نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے 2انویسٹی گیشنز اور 20انکوائریز کی منظوری دے دی ہے۔ نیب ملک سے بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے۔ جبکہ نیب کا ماٹو بھی ’’احتساب سب کے لئے‘‘ ہے، اور وہ اس پر سختی سے عمل پیرا ہے‘ نیب نے 2018ء میں بھر پور کارکردگی دکھائی۔ اسی بنا پر نیب کو 2017ء کے مقابلے میں 2018ء میں دوگنا شکایات موصول ہوئی ہیں۔ نیب کی وائٹ کالر کرائم سے متعلق مقدمات میں سزا دلوانے کی شرح 70فیصد ہے۔ نیب کی پیشہ وارانہ کارکردگی‘ شفافیت ‘ میرٹ اور قانون پر بلا امتیاز عملدرآمد کے باعث ہی عوام کا اس ادارے پر اعتماد بڑھا ہے۔ نیب کی کارکردگی جانچنے کے لئے گیلپ سروے کیا گیا جس میں 59فیصد پاکستانیوں نے نیب کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیا جبکہ 37فیصد پاکستانیوں کی رائے اس کے برعکس تھی۔ صرف 18فیصد افراد نے مکمل طور پر نیب کی کارکردگی پر اطمینان نہیں کیا‘ اگر صرف نیب لاہور کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو رواں برس کے دوران 4ارب روپے سے زائد کی ریکوری کی گئی جبکہ کرپشن کیسز میں215ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔2018ء کے دوران نیب لاہور کو 10ہزار 98شکایات موصول ہوئیں۔ جو عوام کا اس ادارے پر اعتماد کا اظہار ہے ۔ جن میں سے 9ہزار 207شکایات کا جائزہ لینے کے بعد اسے نمٹا دیا گیا جبکہ 74ریفرنسز دائر کئے گئے۔ نیب ایگزیکٹو بورڈ نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی‘ انور سیال‘ جام خان شورو اور جسٹس (ر) قیوم سمیت متعدد بااثر سیاسی افراد کے خلاف انکوائری کا حکم دیا ہے۔ نیب اگر اپنے طریقہ کار کے مطابق بلا تفریق احتساب کا سلسلہ جاری رکھے تو نہ صرف اس ادارے پر عوام کا اعتماد بحال ہو گا بلکہ ملک بھر سے کرپشن اور بدعنوانی کا بھی بڑی حد تک خاتمہ ہو جائے گا۔ ماضی میں نیب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ من پسند احتساب کا ڈھونگ رچایا گیا۔ کرپٹ سیاسی افراد کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاتا بعدازاں سیاسی وفاداری کی تبدیلی کے عوض انہیں کلین چٹ دے دی جاتی۔ سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں اس ادارے کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ سیاسی جماعتوں کے حصے بخرے کر کے نئی سیاسی پارٹیاں تخلیق کی گئی بعدازاں الیکشن میں انہیں حصہ بقدر جثہ دے کر ایک کمزور ترین پارلیمنٹ کی بنیاد رکھی گی۔ جس کے باعث قوم کا اس ادارے پر سے اعتماد اٹھ گیا تھا لیکن موجودہ چیئرمین نیب نے ایک بار پھر بلا تفریق احتساب کی بنیاد رکھ کر عوامی اعتماد بحال کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی 22سالہ سیاسی جدوجہد میں احتساب کو ترجیح اول رکھا۔ اپنے ہر پروگرام میں انہوں نے کرپٹ مافیا کو للکارا اور بلا تفریق احتساب پر زور دیا اسی بنا پر انہوں نے ڈاکٹر بابر اعوان کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد ان سے استعفیٰ لیا تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر بے نامی جائیدادوں اور اکائونٹس پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جب جے آئی ٹی نے عرق ریزی کے ساتھ ایسے افراد کا کھوج لگا لیا جو ان جائیدادوں اور اکائونٹس کے پیچھے ہیں۔ تو عمران خان کی کابینہ نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ جس کا مقصد ان 172افراد کو ملک سے فرار ہونے سے روکنا تھا۔ کیونکہ ماضی قریب میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایسے ہی برطانیہ فرار ہوئے تھے۔ اب عدلیہ ‘ ایف آئی اے اور نیب انہیں بار بار بلا رہے ہیں لیکن وہ پیش ہونے سے انکاری ہیں۔ اس طرح اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز اور داماد علی عمران بھی نیب تحقیقات کے آغاز پر ہی چکمہ دے کر ملک سے بھاگ گئے۔ اب اگر وفاقی حکومت ان 172افراد کے نام ای سی ایل میں نہ ڈالتی تو ان میں سے کئی بیرون ملک فرار ہو جاتے۔ وفاقی حکومت نے ماضی میں 2000ارب روپے سندھ کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے مختص کئے تھے لیکن سندھ کے عوام کی حالت نہیں سدھری، وہ آج بھی جوہڑوں پر جانوروں کے ساتھ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ وہ آج بھی روٹی کپڑا اور مکان کو ترس رہے ہیں۔ تھر کے عوام آج بھی صحت کی سہولتوں سے دور ہیں‘ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے آبائی حلقے میں بھی لوگوں کا برا حال ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کی خدمت کرنے کی بجائے کرپٹ مافیا کو بچانے کے لئے سرگرم ہے۔ اسے یہ طرز عمل چھوڑ کر عوامی فلاح وبہبود کے کام کرنے چاہئیں۔ موجودہ حکومت احتساب کے لئے کوشاں ہے۔ جبکہ عوام بھی بلا تفریق احتساب چاہتے ہیں چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار نے چند روز قبل کہا تھا کہ ان کیسز کی ریکوری ہو جائے تو تین ہزار ارب روپے ملک میں واپس آئیں گے۔ دراصل ماضی میں قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے اس بے دردی سے لوٹا گیا کہ الامان والحفیظ ۔ اب اگر نیب اور حکومت وہ پیسہ واپس لانے کا کہتے ہیں تو ملک میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے۔ جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بڑے بڑے سنجیدہ اورصاحب عقل لوگ 172افراد کی کرپشن کا دفاع کرنے کے لئے آگے آگے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے 172افراد کے بارے جائزہ لینے کے لئے معاملہ نظرثانی کمیٹی بھیج کر اچھا کیا ہے اب نظرثانی کمیٹی ایک ایک فرد کا جائزہ لے گی، جے آئی ٹی کی رپورٹس کو پڑھے گی۔ اس کے بعد اگر کوئی بے گناہ نکلے تو اس کا نام ای سی ایل سے نکالا جا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی بہت سارے لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے ہیں۔ اب بھی بے گناہوں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے احتساب کے عمل کو صاف و شفاف بنایا جائے گا، کیونکہ ملک میں جب تک بے رحم احتساب نہیں ہوتا تب تک غریب آدمی کی حالت تبدیل کرنا مشکل ہے۔ لہٰذا احتساب کے عمل میں حکومت کا بھر پور ساتھ دیا جائے تاکہ لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے کر اسے غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکے۔