پاکستان جیسے اذیت پسند معاشروں میں نمک کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ مسلم لیگ کے کارکن مایوس ہیں، وہ اس اردوان سے مایوس ہیں جس کی خاطر ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کا عزم کیا جاتا رہا۔ وہ اس بھٹو سے ناراض ہیں جو صرف مائیک گرانا جانتا ہے۔ انہیں مریم نامی بے نظیر کا ٹویٹر اکائونٹ خاموش دکھائی دیا تو وہ بیزار ہو گئے۔ کارکنوں کی مایوسی جائز ہے وہ زخمی ہیں اور زخموں پر نمک پاشی کا کام ان کے قائدین سے بہتر کون جانتا ہے۔ کارکنوں کو ان سے ضرور رجوع کرنا چاہئے۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم، نیب کے ترمیمی بل میں اپوزیشن کی تجاویز کی شمولیت، زینب الرٹ بل اور چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے نئے ناموں پر اتفاق کی کوشش ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کا جمہوری نظام کسی کے بیانیے کو روند کر آگے بڑھ گیا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ دونوں فریق اب ترک تعلق کی کیفیت سے نکل کر ایک دوسرے سے رابطے اور ملاقاتیں کرنے لگے ہیں۔ مفاہمت کی اس فضا میں محبت کے سفید کبوتر اڑتے نظر آتے ہیں۔ ایسی فضا میں نمک کا ذکر؟ تبدیلی تحریک انصاف کی ڈکشنری کا سب سے معروف لفظ ہے۔ منیر نیازی کہا کرتے تھے لفظ بھی سکہ ہوتے ہیں۔ جس کے لفظ چلتے ہوں وہی اس عہد کا لسانی حکمران ہوتا ہے۔ ہم یوں سمجھ لیتے ہیں کہ فواد چودھری کی گھونسہ بازی، فردوس عاشق اعوان کا مردانہ تحمل اور شیخ رشید کی پیشگوئیوں کو ملا کر ایک عجیب سا ذائقہ بنتا ہے۔ شاہ محمود قریشی جیسے ایک دو لوگ نہ ہوں تو سمجھیں ادھر بھی لہراں بہراں ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اس لیے دکھی ہیں کہ جماعت میں انہیں جو لوگ پہچانتے ہیں وہ خود کھجور میں اٹکے ہوئے ہیں۔ عمران خان کو اپنے گرد ارب پتی شہزادے جمع کرنے کا شوق تھا سو اب بھی ان کی توجہ ارب پتی طبقے پر ہے۔ ہفتے میں ایک بار غریبوں کے حق میں کوئی شاندار بیان جاری کر دیتے ہیں ورنہ عملی صورت یہ ہے کہ نوجوانوں کو کاروبار میں مدد کے لیے احساس پروگرام اور کامیاب جوان پروگرام کے علاوہ کئی منصوبے سنتے ہیں ،یہ دودھ کی نہریں کس کے آنگن میں بہتی ہیں، کوئی خبر نہیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کبھی زندہ ہو سکے گی؟ اس بات کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کل کلاں ایسٹبلشمنٹ کوئی انتظام کر دے تو دوسری بات ورنہ مفاہمانہ پالیسی نے پارٹی کی جان قبض کر لی ہے۔ گزشتہ دو عام انتخابات اور درجنوں ضمنی انتخابات میں شاید ہی کوئی پارٹی امیدوار 500سے زاید ووٹ لے سکا ہو۔ اس کی وجہ ہے۔ پیپلزپارٹی دردمندی، عوامی پن اور دانشوروں سے سجی جماعت تھی۔ جاگیرداروں نے ذوالفقار علی بھٹو کے گرد گھیرا ڈالا۔ بے نظیر بھٹو بھی ان کے حصار میں رہیں مگر ان کی کابینہ اور ان کے احباب میں کچھ غریب اور باصلاحیت لوگ نظر آتے رہتے تھے۔ پیپلزپارٹی نے جب مسلم لیگ کی عادتیں اپنانا شروع کیں تو کارکن نظرانداز ہوا۔ جماعت کی شناخت مجروح ہوئی، لوگ پارٹی کے لیے گھر سے نکلنا چھوڑ گئے۔ بس اس کے بانیان کے لیے ایک احترام ہے جو دلوں میں موجود ہے۔ پیپلزپارٹی متعدد بار حکمران رہی ہے۔ کچھ لوگوں کو نوازا۔ نوازے گئے افراد مروت، نظریاتی شناخت یا کسی اور وجہ سے اب تک پارٹی میں ہیں۔ صرف سندھ سے جیت کر پارٹی کبھی مرکز میں حکومت نہیں بنا سکتی۔ بلاول کو یہ سمجھنے میں جانے کتنا وقت لگے۔ سیاسی کارکن اپنی قیادت سے عشق کرتے ہیں۔ کسی کے کہنے پر سڑکوں پر آ جانا، پولیس کی لاٹھیاں کھانا، قید کاٹنا، کوڑے کھانا، تختہ دار پر چڑھ جانا یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو وفاداری کے آخری درجے پر ہوتے ہیں۔ ان کو نظرانداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں مفاد پرستی کو رواج دے رہی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا مسلم لیگ ن کے بعض رہنما دور اقتدار میں جب میڈیا سے بات کرتے تو ان کے پیچھے مخصوص چہرے ہوتے۔ یہ لوگ ہر جگہ ایک ہی فریم میں دکھائی دیتے۔ اب کہاں گئے وہ لوگ؟ مسلم لیگ ن جاگیرداروں کو بے بس کر کے صنعت کاروں کو فروخت کی گئی جائیداد ہے۔ یہاں کارکنوں کو سیلزمین بنایا جاتا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کے قائد شیر ہیں۔ سیلزمین شیر کی باقی خوبیاں خود ہی تلاش کر کے آگے تشہیر کرتے رہتے ہیں۔ سیلزمین کو کہا جاتا ہے کہ ان کی قیادت نہ جھکتی ہے، نہ بکتی ہے۔ عملی حالت یہ ہے کہ بار بار جھکتی ہے اور بار بار بکتی ہے۔ اگر کوئی 2005ء سے 2008ء تک ن لیگ کے قائدین کے بیانات کی ویڈیوز ملاحظہ کرے تو معلوم ہوگا کہ وہ بڑی مثالی باتیں کیا کرتے۔ ملک کو ترقی کی طرف لے جانا، سیاسی محاذ آرائی سے گریز، محروم طبقات کو پائوں پر کھڑا کرنا، فوج کے آئینی کردار کی حمایت، اپنی غلطیوں کا اعتراف اور مستقبل میں ایسی غلطیاں نہ کرنے کا عہد۔ یہ باتیں چند ہفتوں بعد آپ پھر سے سنیں گے۔ بیانات ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ سیلزمین منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ کا کوئی قابل ذکر رہنما تو شرمندگی کے باعث ٹی وی پر آتا نہیں۔ اب اویس لغاری کو لایا گیا کہ وہ پریس کانفرنس کر کے مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے زیر حراست افراد کا نوحہ پڑھیں۔ بے تاثر پریس کانفرنس بیچنے کے لیے رانا ثناء اللہ کو ساتھ بٹھایا گیا تا کہ کسی خبر کی تلاش میں میڈیا اس پریس کانفرنس کو کوریج دے۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ ڈان لیکس سے چھوٹنے والا راکٹ کہاں تک پہنچا۔ ہمیں انتظار ہے کہ مریم اور نواز شریف کے بیانیے پر کون سی خوشبو چھڑک کر اس کی باس کوختم کیا جائے گا۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ کے درجنوں ترجمان کس ڈھٹائی کے ساتھ اپنے کارکنوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ہمیں انتظار ہے کہ دانیال عزیز، طلال چودھری، محسن رانجھا، مریم اورنگ زیب،جاوید لطیف، مصدق ملک اور عظمیٰ بخاری اب کیا بیچیں گے۔ میرے پاس نمک ہے،حساس اور درد دینے والے لفظوں کا نمک۔ اگر یہ لوگ چاہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے دکھی کارکن چاہیں تو میں انہیں یہ نمک دے سکتا ہوں تا کہ وہ اپنے زخموں پر چھڑکیں۔ اک زرداری سب پہ بھاری اور شیر اک واری فیر کے نعرے لگا کر رقص کریں۔ کیونکہ اذیت پسندوں کے لیے یہی بیش قدر تحفہ ہو گا، نمک حاضر ہے!