دنیا میں جنم لینے والا ہر بچہ ولی ہوتا ہے، جس گھر میں بھی کوئی نوزائیدہ مہمان آسمانوں سے اترتا ہے تو کہا جاتا ہے، ننھا فرشتہ آیا ہے، خاندان بھر میں خوشیاں منائی جاتی ہیں، شادیانے بجتے ہیں، گھی،شکر،پتاشے اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، ولی ہونا صرف مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والے بچوں کا ہی اعجاز نہیں،دنیا کے کسی بھی خطے کسی بھی ملک، کسی بھی جزیرے،جنگل،پہاڑ اور کسی بھی مذہب میں جنم لینے والا ہر بچہ فرشتہ ہی ہوتا ہے، اور پھر انہی ولیوں اور فرشتوں میں سے ہی لاکھوں کروڑوں بچے ہوش سنبھالنے کے بعد،جلد یا بدیر یا شباب کے شروع ہوتے ہی مختلف علتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں،وہ عالمی سماجی طبقاتی ٹکڑوں میں بٹنے لگتے ہیں، جب بچے اخلاقیاتی طبقات میں بٹتے ہیں تو اس کے بہت سارے پس پردہ عوامل بھی ہوتے ہیں، جیسا کہ ایک بچے کے اپنے گھر کا ماحول کیا ہے؟گھر میں اخلاقیات کے تقاضے کیا ہیں؟مذہبی ماحول ہے یا لبرل ازم چل رہا ہے، مذہب سے بیزاری ہے یا وہ گھرانہ فرقوں میں بٹا ہوا ہے۔۔۔گھر میں کشیدگی، مار کٹائی اور ایک دوسرے سے گالم گلوچ کا ماحول تو نہیں؟ گلی محلے والوں کے ہی نہیں رشتہ داروں کے رویے بھی بچے کی نشوو نما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،سب سے پہلے بچے کے دوست اس گھرانے کے رشتہ داروں کے بچے بنتے ہیں، پھر گلی محلے کے بچے یہ ابتدائی دوستیاں بھی بچوں کو متاثر کرتی ہیں اور اس کی شخصیت میں اتھل پتھل لاتی ہیں،پھر جب بچہ اسکول جاتا ہے،یہ دور سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے اور یہیں سے بچے کے کردار کی وہ بنیاد رکھی جاتی ہے جو اسے عمر بھر اپنے حصار میں رکھتی ہے، اسکول کے اساتذہ کا کردار جتنا بچے کو متاثر کرتا ہے اتنا بچے کے والدین کا کردار بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوتا ، منفی رویوں کے درمیان پلنے والے بچے عمومی طورپر انسانیت دشمن،بے حس، غیرت سے عاری،مفاد پرست،لوٹ کھسوٹ کرنے والے اور پتہ نہیں کیا کیا بن جاتے ہیں، اور پھر جب کسی ایسے ہی منفی سوچ رکھنے والے بچے کا تھوڑا سا ہوش سنبھالنے کے بعد واحدانیت سے یقین ختم ہوجائے وہ شیطان نہیں شیطان کا باپ بن جاتا ہے۔ جیسا کہ میں بالا سطور میں کہہ چکا ہوں کوئی بچہ اوائل عمری میں ہی اپنے اندر کے ولی اور فرشتے کو مار دیتا ہے، کوئی تھوڑا سا بڑا ہوکر، کوئی جوانی کی دہلیز پر چڑھتا ہوا اس ولی کو قتل کر دیتا ہے، کوئی کسی مشکل امتحان میں پھنس کر اپنے ولی پن کو اپنے وجود سے علیحدہ کر دیتا ہے اور لاکھوں، کروڑوں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے مر جانے تک لحد میں اترنے تک اپنے اندر بسے ہوئے ولی کو زندہ رکھتے ہیں اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی وحشی اور درندے نہیں بنتے۔ ٭٭٭٭٭ میں دو بار صحافتی شعبے میں ملازمت کیلئے کراچی گیا، پہلی بار وہاں گیا تو مشرق ( اپنے وقت کا سب سے زیادہ سرکولیشن رکھنے والا روزنامہ، حالانکہ سرکاری درباری اخبار تھا) کے ویکلی جریدے اخبار خواتین میں مضمون لکھا کرتا تھا،اخبار خواتین کے ایڈیٹر ولایت علی اصلاحی مرحوم میرے کلاس فیلو عارف کے والد تھے، انہوں نے میرے ساتھ ایگریمنٹ کیا کہ وہ مجھے ایک مضمون، کہانی، فیچر یا انٹرویو کے پچاس روپے دیا کریں گے اور یہ ادائیگی مجھے مواد کے دیتے ہی مل جایا کرے گی، انہی دنوں میری کراچی میں شیخ الطاف صاحب سے ملاقات ہوئی جو لاہور میں پبلشنگ کا کام کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ وہ مستقل طور پر کراچی میں شفٹ ہوچکے ہیں، انہوں نے مجھ سے میری