منگل کی ڈھلتی شام ڈان نیوز سے نکل رہا تھا کہ فہمیدہ کی بجھتی ہوئی آواز آئی۔مہینے بھر سے لاہور میں ہوں۔میں تو شاید اب یہیں رہ پڑوں۔تم آجاؤ۔میں نے کہا۔اب طبیعت کیسی ہے؟ کہا۔پہلے سے بہتر ہوں۔کراچی میں تو کوئی کام نہیں۔یہاں ویرتا کے بچوں میں دل بہل جاتا ہے۔ میں نے کہا۔’’فیض میلے میںآپ کا نام نہیں سنا۔‘‘ کھلکھلاتی آواز میںکہا۔’’فیض کے نواسے نواسیاں اب فیض میلہ لگاتے ہیں۔انہیں میرے لاہور میں ہونے کے بارے میں شاید علم نہ ہو۔اور اگر علم بھی ہو تو شاید فیض صاحب سے میر ے تعلق کے بارے میں جانتے نہ ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر شعر پڑھا۔۔۔ ہوگیا دل کا خوں،دل کا خوں ہوگیا ایسی باتیں سنانے سے کیا فائدہ اگلے دن بارہ ربیع الاول کی چھٹی کے سبب گھر پہ تھا۔میری بیٹی گل رخسار کا نام فہمیدہ ہی نے رکھا تھا۔میں نے شیریں سے فہمیدہ کا ذکر کیا تو کہا۔’’فہمیدہ ہماری زندگی سے کیسے نکلی جارہی ہیں۔‘‘ابھی بات ہورہی تھی کہ خالد کا فون آیا۔خالد عموماً رات کے اسی پہر فون کر کے گھر بلاتے ہیں۔ ڈوبتی ہوئی آواز میں اطلاع دی۔’’ہماری تمہاری دوست اب اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘ موبائل فون ہاتھ سے گر گیا۔اس خبر کا انتظار ایک عرصے سے تھا۔مگر اس طرح اتنی جلد۔۔۔ فہمیدہ کو یاد کرنے کے لئے دماغ کی رگیں کھینچنا ہوں گی۔دل کو لہو لہان کرنا ہوگا۔فگار انگلیاں چاہئے ہونگی ۔مگر نہ اب اس کا وقت ،نہ وہ دماغ ، نہ دل۔اور نہ وہ قلم جس کی سیاہی برسوں پیٹ سے لگ کر سوکھ چکی ہے۔مگر فگار انگلیاں دکھا کر رخصت بھی نہیں ہوا جاسکتا ۔فہمیدہ کے ساتھ اس شام نے موقع دیا ہے کہ وہ فسانہ رقم کریں جو برسوں سے ذہن میں کلبلا رہا ہے۔ یہ ہمارے یونیورسٹی کے آخری دن تھے نوکری تو تھی نہیں… کل وقتی پارٹی ممبر بھی نہیں تھے… کامریڈ ڈاکٹر قمر عباس ندیم نے ادب سے ہمارے شغف اور پھر نیک کاموں میں مصروف رکھنے کے لیے ینگ رائیٹرز فورم میں لگا دیا تھا… ینگ رائیٹرز فورم کا ابتدا میں میں نے ذکر اس لیے کیا کہ ہماری فہمیدہ ریاض سے ملاقات اور پھر ’’دوستی‘‘…(اب اس لفظ دوستی میں وہ بے پناہ مٹھاس، چاہت، اپنائیت اور محبت نہیں رہی مگر مجبوری ہے کہ کوئی دوسرا لفظ اس جگہ اس تعلق سے ذہن میں آ بھی نہیں رہا)… حقیقت یہ ہے کہ ہم سب جو فہمیدہ سے پانچ سات سال چھوٹے تھے انہیں دیکھتے ہی ان کے ’عاشق‘ ہو چکے تھے اور پھر ہم پر ہی کیا… اس وقت بھی ان پر نظر ڈالیں اور پھر ذرا تین دہائی پہلے کی فہمیدہ کو ذہن میں لائیں… ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے