گزشتہ دو کالم امید اور مائنڈ پاور کے حوالے سے لکھے توقارئین کا خوشگوار رسپانس آیا۔ خصوصاً نوجوانوں کی طرف سے کچھ ایسی ای میل موصول ہوئیں جس میں اس خواہش کا اظہار تھا کہ وہ ایسے موضوعات پر کالم پڑھنا چاہتے ہیں۔ سندھ سے ایک نوجوان نے لکھا کہ میں اس وقت زندگی کے مشکل مرحلے سے گزر رہا ہوں۔ آپ کا کالم پڑھ کر ایک نیا حوصلہ ملا ہے۔ اب مایوسی سے باہر آ چکا ہوں اور پھر سے کوشش کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔ یقین جانیں اس طرح کی فیڈ بیک سے لکھاری کو ایک نئی توانائی اور حوصلہ ملتا ہے کہ لفظوں کا یہ کاروبار بے اثر بھی نہیں۔ سیلف گرومنگ، جذبے کو تحریک دینے والے انسریشنل موضوعات میرے بھی دل سے قریب ہیں۔ میرے لیے ایسے موضوعات پر لکھنا سیکھنے اور سکھانے کا ایک دوطرفہ عمل ہے۔ ایسے موضوعات پر نئی چیزیں پڑھنا، نئی ریسرچ پڑھنا ہمیشہ ذہن کو تازگی دیتا ہے۔ جدید دنیا جس سکون کی تلاش میں ہے جس شے کو ڈھونڈنے میں لگی ہوئی ہے وہ ہمارا دین ہمیں قرآن اور حدیث کی صورت میں صدیوں پہلے پیش کر چکا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن اور دین کو دنیا سے الگ کر کے سمجھنے کی کوشش کی ہے بلکہ سمجھنے کی کوشش تو شاید کبھی کی ہی نہیں۔ سطحی عبادات ہیں، سطحی انداز میں قرآن کی تلاوت ہے۔ زیادہ سے زیادہ ترجمہ پڑھا بھی تو گہرائی میں اتر کر سمجھنے سے محروم رہے۔ قرآن میں جہاں نماز کا حکم ہے وہیں ضرورت مندوں، حاجت مندوں، یتیموں اور مسکینوں پر اپنے مال سے خرچ کرنے کا حکم ہے۔ صدقہ اور خیرات کا حکم بارہا قرآن میں آتا ہے جبکہ ہمارے مولوی صاحبان خطبوں میں نماز کی اہمیت پر ضرور روشنی ڈالیں گے لیکن ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کی ترغیب لوگوں کو کم ہی دیتے ہیں۔ نماز کا تعلق انسان کی ذاتی زندگی سے ہے۔ بے شک نماز دین کی بنیاد ہے۔ لیکن صدقہ خیرات اور اپنے مال سے خرچ کرنا ایک ایسا خوب صورت عمل ہے جس کی خوشبو معاشرے میں دور تک پھیل جاتی ہے۔ دوسروں کے دکھ درد دور کر کے آپ معاشرے میں خوبصورتی اور خوشی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن دینے کے اس خوب صورت عمل سے آپ کو بھی بے بہا خزانہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح کتاب ہدایت میں بار بار ہمیں شکر کرنے کی ترغیب دی گئی۔ قرآن میں ہے کہ تم شکر کرو میں تمہیں اور نوازوں گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کی جدید دنیا میں دینے یعنی (giving) اور شکر گزاری یعنی Gratiltude کو انسانی سکون اور خوشی کے ہے مکمل تھراتی قرار دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اب اسے سائیکو تھراپی کی دنیا میں وٹامن جی کہا جانے لگا ہے۔ پراشانت جین انڈین لکھاری ہیں جنہوں نے شکرگزاری یعنی Gratitude کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام Vitamin G-gratitude۔ اس کتاب میں پرل شانت سب سے پہلے تو اپنی ہی کہانی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ان کی زندگی شدید ڈپریشن اور تنائو کا شکار تھی۔ منفی سوچ نے انہیں کسی آکٹوپس کی طرح جکڑ رکھا تھا۔ ایسی صورت میں ان کے منہ ہمیشہ شکوے شکایتیں ہوتیں۔ اپنی زندگی، شخصیت کیریئر میں کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ سوچ منفی ہویا مثبت اس کی ایک طاقت اور توانائی ہوتی ہے جو اس جیسے خیالات کو اپنی طرف کھینچ کر لاتی ہے۔ سو منفی سوچوں سے منفی سوچیں جنم لینے لگیں۔ پرا شانت کا کہنا ہے وہ اپنی اس انزائٹی اور ڈپریشن کو لوگوں سے چھپاتے تھے مگر پھر جب فلمسٹار دپیکاپڈوکون نے پبلک میں اپنی ذہنی بیماری کو تسلیم کیا تو انہیں بھی حوصلہ ملا کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی کہانی کو لے کر آئیں اور انہیں بتائیں کہ وہ خود انزائٹی اور شدید ڈپریشن کی کیفیت سے کیسے باہر آئے۔ پراشانت جین (Prashant Jain) کا کہنا ہے اس وقت یہ کتاب لکھنے کا خیال آیا جس کا نام ہے Vitamin G - gratitude کتاب کے مصنف کا کہنا ہے ہم اپنی صحت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اکثر وٹامنز اور فوڈ سپلیمنٹ استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کے معیار کو بہتر بنانے اور حقیقی خوشی پانے کے لیے شکرگزاری کا وٹامن بہت ضروری ہے۔ شکرگزاری کے وٹامن کی اگر کمی ہو جائے تو دنیا کی تمام آسائشیں اور دولت کے باوجود زندگی میں سکون، اطمینان اور خوشی کا وجود نہیں ہوگا۔پراشانت کا کہنا ہے کہ جو نعمتیں ہمیں میسر ہیں اگر ہم ان کے لیے شکرگزار نہیں ہوتے تو ہمیں صرف مسائل اور منفی چیزیں دکھائی دیں گے۔ gratitude اور thank ful ہونے میں فرق ہے۔ جب آپ تھینک فل ہوتے ہیں تو آپ الفاظ سے شکر ادا کرتے ہیں جبکہ گریٹی ٹیوڈ۔ شکر کے ایک گہرے احساس کا نام ہے جس کا اظہار انسان کے ہر عمل سے ہوتا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ یہ سب میں نے اس دوران سیکھا جب میں اپنی انزائٹی کے لمبے علاج سے گزرا۔ ماہرین سے علاج کے ساتھ میں نے بے شمار سیمینار اور سیشنز میں شرکت کی۔ ناکامی، خوشی، کامیابی، انسانی تعلقات، معاف کرنا، برداشت، ان گنت لیکچر سنے۔ پھر خود خورد غوض کیا تو دریافت کیا کہ جس سکون اور خوشی کی تلاش میں ہم اپنے اندر ایک خلا پیدا کرتے جاتے ہیں اس خلا کو بھرنے کے لیے شکر گزاری کا وٹامن درکار ہے۔ زندگی مشکل ہو، کوئی پرابلم سر اٹھائے تو اس وقت شکرگزار ہونا اور بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ہم مثبت سوچ سے نہ صرف اپنی زندگی کو سہارا دیتے ہیں بلکہ شکرگزاری کے جادو سے مسائل بھی حل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ قارئین! ایک اور وٹامن جی۔ گونگ Giving بھی ہے۔ اس پر بھی سائیکالوجی کی ریسرچ موجود ہے کہ لوگوں کی مدد کرنے والے لوگ، ایک روحانی خوشی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ مدد صرف پیسے سے ہی نہیں ہوتی، کسی کو اپنا وقت دینا، کسی بیمار کی عیادت کرنا، کوئی کسی کو سکھا دینا بھی giving کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی پریشان حال کا دکھ درد خلوص دل سے سننا اور اسے اچھا مشورہ دینا۔ اسے امید دلانا بھی giving ہے۔ یہ وہ وٹامن جی ہے جس کو ہم سب آسانی سے اپنی زندگیوں میں شامل کر کے خوشی، اطمینان اور سکون حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کالم کو پڑھنے والے دو قسم کے افراد ہو سکتے ہیں یا وہ کمانے والے ہوں گے یا پھر پاکٹ منی حاصل کرنے والے۔ آج سے ہی تہیہ کرلیں کہ جو آپ کے پاس ہے اس میں سے کچھ حصہ کسی ضرورت مند کا ہے۔ کسی خالص ضرورتمند کو تلاش کریں اور اس تک اس کا حصہ ضرور پہنچائیں۔ اپنے بچوں کو ابھی سے دینے کی عادت ڈالیں۔ انہیں سکھائیں کہ نماز کی طرح دینا بھی ایک فرض ہے۔ وہ خواہ وہ پیسے ہوں یا پرانے کھلونے، کپڑے اور ضرورت کی چیزیں ہوں۔ بس اللہ کی راہ میں اس کی مخلوق کو دیتے رہیں۔ یقین کریں آپ کی زندگیوں میں معجزے ہوتے رہیں گے۔ We Must give more, in order to get more. It is the generous giving of ourselves that produces the generous harvest.