرنا چاہ رہے تھے۔ یہ صحافی اب مرحوم ہو چکے ہیں۔ بہت ہی انسان دوست اور نظریاتی سوشلسٹ تھے۔ اور نواز شریف کے مخالف۔ دیگر باتوں کے علاوہ انہوں نے خبر کی صحت پر بھی شبہ ظاہر کیا اور آخر میں کہا کہ اگر خبر سچی ہے تو نواز کوفارغ سمجھو۔ بیچ کی بات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس طرح کا اتحاد ہمارا امریکہ پر انحصار کم کرے گا اور ایسا کرنے والا بے موت مارا جائے گا۔ کچھ ہی دنوں بعد سرکاری خبر بھی آ گئی کہ وسط ایشیا کو ساتھ ملا کر پاکستان ایران اور ترکی ’’ایکو‘‘ بنانے والے ہیں اور مزید کچھ ہی دنوں بعد ایوان صدر میں سی آئی اے کے سیکشن چیف نے ’’ملاقاتیں‘‘ شروع کر دیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ نواز شریف کی اقتدارسے چھٹی ہو گئی۔ انہیں نشان عبرت بنانے کا پہلا آپریشن جولائی 1993ء میں انجام کو پہنچا۔ دوسری بار بھارت سے امن‘ تیسری بار سی پیک کا ڈول ڈالنا ان کے لئے بم کو لات مارنا ثابت ہوا۔ ٭٭٭٭٭ صدر مرسی کی شہادت پر پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں نے اظہار تعزیت کیا۔ جماعت اسلامی نے ملک بھر میں نمازہ جنازہ کے اجتماعات کئے۔ ایک بات حیرت کی تھی۔ خوشگوار نہ ناگوار‘ محض حیرتناک ۔ یہ کہ ہمارے بعض اسلامی دانشوروں نے بھی اپنے پروگراموں میں ان کی شہادت پر افسوس کیا۔ حیرت سی حیرت۔ یہ دانشور روایات و حکایات سے سیسیوں کو برحق ثابت کرتے۔ ان کے قصیدے لکھتے اور مرسیوں کو گالی دیتے آئے ہیں۔ اب کیا ہوا؟ حیرت ناک حیرت ہے۔ ٭٭٭٭٭ نواز شریف کی ضمانت مسترد ہونے کی خبر اخبارات نے نمایاں چھاپی‘ ایک اس سے بھی ’’اہم ‘‘ خبر کئی نے تو چھاپی ہی نہیں‘ دو تین نے چھاپی لیکن ذرا سی جگہ دے کر۔ وہ یہ تھی کہ جیل میں نواز شریف سے ملنے کی اجازت شہباز کو تو مل گئی‘ نواز شریف کی والدہ‘ ہمشیرہ اور بھانجی کو نہ ملی۔ انہیں دروازے پر ہی روک دیا گیا۔۔ بہرحال ناقد حضرات تو یہ سچ نہیں مانیں گے۔ وہ تو تحریک انصاف کے ’’رواداری‘‘ کلچرکا حوالہ دیں گے۔ نواز شریف کو اپنے والد میاں شریف کے جنازے میں نہیں آنے دیا گیا تھا ۔بھٹو کے جنازہ میں لوگوں کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی اور مرسی کا جنازہ ۔؟خیر‘ اس پر الگ سے بات کرنی چاہیے۔ اتفاق سے اسی روز حکومت کے ایک ترجمان جن کی ترجمانی خود ٹی وی میزبانوں کے لئے اکثر ناقابل فہم ہوتی ہے‘ فرمایا ‘ نواز شریف سے عام قیدیوں والا سلوک نہیں ہو رہا۔ بجا۔ عام قیدیوں کی مائوں کو ملنے سے کہاں روکا جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ہر خاص و عام کو آگاہ کیا ہے کہ چینی کی مہنگائی ابھی کچھ عرصہ تک برداشت کرنا پڑے گی۔ کتنا عرصہ؟ جتنا عرصہ حکومت قائم ہے۔ اربوں کھربوں کما چکے صرف دس مہینے میں آگے کا اندازہ کر لیجیے۔ موجودہ حکومت میں ایک شوگر مل مالک نے 46ہزارمیٹرک ٹن سے زیادہ چینی کی ذخیرہ اندوزی کی۔ یہ رپورٹ کسی اور کی نہیں‘ ایک ٹی وی چینل کی ہے۔ اس سے بڑے ذخیرہ اندواز خاندان کا تعلق بھی انصاف پارٹی سے ہے۔ اس نے 99ہزار ٹن کا ذخیرہ کیا۔ ایک اور خاندان نے صرف چار ہزار ٹن چینی ذخیرہ کی۔ ہونہار بروا کی ابھی شروعات ہے۔ خداوندان انہیں نظر بد سے بچائیں۔