کیا کوئی ایک فرد آج کی دنیا میں اس قدر طاقتور‘موثر اور بااثر ہو سکتا ہے کہ اس کی گرفتاری کی خبر سنتے ہی امریکی ڈالر یک بیک بیس روپے مہنگا اور نیم رہائی کی اطلاع ملتے ہی چودہ روپے نیچے جاگرے؟مگر اب ہم پاکستانیوں کے لئے اس میں کچھ بھی حیرت کی بات ہے نہ تعجب کا سامان‘ آج کی دنیا میں ایسا اب ایک ہی شخص ہم دیکھتے ہیں جو بار بار دنیا بھر کو متوجہ اور حیران کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘خوش قسمتی سے وہ پاکستانی ہے فی الوقت جس کے پاس کوئی حکومت ہے نہ اختیار مگر اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے آدھی دنیا کے ممالک میں ہجوم کی کثرت سے راستے بند اور ٹریفک رک سکتی‘ کوئی ہیرو کوئی سلبرٹی کوئی حکمران کوئی سیاستدان ایسا دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا‘ کہتے ہیں کہ امریکی صدر دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور انسان ہے، اب چینی رہنما بھی اس صف میں شامل ہو چکے ہیں، لیکن عمران خان ایسے قائد ہیں، جو دنیائے اسلام کسی بھی ملک یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا جہاں بھی اعلانیہ چلے جائیں، وہاں کثرت ہجوم سے راستے بند ہو سکتے ہیں گزشتہ برس سے بار بار دیکھنے میں آیا ہے کہ عمران خاں کے جائے بنا بھی پاکستان کے گائوں قصبے شہر دنیا بھر سے ایک سو سے زیادہ شہروں اور دارالحکومتوں میں کروڑوں لوگ اس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جوق در جوق چلے آتے ہیں۔10اپریل 2022ء کے بعد یہ مناظر اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پاکستان فی الوقت بہت بڑے طوفان کی زد میں ہے یہ بحران 77ء کے سیاسی بحران سے بھی زیادہ خطرناک وسیع اور تیز تر ہے ،اگر اسے جلدی روکا نہ جا سکا، تو اس کی خطرناکی پاکستان سمیت پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی، نام نہاد ارباب اختیار اتنے بے اختیار ہیں کہ اپنی صفوں میں جو کالی بھیڑیں انہوں نے خود گھسائی تھیں، اب وہی بھیڑیں ان کے اختیار میں نہیں ہیں اور ان کی چالیں امن قائم کرنے اور ملک کو پٹڑی پر لانے کی اعلیٰ عدلیہ کی ہر کوشش کو پل بھر میں خاک کر سکتے ہیں، سپریم کورٹ نے کل کی سماعت میں عمران خاں کی رہائی کا حکم دے کر آج ہائی کورٹ میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔اب جبکہ ہائی کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ خبریں آ رہی ہیںکہ لاہور سے ایک بڑی پولیس پارٹی ہائیکورٹ کے باہر بن بلائے پہنچ چکی ہے ۔شرارت کرنے والے شرارت سے باز نہیں آئیں گے۔ گندے جوہڑ کے کیڑے صاف پانی میں مر جاتے ہیں، ملک میں امن ان کی موت ہے۔ان کی نوکری اور نوکری سے ملنے والی ناجائز فائدے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے بدلے ملک اور قوم جائیں بھاڑ میں، انہیں کون سا یہاں رہنا ہے، انہیں تو لوٹ سے غرض ہے، جسے سونے اور ڈالروں میں بدل کر بدیس چلے جائیں گے، ہماری مسلح افواج میں شامل ہونے والا ہر جوان تازہ اور پاکیزہ خون میں جذبہ حب الوطنی کے سوا کچھ محرک نہیں، جو انہیں سخت کوشی اور جانفروشی کے لئے دشمن کے سامنے صف آرا کرے۔ہاں مگر چند ایک وقت کے ساتھ تھوڑا بدل بھی جاتے ہیں جنہیں لوگ بعد میں میر جعفر اور میر صادق کے نام سے لغت کا دائمی حق دار گردانتے ہیں، حال ہی میں ایک نام کا اضافہ ہوا جو بھاگ کے گلف میں پناہ گزیں ہوا، اس کی باقیات میں چند پیٹی بھائی جن کی تعداد نصف درجن سے زیادہ نہیں، اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں دوسری ان کی یادگار ملک بھر سے جرائم پیشہ افراد کو ڈھونڈ کر اکٹھا کرنا اور پاکستان کی سیاسی حکومت پر بٹھا دینا ہے۔