حواس باختہ گروہ ہے جو انسانیت کی شرمندگی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ملت اسلامیہ کے آزار کا سبب بنا ہے اور اس کی مستقل کارستانیاں پاکستان کے استحکام پر آری چلانے میں مشغول ہیں۔ حکومت وقت کو قرار آ جائے تو تب ان دین بیزار لبرل گروہوں سے وابستہ عقل مار بے چینی کا کوئی دروازہ کھولنے پر آمادہ کار رہتے ہیں اور اگر کسی بھی سبب سے حکومت وقت انتشار کی رسی سے بندھ جائے تو یہ کرائے کے دانش مار ملک و ملت کے لیے ایک ناسور بن کر قومی سلامتی سے یوں کھیلتے ہیں گویا بندر کے ہاتھ ناریل لگا ہے۔ پوری دنیا کی تاریخ سیاست میں ایک حقیقت اور خالص نظریاتی حقیقت پاکستان ہے۔عالم اسلام اور دنیائے کفر پوری طرح سے آگاہ ہے کہ پاکستان کا نظریہ، تحریک آئین‘ وجود سب پر ہی گہری چھاپ ہے اور رہے گی کہ پاکستان کا مطلب گزشتہ کل‘ آج کے حاضر اور مستقبل کے کل میں واضح اور دوپہر کے سورج سے بڑھ کر روشن ہے اور اس روشنی کا مصدر‘ مرکز اور منبع بہرحال اور پھر بہرحال لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ ہے۔ ہمارا انفرادی‘ اجتماعی‘ معاشرتی‘ معاشیاتی‘ نظری اور فکری وجود اسی کلمہ طیبہ کے گرد ہمہ وقت‘ ہمہ مکان گھومتا ہے۔ ہماری رگوں میں دوڑنے والے خون کی ہر قوت اسی مقدس کلمہ سے حیات رواں کو زندگی کے آثار عطا کرتی ہے۔ ہمارے شعور‘ ہماری دنیائے جذبات پر اسی روشنی کا دائمی پہرہ ہے ہماری ملی اور قومی شناخت کا امتیاز اول اور نشان آخر یہی کلمہ ہے۔ ہماری تمام عزتیں‘ حاکم کی اور محکوم کی‘ ریاست کی اور سیاست کی، اسی علم نور کے تقدس پر قربان رہتی ہیں۔ عقیدہ توحید و رسالت کے عَلَمِ خبرنشان پر جان نچھاور کرنا اور تمام قسم کے فرد و اجتماع کی عزتوں کو عزت رسول ﷺ کے تحفظ کے لیے ڈھال بنانا بھی ایمان کامل کی علامت گردانا جاتا ہے۔ ہر بلند کلغی، عزت و شرف کے معیارِ حقیقی وقار رسولﷺ کے سامنے سرنگوں ہے۔ ہر اقتدار کی قوت سلطنت حرمت رسولﷺ کی باج گزار ہے۔ امت مسلمہ کے شرف و وقار کا ہر ہر پہلو سرکار کونین مدار ﷺ کی تعظیم و توقیر سے وابستہ ہے۔ اس سرکار کرم مدار ﷺ کی تعلیم و توقیر کا ضابطہ ایمان قرآن نے طے کر دیا ہے۔ یہ ضابطہ آئین ایمان کی اہم ترین اور ناقابل تنسیخ شق ہے۔ کائنات ارضی و سماوی کا ہر صاحب ایمان فرد اس تعظیم و توقیر کا پابند ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا شخص دنیاوی وجاہت و اقتدار کی کتنی ہی میں بلندی پر فائز ہو اور وہ ایک لمحے کے لیے بھی توقیر و تعظیم مصطفیﷺ سے دور ہوا، تو خدائی فیصلے اس پر قابو پا لیں گے۔ احکم الحاکمین کی عدالت میں حاکم و قاضی جوابدہ ہے۔ تعظیم و توقیر سے غفلت کے بارے میں تو ایمان پر فائز بلند درجہ لوگوں کو تنبیہ کر دی گئی ہے قرآن میں ہے کہ علم و عمل ‘ اخلاص و اخلاق‘ فضل و کرامت کے باوجود اگر کوئی شخص تعظیم مصطفی ﷺ سے غفلت کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے اعمال بے وزن ہو جائیں گے اور انہیں ہوا تک نہ لگے گی۔ آج کا تملق مارا فنکار ملاّ نجانے شاتمین کا کیوں حمایتی ہے؟ آج کا دور استبداد جس میں مغرب کے انسانیت مار حکمران‘ قلمکار ‘زبان دار اور نام نہاد انسانیت کے مبلغین اپنے بد ارادوں‘ بدنیتی اور بداعمالی کے منشور میں طے کر چکے ہیں کہ امت مسلمہ کو ذہنی‘ قلبی ‘ شعوری جذباتی اور عملی میدان میں اتنی ایذا دی جائے کہ وہ اپنے وجود کی خود ہی قاتل بن جائے۔ چکنی چپڑی گفتگو کا اداکار دور حاضر کا درباری ملا مغرب کے گھنائونے عزائم کو اپنی مبلغانہ کوششوں سے عملی جامہ پہنا رہا ہے۔اسے آسیہ کافر و ملعونہ کے کسی اقدام میں گستاخی نظر نہیں آتی۔ وہ ہر منافق قوت و قلم کے مالک کو مردود و مسخ شدہ دلائل فراہم کر رہا ہے۔اپنے اس ظلم و جور پر مبنی اسلام دشمن اور مسلم کش دستور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کتنے ہی خاموش‘ متحرک اور ذہین منافقوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ عالم اسلام کے یہ منافق قوت کے ان مصادر اور مراکز پر براجمان ہیں۔ جہاں سے معاشروں اور اقوام کو اپنی زندگی کی حاجات پورا کرنے کے لیے سابقہ پڑتا ہے۔ یہ منافقین اپنے قومی ترین مددگاروں کے زیر حمایت اسلام اور مسلمان دشمنی کا ذوق پوری تسکین سے پورا کرتے ہیں۔ دنیا کے بدترین مرتدین ان کی حمایت میں اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کئے ہوئے ہیں۔توہین رسالت کے مرتکب افراد ایسے ہی کلغی داروں کی چھتری کے نیچے محفوظ رہتے ہیں۔ توہین کی جاتی ہے‘ پھر اس کو انسانی معاشرے کے جابرین کے طے کردہ اصولوں کے تحت بے گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ پھر تخت بردار ذوق حکمرانی کے نشہ باز ان کو فرار کروانے میں پوری پوری مدد کرتے ہیں۔ مغرب کا شیطان سر چڑھتا ہے ان کے حوصلے بڑھتے ہیں۔ روزانہ غلیظ اور انسانیت سوز رویوں سے مسلمانوں کے دلوں کو کچوکے دیے جاتے ہیں۔ مستزاد یہ کہ ہر بوالہوس اخلاقیات کا ایک نیا معیار سناتا ہے۔ دین کی غلط تعبیر کی جاتی ہے۔ قرآن و سنت کے احکامات کو اپنی بدنیتی کے تابع کیا جاتا ہے۔ سب ناقدین خبردار رہیں کہ توہین رسالتؐ کے مرتکب کسی بھی شخص و فرد کو سوائے رسالت پناہﷺ کے کوئی شخص و فرد‘ ادارہ‘ جماعت ‘ گروہ کسی بھی طرح معاف کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ یہ جو لوگ قرآن و حدیث میں اپنی جاہلانہ، خائنانہ تاویلات و تعبیرات کو داخل کر کے اپنے مادی مفادات‘ دنیاوی عزتیں اور شرمناک شہرتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سادہ لوح مسلمانوں کے اضطراب کو مزید ذرا دیر کے لیے بڑھا تو سکتے ہیں۔لیکن وہ حقائق پر اپنی بدکرداریوں کی دھول زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتے۔ ایک بدبخت ننگ انسانیت ملعونہ و کافرہ نے توہین رسالت کی۔ عامتہ الناس اور خواص نے اپنی قانونی جدوجہد کی‘ ایک حد تک انہیں بڑی کامیابی ملی۔ پھر انہیں برے دن دیکھنا پڑے کہ دنیا کے بنائے ہوئے قوانین خدائی قوانین سے متصادم تھے۔ خدائی قانون خاموش ہے اور دنیا کا قانون متحرک ہوا۔ شاتمہ اور اس کے شرقی و غربی حواری‘ خیر خواہ ‘ منافقین و مرتدین چہکتے اور اچھلتے پھرتے ہیں۔ غرور و تکبر سے ان کی زبان ہاتھ اور خیالات لوہے کے بن گئے تھے۔ وہ آہنی پنجے کو حل کہتے ہیں۔ شور مچا‘ جذبات کے بندھن ٹوٹے کہ راستے بند ہو چکے تھے اور بے بسی و بے کسی کے ماحول میں جب ریاست کی بلند کرسیوں سے دھمکیوں اور جمہور کی آواز پر قدغن کا شور بلند ہوا تو ایمان کے ضابطوں کا پابند ہر فرد امت سراپا احتجاج بن گیا۔ (جاری ہے)