یہ سوال میرے آٹھ سالہ بیٹے نے کل مجھ سے کیا۔’’ماما ہم 12ربیع الاول کو کیسے مناتے ہیں‘‘ میں ایک لمحے کو چونک گئی اور سوچا کہ اس معصومانہ مگر اہم سوال کا کیا جواب دوں کیا 12ربیع الاول محض ایک تہوار ہے۔؟ جسے ایک روز منا کر ہم نے اپنا فرض پورا کر لیا۔کیا صرف گھروں ومکانوں ‘ بازاروں‘ دفتروں ‘ گلی محلوں پر چراغاں کرنا‘ دیگیں پکوا کر بانٹنا یا حسب توفیق کچھ بھی بانٹنا ہی 12ربیع الاول کو منانا ہے۔ مجھے میرے بیٹے نے کہا کہ ہم بھی گھر پر لائٹس لگوائیں گے کیونکہ پیارے نبیؐ کا برتھ ڈے ہے۔ وہ بچہ ہے اس کو اتنا پتہ ہے کہ برتھ ڈے پر خوشی ہوتی ہے اور کیک بھی کاٹا جاتا ہے اور یہ تو کائنات کے سب سے عظیم انسان کا برتھ ڈے ہے اور یہی بات محرک بنی یہ کالم لکھنے کا۔ کیونکہ میں نے اس کو پھر بہت پیار سے اور تفصیل سے سمجھایا کہ بیٹا ہم اپنے پیارے نبیؐ سے اپنے تعلق کو صرف ایک دن منا کر ہی سلیبریٹ نہیں کرتے بلکہ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ پیارے نبیؐ نے ہمیں زندگی گزارنے کے لئے جو طریقے بتائے اس پر عمل کریں اور جس سے منع کیا اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم جھوٹ بولیں گے بھوکے کو کھانا نہیں کھلائیں گے‘ ضرورت مند کی مدد نہیں کریں گے۔ صفائی کا خیال نہیں رکھیں گے۔ دھوکہ دیں گے اور پھر 12ربیع الاوّل کو اپنے گھر پر لائٹس لگا کر پیارے نبیؐ سے محبت کا اظہار کریں تو کیا یہ ہمارے نبیؐ کو اچھا لگے گا۔؟ دانیال نے فوراً جواب دیا بالکل بھی نہیں۔ بلکہ پیارے نبیؐ ہم سے ناراض ہوں گے۔ بس اسی بات پر آپ بھی سوچیں کہ کہیں ہم 12ربیع الاوّل کو محض ایک تہوار کے طور پر تو نہیں منا رہے مجھ گنہگار کو تو ایسا لگتا ہے کہ یہ جو ہم صرف درو دیوار کو چراغاں کرتے ہیں اور ہمارے اندر لالچ ’ بخیلی‘ بددیانتی ناانصافی‘ جھوٹ اور دھوکہ دہی کے اندھیرے موجود ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ایسی محبت میرے نبیؐ کو نہیں چاہیے۔چلئے مان لیتے ہیں کہ اس کائنات کے سب سے عظیم انسان وہ جو وجہ وجود کائنات ہیں کی آمد پر یہ سب خوشی کا اظہار اور نبی پاکؐ سے محبت کا ہر انداز پیارا ہے۔لیکن کیا صرف یہی کافی ہے۔؟ ہرگز نہیں ‘ہرگز نہیں۔ سرکارِ دو عالم سے اپنے تعلق کو صرف تہوار کی نظر سے نہ دیکھیں اس سے بڑا ظلم ہم اپنے ساتھ نہیں کر سکتے۔ نبی پاکؐ کی تعلیمات کو اپنے اندر سمو لیں۔ آپؐ نے غریب کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔ ہم نے معاشرے کو غریب اور امیر کے طبقات میں تقسیم کر دیا اگرچہ یہ تقسیم فطری ہے لیکن نبیؐ کی محبت کا دعویدار معاشرہ ایسا تو نہیں ہونا چاہیے کہ غریب کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو۔ رہنے کو چھت نہ ہو۔ بیماری میں دوا کا انتظام نہ ہو۔ اور اس معاشرے کا دولت مند طبقہ ڈالروں ‘ بنگلوں ‘ فیکٹریوں بیش قیمت اثاثوں کے ناختم ہونے والے سلسلوں کا مالک ہو۔ غریب کو روکھی سوکھی میسر نہیں اور امرا ایک وقت کھانے پر دس دس ہزار کے بل ہوٹلوں میں ادا کرتے ہیں۔ دولت کی اس خوفناک تقسیم نے معاشرے کو حاکم اور محکوم کے دو طبقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ معاشرے کا یہ حاکم طبقہ جو اہل اختیار‘ اہل اقتدار اور پالیسی میکرز ہیں وہ بھی 12ربیع الاول منا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس‘ سینٹ‘ اسمبلیوں کی پرشکوہ عمارتوں پر چراغاں کیا گیا ہے۔ تمام صوبوں کی اعلیٰ عدالتوں کی شاندار عمارتیں اور پھر عدالت عالیہ کی پروقار عمارت پر بھی چراغاں کیا گیا ہے اور روشنی آبشاروں کی طرح بہہ رہی ہے۔ ملک کے حاکموں کی رہائش گاہیں۔ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس پر بھی برقی قمقموں کی بہار ہے۔ باہر کی روشنیوں کا اتنا اہتمام ہے لیکن اندر اتنی تاریکی کیوں ہے۔؟ بدعہدی کی تاریکی‘ جھوٹ کی تاریکی‘ناانصافی کی تاریکی قول وفعل میں تضاد کی تاریکی نمائش اورریا کاری کا اندھیرا۔ ہم سب اپنے اپنے اندر جھانکیں یہ سب اندھیرے ہمیں اپنے اندر اپنی ذات کے اندر ملیں گے۔ ہم نے اپنے نبیؐ سے وہ تعلق نہیں بنایا جس سے دلوں میں بخیلی کی جگہ سخاوت لے لے۔ جھوٹ زبان پر آتے آتے رک جائے۔ برانڈز پر پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہوئے کسی غریب ضرورت مند‘ بیمار ‘ یتیم کسی بے کس کا خیال آ جائے۔ کہ میرے سرکار ﷺ کا حکم تو یہی ہے۔ یہی آپؐ کی حیات مبارکہ کا قرینہ ہے۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا خطا کار سے درگزر کرنے والا بداندیش کے دل میں گھر کرنے والا مفاسد کا زیروزبر کرنے والا قبائل کو شیرو شکر کرنے والا حالیؔ کے یہ لازوال نعتیہ اشعارنے نہایت آسان اور سہل انداز سمجھا دیا کہ حضورؐ کیا تھے۔ آپؐ کا کردار کائنات کی ہر شے۔ ہر ذی روح کے لئے رحمت تھا اسی محبت‘ رواداری ‘ برداشت ‘ تواضح ‘ حسن سلوک ، سخاوت ‘ حیا اور سچائی کے خزانوں سے ہمیں بھی اپنی ذات کے اندر کو روشن کرنا چاہیے۔ اندر کی روشنی باہر منعکس ہو گی تودنیا بھی سنوری ہوئی ملے گی اور آخرت میں بھی نجات ہو گی۔ نبی پاکؐ دلوں کو جوڑنے والے تھے۔ رنگ‘ نسل مسلک تمام تفرقات کو مٹانے والے تھے اور آج دیکھیے کہ 12ربیع الاول کو ایک تہوارکی طرح مناتا ہوا معاشرہ مسلک فرقوں سیاسی نظریات کی بنیاد پر بدترین تقسیم سے گزررہا ہے۔ مخالف کے لئے جس رواداری برداشت اور تواضع کا مظاہرہ میرے نبیؐ نے فرمایا اس کا ہلکا سا عکس بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا خواہ وہ ہماری انفرادی زندگیاں ہو یا معاشرے کی اجتماعی زندگی۔ ہر جگہ ہم اپنی زبانوں میں ہم آگ کی لپٹیں لئے بیٹھے ہیں کہ مخالف کو اپنے زہریلے لفظوں سے راکھ کر دیں۔ سوشل میڈیا پر دن رات سیاسی اورمسلکی مخالف ایک دوسرے پر زہر اگلتے اور گند اچھالتے ہیں۔ 12ربیع الاوّل کو یہ سب بھی گھروں پر چراغاں کریں گے اور اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں پر اس کو تہوار کی طرح منائیں گے۔میں اور آپ‘ اس عالم خواہش و خواب میں بھٹکے ہوئے ہیں اپنی جانوں پر آپ ظلم ڈھاتے ہوئے ‘ اس قرینے ‘ سلیقے اور ترتیب سے کہیں دور جو میرے نبیؐ نے اپنے روشن کردار سے ہمیں سکھایا اس روشنی سے اپنے اندر کو منور کرنے کی کوشش میں بھی کر وں ۔ آپ سب بھی کریں اور کالم کے آخر میں محترم سلیم طاہر کی ایک کیفیت سے بھری ہوئی نعت کے دو اشعار: اے خواہش دیدار تو سینے کی طرف چل اور دل سے میں کہتا ہوں مدینے کی طرف چل اک صاحب ترتیب کی نسبت سے سنور جا اے عالم برگشتہ قرینے کی طرف چل اٹھ رخت سفر باندھ پکڑ راہ مدینہ اس دور میں جینا ہے تو جینے کی طرف چل!