ایک طویل عرصے تک فہمیدہ پر نہ لکھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مجھے احساس تھا کہ میں فہمیدہ کی شخصیت اور پھر شاعری کا جب بھی سرا تلاش کرنے کی کوشش کروں گا تو یہ تیز مانجھے کی طرح ہاتھ سے پھسلے گی ہی نہیں جگہ جگہ سے انگلیاں لہو لہان بھی کرے گی… فہمیدہ کی شخصیت اور شاعری پر لکھنے کے لیے دماغ کی رگیں کھینچنا ہونگی… دل کو لہو لہان کرنا ہوگا… فگار انگلیاں چاہیے ہونگی… مگر نہ اب اس کا وقت ہے، نہ وہ دماغ ، نہ دل… اور نہ وہ قلم جس کی سیاہی برسوں پیٹ سے لگ کر سوکھ چکی ہے… مگر فگار انگلیاں دکھا کر رخصت بھی نہیں ہوا جا سکتا… فہمیدہ کے ساتھ اس شام نے یہ موقع دیا ہے کہ اس بہانے وہ فسانہ رقم کریں کہ جو برسوں سے ذہن میں کلبلارہا ہے۔ سیاسی طور پر وہ بڑا ہنگامہ خیز دور تھا… جماعت اسلامی کا ’شوکت اسلام‘ پیپلز پارٹی کے ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ سے شکست کھا چکا تھا… سقوط ڈھاکہ کے بعد بننے والے نئے پاکستان میں پیپلز پارٹی کے قائد ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ رہے تھے… بلوچستان میں نیپ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پہاڑوں پر مسلح جدوجہد جاری تھی… پشتون، بلوچ، سندھی، قوم پرستوں نے پی پی کے خلاف اپنی توپوں کے دہانے کھولے ہوئے تھے… دراصل یہ آغاز تھا، ترقی پسند بائیں بازو کی قوتوں کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والی ایسی خونریز تقسیم کا جس کے بعد نظام مصطفی کے راستے جنرل ضیاء الحق کا طول طویل سیاہ آمرانہ دور تو آنا ہی تھا… مجھے احساس ہے کہ تمہید ذرا طویل ہو رہی ہے… مگر ستر اور پھر اسی کی دہائی میں فہمیدہ کی شاعری اور شخصیت،جن کڑے اور کربناک ماہ و سال سے گزری اس کے لیے ان ہنگامہ خیز حالات و واقعات کا ذکر بھی ضروری ہے… کراچی یونیورسٹی کی لابی میں ایک دن خورشید نے کہا کہ ینگ رائٹرز فورم کے مشاعرے کی صدارت کے لیے فیض صاحب اس لیے نہیں آ سکتے کہ ملک سے باہر ہیں، حبیب جالب جیل میںہیں… ایک تیسرے انقلابی شاعر کا نام لیا گیا تو نجمہ بابر نے کہا وہ تو سرکاری ملازم ہیں ایسا کیوں نہیں کرتے، میں نے ریڈیو میں قمر جمیل سے سنا ہے کہ لندن سے فہمیدہ ریاض آئی ہوئی ہیں… تمہارے ٹائپ کی انقلابی تو شاید نہ ہوں مگر پتھر کی زبان کے کیا کہنے… یہ کہہ کر نجمہ نے کہا کہ ذرا یہ شعر سنو: تزئین لب و گیسو کیسی، پندار کا شیشہ ٹوٹ گیا تھی جس کے لیے سب آرائش اس نے تو ہمیں دیکھا بھی نہیں ہم سب کہ جن کا اس وقت ’انقلاب‘ سے ’رومانس‘ ابھی کچا پکا تھا… فہمیدہ کی صدارت پر فوراً متفق ہوگئے… مگر مسئلہ یہ تھا کہ انہیں تلاش کہاں کیا جائے… اس زمانے میں اگر پڑوس کا فون نمبر بھی مل جاتا تھا تو غنیمت جانا جاتا تھا… ناظم آباد میں مرزا ظفر الحسن کی غالب لائبریری میں جب ہمارے مارکسی مینٹر سید سبط حسن کے ساتھ فہمیدہ کو ہم نے دیکھا تو ایک سبط صاحب کے خوف سے، دوسرے فہمیدہ کے سراپے کو دیکھ کر ہماری زبانیں خشک ہوگئیں… سب سے زیادہ حیرانی مجھے ان کے ہاتھ میں سگریٹ کے پیکٹ کو دیکھ کر ہوئی… دو روپے کا ’کے ٹو‘ سگریٹ کا پیکٹ اس زمانے میں ہر کامریڈ اورٹریڈ یونین لیڈر کی واحد عیاشی ہوتی تھی… مشاعرہ ختم ہوا… ممتاز افسانہ نگار خواجہ احمد عباس کے بھانجے اور کراچی یونیورسٹی یونین کے سکریٹری خورشید حسین کی گاڑی میں ہم سب سوار ہوئے… طارق روڈ پر ہندو کے ہوٹل میں کھانا کھایا گیا، جنہوں نے کبھی سگریٹ نہیں چکھی تھی، فہمیدہ کے ایڈمائریشن میں انہوں نے سارا کے ٹوکا پیکٹ خالی کر دیا… (جاری ہے) فہمیدہ کی اس وقت بلوچ اور سندھی قوم پرستی سے والہانہ وابستگی شعروں میں، شعلہ جوالہ بنی ہوئی تھی… جسم پر پیراہن پارہ پارہ گولیوں سے بدن پارہ پارہ بے سہارا لہو بہہ رہا ہے خون بیدار ہے جلد سوتا نہیں سینۂ سنگ میں جذب ہوتا نہیں تازہ تازہ لہو بہہ رہا ہے او ریہ سندھ کی دھرتی سے محبت ہی تھی جس نے انہیں ایک سندھی کامریڈ کی محبت کا اسیر کر دیا … شادی پہلی ہو یا دوسری یا تیسری، یہ ایک ذاتی فیصلہ ہوتا ہے، اس پر پبلک میں گفتگو نہیں کی جاتی… مگر یہی وہ وقت تھا جب ہم سب اپنی اپنی ڈگریاں بغل میں دبائے اس راہ پر کھڑے تھے جہاں ایک راستہ شاندار نوکریوں، غیر ملکی اسکالر شپوں کی طرف جا رہا تھا تو دوسری طرف سرخ پھریروں اور انقلابی نعروں میں، ہم مستقبل سے بے خوف پرسکون گھروں سے دور سرپٹ دوڑے جا رہے تھے… فہمیدہ ریاض جو لندن جیسا شہر چھوڑ کر شدید قسم کی ڈی کلاس ہوئی تھیں اور سندھی، بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ بہت آگے جا چکی تھیں اس میں ان کے لیے اس شہر میں نہ تو چار دیواری تھی اور نہ نوکری چاکری… مشاعروں اور رسالوں سے نہ پیٹ بھرتا ہے نہ بچوں کی پرورش اس پر جب ریاست کا جبر تھانوں اور کچہریوں میں بھی پھیرے لگوانے لگے تو پھر دو ہی راستے رہ جاتے ہیں… ایک وہ کہ جس میں سرکاری تمغے ملتے ہیں اپنا حال روشن اور بچوں کا مستقبل تابناک ہوتا ہے… ایک فیض، دو جالب اور تین چار کو چھوڑ کر سب اپنے قلم، اسلام آباد کی دہلیز پر رکھ چکے تھے… فہمیدہ کے پاس اتنے پیسے تو تھے نہیں کہ یورپ کی