پڑھائی اور ملازمت کے بارے میں سوالات کئے اور پھر کہنے لگے کہ کراچی کے طارق روڈ کے چوک میں ایک ماہنامہ رسالے کا آفس ہے، اس رسالے کانام انہوں نے ،،ماہنامہ افسانہ،، بتایا،شیخ الطاف بات آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ پورے سندھ سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی سچی محبتوں کی کہانیاں لکھ کر بھجواتے ہیں جو اس جریدے میں شائع ہوتی ہیں، اب شیخ صاحب نے مطلب پر آتے ہوئے کہا کہ رسالے کے مالک کو ایڈیٹر کی ضرورت ہے اگر تم شام کے وقت دو تین گھنٹے وہاں دے دیا کرو تو وہ تمہیں دو سو روپے مہینہ دیدیا کریں گے، میرے لئے یہ بہت بڑی آفر تھی ، میں اسی شام ماہانہ افسانہ کے دفتر میں بیٹھا وہ درجنوں چٹھیاں کھول رہا تھا جن میں لکھاریوں نے سچی محبتوں کو افسانوں میں ڈھال کر اشاعت کیلئے بجھوایا تھا، یہ ایک انتہائی دلچسپ اسائنمنٹ تھی، باقی سب کچھ چھوڑیں آپ صرف یہ دیکھیں کہ میں کتنا خوش قسمت تھا جو روزانہ بڑے بڑے حقائق پڑھ رہا تھا اور حقیقی ادب کو پڑھنے کے پیسے بھی وصول کررہا تھا۔ ٭٭٭٭٭ اور اب آج کے کالم کا کلائمکس جو آج میں پہلی بار لکھ رہا ہوں شام چار اور پانچ بجے کا وقت تھا،موسم گرم تھا مگر زیادہ نہیں،میں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی سے طارق روڈ کی جانب پیدل گامزن تھا، راستے میں جھیل آئی تو دو تین منٹ کیلئے وہاں رک گیا، پانی میں درجنوں دوپٹے ہچکولے کھا رہے تھے،ان دوپٹوں پر ایک دو نہیں کم از کم سات رنگوں کی کہکشائیں نمایاں تھیں، میں نے پہلے کبھی کسی کپڑے پر اتنے رنگ نہیں دیکھے تھے، وہاں ایک اور شخص بھی موجود تھا جس نے یہ دوپٹے جھیل میں ڈالے ہونگے، میں نے اس آدمی سے پوچھا، ایک دوپٹے پر اتنے رنگ کیسے اتنی خوبصورتی سے پھیلائے گئے ہیں؟ جواب ملا، یہ نیا فیشن ہے اسے ٹائی ڈائی کہتے ہیں، میں اپنے سوال کا جواب پا کر آگے چل پڑا، تھوڑی دیر بعد میں طارق روڈ پر تھا۔ چلتے چلتے مجھے شدید بھوک کا احساس ہوا، یاد آیا، لنچ تو لنچ آج تو ناشتہ بھی نہیں کیا تھا، پھر سوچا آج جیب خالی ہے ڈنڑ کیسے ہوگا، اس کے بعد ایک اور بات دماغ میں گھومی جس نے مجھے چکرا کر رکھ دیا،میں سوچتا سوچتا طارق روڈ کے درمیان میں پہنچ گیا۔ جہاں موسمی پھول کھلے ہوئے تھے، میری آخری سوچ یہ تھی ، تم اس وقت طارق روڈ پر ہو اور گھر واپس بھی جانا ہے، لیاقت آباد سے دائیں ہاتھ اگلے اسٹیشن سندھی ہوٹل تک، جس کا فاصلہ وہاں سے چھ سات میل کا تھا، جیب میں بس کا کرایہ بھی نہ تھا۔۔۔ دوطرفہ سڑک کی پگڈنڈی پر چلتے چلتے میں نے زمین پر گری ہوئی سگریٹ کی ایک خالی ڈبیہ اس یقین کے ساتھ اٹھائی کہ اس میں پیسے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس ڈبیہ میں واقعی سات یا آٹھ روپے تھے جو کم از کم دو دن کیلئے کافی تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ پنتالیس سال پہلے رونما ہونے والے اس دن اور اس واقعہ کے بعد میں نے بد سے بد حالات میں بھی سڑک پر گری ہوئی سگریٹ کی کوئی ڈبیہ کبھی نہیں اٹھائی، جس یقین کے ساتھ میں نے وہ ڈبیہ اٹھائی تھی، وہی یقین مجھے بتاتا رہا کہ اب کسی سگریٹ کی ڈبیہ سے کچھ نہیں نکلے گا، وہ انعام تھا اس بات کا کہ اس لمحے تک میں نے اپنے اندرکے فرشتے اور اپنے اندر کے ولی کو رخصت نہیں کیا تھا،انہیں الوداع نہیں کہا تھا آج میں کیسے کسی کو کہہ سکتا ہوں کہ میں جھوٹ نہیں بولتا، میں وعدہ خلافی نہیں کرتا، میں لوگوں کو لارے نہیں لگاتا۔۔ میں کیوں ایسا ہو گیاہوں کہ کسی سے یہ بھی نہیں کہتا کہ تم جس کام سے میرے پاس آئے ہو، میںتمہارا وہ کام نہیں کر سکتا؟میں جس معاشرے میں زندہ ہوں ،وہاں تنہا بھی تو زندہ نہیں رہ سکتا۔۔۔۔