سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران ہم نے ایک دلچسپ بات نوٹ کی کہ دوران حج جس عمارت میں انڈونیشیا اور ملائیشیا کے حجاج کرام رہائش پذیر ہوتے وہاں یوں محسوس ہوتا کہ جیسے یہاں کوئی ذی روح موجود نہیں اور جن عمارتوں میں ہمارے پاکستانی اور مصری بھائی سکونت پذیر ہوتے تو وہاں ہر طرف سے بحث و تکرار کی آوازیں آ رہی ہوتیں اور شور کی شدت سے درو دیوار کانپ رہے ہوتے۔ پاکستانی معاشرہ عدم برداشت کی آخری سٹیج پر ہے۔ یہاں چھوٹی چھوٹی بات پر لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور حاکم شہر سے لے کر عام شہری تک یہی سمجھتا ہے کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔گزشتہ جمعتہ المبارک کو عدم برداشت کا ایک افسوسناک واقعہ منظر عام پر آیا۔ ہمارے وزیر سائنس جو اب وزیر اطلاعات نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو اس حکومت کا نفس ناطقہ سمجھتے ہیں‘ نے ایک تقریب میں سینئر صحافی سمیع ابراہیم کو زناٹے دار تھپڑ جڑ دیا۔ اس تقریب میں گورنرپنجاب چودھری سرور بھی تشریف لائے۔ فقیر بھی وہاں مدعو تھا۔ جب فواد چودھری تقریب میں آئے تو میں اٹھ کر چودھری صاحب سے ملا اور دو چار خوشگوارجملوں کا تبادلہ ہوا۔ فواد چودھری آگے گورنر کے پاس چلے گئے۔ کچھ دیر بعد سمیع ابراہیم بھی تقریب میں پہنچے۔ میرے ساتھ سجاد میر تشریف فرما تھے ہم اٹھ کر انہیں ملے کھانا ہم سب نے اکٹھے کھایا اس دوران میں سمیع ابراہیم سے یونیورسٹی آف سرگودھا کے بارے میں گفتگو کرتا رہا۔ 92اخبار کے گروپ ایڈیٹر ارشاد احمد عارف‘ اوریا مقبول جان‘ سجاد میر اور یہ خاکسار اسلام آباد کے دوستوں رئوف کلاسرا اور سمیع ابراہیم سے الوداعی کلمات کا تبادلہ کر کے لاہور کے لئے عازم سفر ہوئے۔ دوران سفر کسی نے فون کر کے مجھے بتایا کہ فواد چودھری نے سمیع ابراہیم کو تقریب کے اختتام پر تھپڑ مارا اور برا بھلا کہا۔ ہمیں اس بات کا یقین نہ آیا کیونکہ ہم نے دوران تقریب دونوں شخصیات کو آپس میں ہمکلام ہوتے دیکھا اور نہ ہی ان کے درمیان کسی طرح کی تلخ کلامی ہوئی۔ جب پیچھے رہ جانے والے دوستوں سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ سمیع ابراہیم کسی دوست سے گفتگو کر رہے تھے کہ جسے مخاطب کرتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ کس سے بات کر رہے ہو اور سمیع ابراہیم کے بارے میں کچھ ناگوار الفاظ بھی استعمال کئے۔ اس پر سمیع ابراہیم نے چونک کر پیچھے دیکھا کہ کون کس کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ اس پر فواد چودھری نے آگے بڑھ کر سمیع ابراہیم کو تھپڑ جڑ دیا اور کہا کہ کوئی اور نہیں میں کہہ رہا ہوں اور تمہیں کہہ رہا ہوں۔ ایک نہیں کئی لحاظ سے یہ نہایت ہی افسوسناک واقعہ ہے۔ کسی سماجی تقریب میں میزبان تمام مہمانوں کے احترام و اعزاز کا محافظ ہوتا ہے۔ اس لئے کسی مہمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ تقریب میں شامل کسی دوسرے مہمان کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرے اور غصے میں آپے سے باہر ہو کر یکطرفہ طور پر اس پر ہاتھ اٹھائے۔ اگر کوئی ذمہ دار شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور ہتھ چھٹ ہونے میں کوئی مضائقہ محسوس نہ کرے تو شہری بھی یہی رویہ اپنائیں گے۔ فواد چودھری صاحب نے عذرگناہ بدتراز گناہ کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ تھپڑ مارنا کوئی بڑی بات نہیں۔ آدمی بعد میں’’سوری‘‘ کہہ کر معاملہ رفع دفع کر سکتا ہے۔ چودھری صاحب اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آئے روز کوئی نہ کوئی فتویٰ صادر فرماتے رہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہو گا کہ ایسے معاملات میں اسلام کا نظام عدل و انصاف کیا ہے۔ اسلامی انصاف قصاص ہے یعنی تھپڑ کا جواب تھپڑ۔ مہذب معاشروں میں تھپڑ تو دور کی بات اوئے کہنا بھی جرم ہے اس جرم کا جرمانہ بھی ہے اور قید بھی۔ فواد چودھری اور سمیع ابراہیم کے مابین سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر لفظی جنگی گزشتہ پانچ ماہ سے جاری ہے۔ سوشل میڈیا آج کے دور کی ایک ایسی وبا ہے جو ہمارے جیسے منہ پھٹ معاشرے میں انتہائی مہلک صورت اختیار کر چکی ہے۔ مرحوم ڈاکٹر حافظ عبدالحق اخلاق محمدیہ کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ وہ زمانہ انٹرنیٹ اور موبائل فون کا نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اگر گھر سے کوئی گلے شکوے کا خط وصول ہو تو فوراً جواب نہ دیا کرو‘ کم ازکم دو تین روز سوچ و بچار کے بعد ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جواب لکھا کرو۔ آج ٹوئٹر ‘ وٹس ایپ اور یوٹیوب وغیرہ پر چٹاخ پٹاخ جواب دیا جاتا ہے۔ الزام تراشی اور کردارکشی کے لئے باقاعدہ سوشل میڈیا ٹیمیں ہائر کی جاتی ہیں۔ اس معاملے میں جو مادر پدر آزادی ہمارے ہاں موجود ہے شاید کسی اور ملک میں نہیں۔ جو جس کے منہ میں آتا ہے کہہ گزرتا ہے۔ نہ آخرت کا خوف نہ کسی دنیاوی عدالت کا ڈر۔ انگلستان اور امریکہ وغیرہ کے سوشل میڈیا پر بہت کچھ الا بلا موجود ہوتی ہے مگر لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کا لائسنس کسی کو نہیں دیا جاتا۔ فواد چودھری کا الزام یہ ہے کہ سمیع ابراہیم نے بغیر کسی تحقیق کے ان پر اپنی ہی حکومت کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا۔ نیز ان پر اس سے بھی زیادہ حساس نوعیت کے الزامات عائد کر دیے۔سوشل میڈیا فرینڈز کا کہنا ہے کہ فواد چودھری کی طرف سے سمیع ابراہیم کو پونی ٹیل کا لقب دے کر ان کے خلاف ٹاپ ٹرینڈ مہم چلائی گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ولا تنا بزوا بالا لقاب‘‘ ایک دوسرے کو برے ناموں سے مت پکارو۔ مجھے حیرت ہے کہ پانچ ماہ سے باہمی الزام تراشی اور کردار کشی کی یہ مہم جاری ہے مگر کسی اخباری تنظیم کسی پریس کلب اور کسی سرکاری ادارے نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ فواد چودھری ممتاز صحافی مجیب الرحمن شامی کا بہت احترام کرتے ہیں اور سینئر اینکر سہیل وڑائچ سے ان کا گہرا تعلق خاطر ہے۔ یہ دونوں محترم شخصیات کا یقینا سمیع ابراہیم بھی احترام کرتے ہوں گے ان حضرات کو چاہیے تھا کہ وہ آگے بڑھ کر خود ہی اس کو افہام و تفہیم سے ختم کراتے۔ اس واقعے کے بعد ایک ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چودھری نے بڑی حیران کن باتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا و سوشل میڈیا پر سمیع ابراہیم کی طرف سے چلائی گئی مہم کے خلاف انہوں نے پیمرا اور ایف آئی اے وغیرہ سے رجوع کیا مگر کہیں بھی ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لگتا ہے یہاں اس معاملے میں کوئی ادارہ یا عدلیہ کسی کی داد رسی نہیں کرتے۔ فواد چودھری کی باتیں سن کر مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ اگر موجودہ حکومت کے دور میں ایک سینئر وزیر کی کہیں شنوائی نہیں تو مظلوم شہری کا کون پرسان حال ہو گا۔ یہاں سوچنے کی اور بڑی اہم بات ہے کہ جناب فواد چودھری نے بلا ثبوت الزامات پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے مگر جس طرح وہ دوسرے سیاست دانوں کو شب و روز چور ڈاکو کہتے رہتے ہیں۔ ان الفاظ سے سیاست دانوں اور ان کے متعلقین کو اس سے کتنی تکلیف پہنچتی ہو گی۔ سمیع ابراہیم کا کہنا ہے کہ بغیر کسی تلخ نوائی کے جس طرح فواد چودھری نے یک طرفہ طور پر ان پر مجمع عام میں ہاتھ اٹھایا اس کے خلاف وہ قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ فواد چودھری صاحب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پس منظر کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو مگر قانون کو کوئی شخص اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ فواد چودھری سمیع ابراہیم سے معافی مانگیں اور سینئر صحافیوں کی ثالثی قبول کر لیں۔