ماں واقعی ماں ہے‘ محبت کا بحر بے کراںاور شفقت کا آسماں۔ پاکستان میں پہلے ایسے واقعات عشروں بعد ظہور پذیر ہوتے اور لوک داستانوں کا موضوع بنتے ‘مگر جہالت‘ پسماندگی‘ اقدار شکنی‘ بے رحمی اور مادہ پرستی کا سونامی معاشرے میں رشتوں کے تقدس اور اہمیت کو پامال کر رہا ہے اور مکروہ واقعات ‘ تواتر سے ہونے لگے ہیں۔گزشتہ روز لاہور شہر میں ایک بدبخت نوجوان نے ماں کو کلہاڑی مار کر زخمی کر دیا مگر ماں پھرماں ہے‘ محلے داروں نے پولیس بلا کر ماں کو بدبخت بیٹے کے ظلم سے نجات دلائی اور پولیس نے وحشی درندے کو گرفتار کرنا چاہا تو زخمی ماں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ اس نافرماں کو کچھ نہ کہو‘ میں نے اسے معاف کیا ‘تم بھی معاف کردو‘اسے تھانے لے گئے تو میرا کلیجہ پھٹے گا اور اپنے زخم بھول کر میں اس کے دکھ میں مر جائوں گی۔ واقعہ کی کوریج دیکھ کر مجھے انور مسعود کی نظم ’’امبڑی‘‘یاد آ گئی پنجابی کی یہ نظم اردو ترجمے کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ ماسٹر: اج بڑی دیر نال آیاں ایں بشیریا ایہ تیرا پنڈ اے تے ‘نال ای سکول اے جائیں گا تو میرے کولوں ہڈیا بَھنّاں کے آیاں ایں توں اج دوونویں ٹلیاں گھسا کے بشیرا:منشی جی میری اِک گل پہلاں سن لو اکرمے نے ہنیر جیہا نہیر اَج پایا جے مائی نوں اے مارداے‘ بڑا ڈاہڈا مارداے اج ایس بھیٹرکے نے حد پئی مکائی اے اوہنوں مار مار کے مدھانی پن سُٹی سُو بندے کٹھے ہوئے نیں تے اوتھوں بھجیا وگیا اے چُک کے کتاباں تے سکول ول نسیا اے مائی ایہدی منشی جی !گھر ساڈے آئی سی مُنہ اُتے نیل سن سجا ہویا ہتھ سی اکھاں وچ اتھرو تے بُلاں وچ رت سی کہن لگی سوہنیا وے پُتر بشیریا میرا اک کم وی توں کریں اَج ہیریا روٹی میرے اکرمے دی لئی جا مدرسے اج فیر ٹُر گیا اے میرے نال رُس کے گھیووچ گُن کے پروٹھے اوس پکے نیں ریجھ نال گنھیاسُو‘ آنڈیاں دا حلوہ پونے وچ بنھ کے تے میرے ہتھ دتی سُو ایہو گل آکھدی سی مُڑ مُڑ منشی جی چھیتی نال جائیں بیبا‘ دیر یاںنہ لائیں بیبا اوہدیاں تے لُوس دیاں ہون گیاں آندراں بھکا باناں اج او‘ سکولے ٹر گیا اے روٹی اوہنے دتی اے میں بھجا لگا آیا جے اکرمے ہنیر جیہا نہیراج پایا جئے ترجمہ‘ماسٹر:آج بڑی دیر سے آئے ہو بشیرے‘ تیرا گائوں قریب ہے اور ساتھ ہی سکول ہے‘ جائو گے اب مجھ سے ہڈیا تڑوا کے‘ آئے ہو اب تم دونوں پیریڈ گزار کے۔ بشیرا:منشی جی میری ایک بات پہلے سن لیں‘ اکرم نے اندھیر سا اندھیر آج مچایا ہے۔ ماں کو یہ مارتا ہے اور بے دردی سے مارتا ہے۔ آج تو یہ ساری حدیں ہی پھلانگ گیا‘ ماں کو مار مار کے بلونی توڑ دی ہے‘ لوگ اکٹھے ہوئے تو یہ وہاں سے فرار ہو کر بستہ اٹھائے سکول آ گیا۔ اس کی ماں ‘منشی جی! میرے گھر آئی تھی‘ منہ پہ نیل پڑے تھے اور ہاتھ سوجا ہوا تھا‘ آنکھوں میں آنسو تھے اور ہونٹوں پر خون ہی خون تھا۔ کہنے لگی میرے پیارے بیٹے بشیر‘ میرے ہیرے تم آج میرا ایک کام کر دو‘ تم میرے بیٹے اکرم کی روٹی سکول لیتے جائو‘ آج پھر وہ مجھ سے روٹھ کر جلدی سکول چلا گیا ہے۔ دیسی گھی میںگوندھ کراس نے پراٹھے پکائے ہیں‘ ساتھ ہی پیار سے انڈوں کا حلوہ بھی بنایا ہے یہ ساری چیزیں کپڑے میں باندھ کر میرے حوالے کی ہیں۔ بار بار وہ یہی بات مجھ سے کہتی تھی منشی جی کہ جلدی سے جانا بیٹا‘ دیر نہ کرنا۔ میرے بیٹے اکرم کی تو بھوک سے آنتیں بلکتی ہوں گی‘ بغیر کچھ کھائے پئے سکول جو چلا گیا ہے۔ اس نے روٹی دی تو میں بھاگا چلا آیا ہوں‘ اکرم نے آج اندھیرسا اندھیر مچایا ہے) چند روز قبل ایک شقی القلب بیٹے نے اپنی ماں کے ساتھ یہ ظلم کیا کہ اُسے غصّے میں آ کر گھر سے نکال دیا ‘گشت پر مامور پولیس اہلکاروں نے گلی میں آنسو بہاتی ہوئی ماں کو دیکھا تو انہیں ترس آیا‘ حال احوال پوچھا اور بوڑھی عورت کو گاڑی میں بٹھا کر گھر چھوڑنے چل پڑے‘ سارا راستہ ماں پولیس اہلکاروں کی منت سماجت کرتی ہاتھ جوڑتی رہی کہ میرے بیٹے کو کہنا کچھ نہیں ‘بس اُسے سمجھا دینا‘ نادان اور غصیلا ہے‘ دل کا بُرا نہیں آپ کی بات سمجھ جائے گا۔ ان دونوں دکھیاری مائوں نے انور مسعود کے اکرم کی ماں کی طرح بیٹوں کی خواہش میں وہ سب تکلیفیں اٹھائی ہوں گی جو ہر ماں کو اٹھانی پڑتی ہیں ‘نو ماہ تک جو بوجھ ماں اٹھا کر چلتی‘ گھر بھر کے کام کاج کرتی اور اولاد نرینہ کی دعائیں مانگتی ہے‘ وہ کوئی مرد ایک دن اٹھا کر سکون سے سونا درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ پیدائش کے بعد گرمی سردی میں ساری ساری رات جاگنا‘ گرمی‘ سردی میں پیشاب پاخانہ صاف کرنا‘ صرف ماں کی ہمت ہے۔ بیٹے کی مسکراہٹ پر ہنسنا قربان جانا اور رونے پر واہموں‘ وسوسوں سے ہلکان ہونا ‘اس کا مقدر ہے۔ اسی بنا پر رسول اکرم ﷺ نے جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا اور خالق دوجہاں نے اپنی رحمت کو ستر مائوں کی رحمت سے بڑھ کر بتایا ‘انسان چاہے بھی تو ماں کی ایک رات کی مشقت‘ ریاضت‘ محبت اور شفقت کا بدلہ چکا نہیں سکتا مگر اسلام کا نام لیوا‘ جدیدیت کا علمبردار اور انسانی حقوق کا پرچارک یہ معاشرہ آہستہ آہستہ مائوں کے لئے جہنم بنتا جا رہا ہے۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ اب اپنے جگر گوشے بھی ظلم ڈھانے لگے ہیں مگر قربان ایسی ان پڑھ لیکن شفیق مائوں پر جن کی ممتا اس بڑھاپے میں بھی جواں ہے اور زخم کھا کر دعائیں دینے اوربلائیں لینے کی عادت بدلی نہیں۔کلہاڑی کا زخم اور گھر سے نکلنے کی اذیت بھلا کر درندہ صفت بیٹوں کو پولیس کی پوچھ گچھ‘اور سرزنش سے بچانا ایک ماں کا حوصلہ ہے جس کا احساس بھی نجانے ان وحشیوں کو ہے یا نہیں۔ہوتا تو کوئی یہ ظلم کیوں کرتا۔ جو چہرہ دیکھنا ثواب ہے اس پر ظالم کلہاڑی کیوں چلاتا۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد پہلی تقریر میں معاشرے سے رحمدلی کا تقاضا کیا تھا ‘رب العالمین اور رحمت للعالمین کا نام لیوا معاشرہ عدل اور رحم کے بنیادی اوصاف سے آراستہ ہوتا ہے مگر یہاں ظلم‘ بے رحمی‘ سفاکیت اور درندگی نے اوپر سے نیچے تک پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ حق تلفی عام ہے اور صلہ رحمی مفقوداب مائیں بھی محفوظ نہیں۔ ماں پر جگر کے ٹکڑے ہاتھ اٹھائیں‘ مارپیٹ کریں اور کلہاڑی چلائیں تو کلیجہ مُنہ کو آتا ہے مگر یہ تلخ حقیقت ہے۔ کیا حکمرانوں‘ سیاستدانوں‘ دانشوروں‘ اساتذہ‘ ماہرین ابلاغیات‘ علماء اور انسانی حقوق ‘اصلاح معاشرہ کی تنظیموں کا فرض نہیں کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر اس طرف توجہ دیں صرف یوم مادر اوریوم پدر منا کرہم اپنے ضمیر اور خدا کے سامنے سرخرو نہیں ہو سکتے ۔