جلاوطنی اختیار کرتیں… ایک شام خاموشی سے وہاں پلٹ گئیں کہ جہاں سے ان کے آباواجداد نے ہجرت کی تھی… دہلی میں سال بھر بعد فہمیدہ سے ملاقات ہوئی تو سر پہ پڑی سیاہ چادر، اور آنکھوں میں تیرتی تراوٹ کے بعد نہ کچھ کہنے کو رہا نہ سننے کو… مہینے بعد وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے نام ایک خط میں ایک نظم ملی اور ایک اپیل کہ اگر ضیاء کا مارشل لاء واقعی رخصت ہوگیا ہے تو مجھے اپنے وطن لوٹنے دیا جائے… اپیل منظور ہوئی، فہمیدہ نے دہلی میں جلا وطنی بڑی سبھائو سے کاٹی اور یہ کہہ کر کراچی واپس آگئیں کہ: تو سدا سہاگن ہو ناری مجھے اپنی توڑ نبھانا ہے ری دلّی چھو کر چرن ترے مجھے اپنی موڑ، مڑ جانا ہے بہرحال پیپلز پارٹی کی حکومت کا پہلا دور اس اعتبار سے خوش آئند تھا کہ جس میں فہمیدہ ریاض کی اسلام آباد میں پذیرائی ہوئی…مگر شریف حکومت کے ساتھ ہی اُن کی نوکری بھی چلی گئی۔ادھر دہائی اوپر سے ایک اشاعتی ادارے سے منسلک تھیں۔جس سے گھر کا چولہا جل رہا تھا۔مگر چند برس پہلے اُن کے نوجوان بیٹے کبیر کی ناگہانی موت نے فہمیدہ کو نڈھال کر کے رکھ دیا تھا۔اور پھر آہستہ آہستہ زیادہ وقت اُن کا بستر پر گزرنے لگا۔فہمیدہ جیسی شاعرہ کے ساتھ اس سفاک معاشرے نے کیا سلوک کیا،اس کا ذکر کرکے خود کو افسردہ نہیں کرنا چاہتا۔وہ خود بھی اس بارے میں گفتگو کرناپسند نہیں کرتی تھیں۔ فہمیدہ نے اپنے انتقال سے پہلے ہی اپنے بارے میںایک نظم ’’تعزیتی قراردادیں‘‘ لکھ دی تھی۔ تعزیتی قراردادیں یارو! بس اتنا کرم کرنا پسِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا مجھے کوئی سند نہ عطا کرنا دینداری کی مت کہنا جوشِ خطابت میں دراصل یہ عورت مومن تھی مت اٹھنا ثابت کرنے کو ملک و ملت سے وفاداری مت کوشش کرنا اپنالیں حکام کم از کم نعش مری ٭٭٭٭ یاراں! یاراں! کم ظرفوں کے دشنام تو ہیں اعزاز مرے منبر تک خواہ وہ آ نہ سکیں کچھ کم تو نہیں دلبر مرے ہے سرِ حقیقت جاں میں نہاں اور خاک و صبا ہمراز مرے توہین نہ ان کی کرجانا خوشنودیٔ محتسباں کے لیے میت سے نہ معافی منگوانا دمساز مرے تکفین مری گر ہو نہ سکے مت گھبرانا جنگل میں لاش کو چھوڑ آنا ٭٭٭٭ یہ خیال ہے کتنا سکوں افزا جنگل کے درندے آلیں گے بن جانچے مرے خیالوں کو وہ ہاڑ مرے اور ماس مرا اور مرا لعلِ بدخشاں دل سب کچھ خوش ہوکر کھالیں گے وہ سیر شکم ہونٹوں پہ زبانیں پھریں گے اور ان کی بے عصیاں آنکھوں میں چمکے گی تم شاید جس کو کہہ نہ سکو وہ سچائی یہ لاش ہے ایسی ہستی کی جو اپنی کہنی کہہ گزری تا عمر نہ ہرگز پچھتائی