سیاسی حکومت تو ایک دھکے کی مار ہے، اس سیاسی جرائم پیشہ نے اپنے جیسے کچھ بدنام اور بدعنوان بیورو کریٹ جو انہی کی طرح جرائم میں ملوث ہو کر سزا پانے کے قریب تھے، انہیں بھی اہم جگہوں میں تعینات کیا پولیس چیف اور اینٹی کرپشن کے علاوہ الیکشن کمیشن بھی ان کی ہری بھری چراگاہوں میں ایک وسیع چراگاہ ہے گزشتہ چار دنوں سے ملک کی تاریخ کے مقبول ترین رہنما کی غیر قانونی حراست کے ردعمل میں پوری ریاست آگ‘ خون اور زلزلوں کی زد میں تھی، اعلیٰ ترین عدالت نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی، جسے پوری طرح کامیاب ہونے کے لئے ابھی بہت کٹھن راہوں سے گزرنا ہے، بڑے دھوکے ہیں، جس ماہ میں دھوکہ بازوں نے چوبیس گھنٹے گزرنے کا انتظار نہیں کیا، اور عدالت عالیہ کے سامنے ان مورچہ زن ہوئے ہیں، ان کا ہدف ملک کے اندر ہونے والے انتخاب سے بچنا اور جوہڑ کو گندہ رکھنا ہے کہ گندگی کے کیڑوں کی زندگی شفاف ہوا اور تازہ پانی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے، جیسے پہلے عرض کیا ہے کہ فوج میں پاکستانیوں کی شمولیت جان جوکھم کا کام ہے اور اس سخت کوشی اور خطرناکی سے ہر وقت نبرد آزما رہنا انہی کا کام ہے تھڑدلے پہلی منزل پر ڈھے جاتے ہیں، چند ہی جن کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہوتی ہے، جو اعلیٰ مقام تک پہنچ کر مراعات سے لطف اندوز ہوں ان میں بھی کتنے ہیں جو جنرل عثمانی کی طرح مفلسی میں گزارتے اور جنرل گل حسن کی بے گھر‘ بے در رہ کر فوج کے مہمان خانے میں پڑے جان دے دیتے ہیں، کل کے کالم میں کور کمانڈر ہائوسز اور جی ایچ کیو کے محافظوں اور مکینوں کا ذکر کیا تھا، انہی کے صبر اور ثابت قدمی نے بہت سی جانیں بچائیں اور قوم پر احسان کیا لیکن ان کی قربانی اعلیٰ عدلیہ کے کئے کرائے پر جنرل قمر جاوید جو سابق ہو چکے، ان کی تین چار باقیات اور جرائم پیشہ حکومت کی طرف سے تحفے میں بخشے جرائم میں لتھڑے نصف درجن بیورو کریٹ امن کے درپے ہیں ،جہاں تک سیاسی حکومت اگرچہ وہ نام کی حکومت مگر اسٹیبلشمنٹ کے ناز برداری اور پشت پناہی نے انہیں سہارا دے رکھا اور سہارا بھی ہوا ہے ورنہ یہ پھونکوں سے بجھنے والے مٹی کے دیے۔ان کی اوقات کیا ہے؟عدالت عظمیٰ کے معزز ممبران نے شہباز شریف کے ٹولے کو بچ نکلنے کا موقع دیا ہے لیکن ان کے لالچ اور کند ذہنی سے کوئی امید نہیں کہ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنی ساکھ اور عزت بچانے کے لئے موقع دیا ہے کہ اپنے اداروں میں ٹوٹ پھوٹ کو روک لیں اور اپنی کالی بھیڑوں کو نکال باہرکریں، ورنہ ہم ایک برس سے تجربہ کر چکے ہیں کہ عمران خاں کو توڑا نہیں جا سکا اور اس کی قیادت میں تحریک انصاف ایک سال کی طویل مشقت اور جدوجہد کے بعد سخت جان ہو چکی ہے، جس طرح فوج کے جوان طویل جنگ کی سختیوں میں زندہ رہنا سیکھ جاتے ہیں، اسی طرح ملک کے جوان عمر خواتین اور بچے ہر طرح کی خوف و خطر سے بے نیاز ہو چکے ہیں اور ان کی تعداد اور استعداد روز افزوں ہے۔تیس‘ پچیس فیصد کی مقبولیت کی تحریک انصاف 80فیصد تک آن پہنچی ہے۔دور دور تک کوئی اس کا ہمسر نہیں آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ انتخابات کروائیں، آئین پاکستان کا اولین تقاضا اور سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد حل ہے ۔بحران جس قدر طویل ہوتا جائے معاشی اور اقتصادی بدحالی ہر کسی کو لپیٹ میں لیتی جائے گی، یہ بات ہر وقت یاد رکھنے کی ہے جب تنخواہوں کے لالے پڑ جائیں گے، تو سب سے پہلے متاثر ہونے والے اسٹیبلشمنٹ ہے، جس کے لگ بھگ ایک کروڑ ملازمین فوراً متاثر ہونگے کہ ان کے پاس اپنی ماہانہ تنخواہوں کے علاوہ اور رکھا ہی کیا ہے؟ یاد رہے کہ بھوکے لوگ تڑپ تڑپ کر مرنے سے پہلے غول در غول حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کے حملے سب سے پہلے اپنے قریب ترین بسنے والے خوشحال گھرانے بن جاتے ہیں کہ دور دراز جانے کی تو ان میں توانائی ہی باقی نہیں بچی ہوتی!!منظر بہت خوف ناک ہے، اس سے کہیں زیادہ جو آپ نے مشرقی پاکستان میں دیکھا اور پچلے چار پانچ دن کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، کیا آپ نے نہیں دیکھا نہتے جوانوں نے گولیاں چلاتے ہوئے نامعلوم قسم کے معلوم لوگوں کو کس جرات سے للکارا ہے۔سپریم کورٹ کی مہربانی سے فائدہ اٹھائیں یہی آخری موقع ہے جو شاید پھر نہ ملے۔ میسنے لوگو!