ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی وہاں سچ مچ کے دل رکھے گئے تھے وہاں جذبوں کی ارزانی نہیں تھی میں کسی اور دنیا کی بات کرنا چاہتا ہوں جہاں حیرت نے ان ہونیوں کے در کھولے ’’حافظ و غالب و اقبال سے صحبت ہے ہمیں۔ہم وہی لوگ ہیں جو اپنے زمانے کے نہیں‘ اس عمد میں جہاں سیاست اور معاشرت اتنی مکدر ہو گئی ہے کہ دم گھٹتا ہے کوئی حوالہ نہیں دوں گا کہ مجھے جگر کے بقول یہی کہنا ہے کہ جن کا یہ کام وہ اہل سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے اور پھر مجھے تو بات بھی اس شاعر طرحدار کی کرنی ہے جو کہتا ہے کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام۔مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔ کتنا اچھا لگتا ہے کہ اس تہذیب و تمدن کے اجڑے ہوئے دیار میں کوئی ادب و شاعری کے چراغ روشن کر رہا ہے کہ اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائو۔ مجھے بہت ہی اچھا لگا کہ شاعر علی شاعر نے ہمارے پیارے دوست اور بے بہا شاعر غلام محمد قاصر نمبر رنگ ادب‘ کے سلسلہ میں بھیجا مجھے تو جیسے کئی دنوں کی خوراک مل گئی، بڑے سائز میں سات صد صفحات سے زیادہ پر مشتمل یہ ارمغاں ایک خاصے کی شے ہے۔ اسے کھولا تو ہمارے پیارے بھتیجوںکی طرف سے محبت کے الفاظ تھے حماد قاصر اور عدنان قاصر دونوں غلام محمدقاصر کی ثمر بار دعائیں ہیں۔انتہائی مہذب اور شائستہ۔اسلام آباد کانفرنس میں ملنے آئے تو آنکھیں روشن ہو گئیں اس ضخیم نمبر پر میں کوئی بات کروں تو درجن بھر کالم باندھے جا سکتے ہیں۔ قاصر صاحب کے کئی نئے پہلو بھی سامنے آئے میرا دل چاہتا ہے کہ میں پہلے حمدو نعت کے چند اشعار سے ان پر گفتگو کا آغاز کروں: آزمائش میں کوئی تجھ کو صدا دیتا ہے اور تو آگ کو گلزار بنا دیتا ہے حمد کا پھول سرشاخ یقیں دیکھ کے دل وہم کے سارے پرندوں کو اڑا دیتا ہے نعتیں تو ان کی کئی ساری ہیں اور سبحان اللہ آپ عشق و سرور میں وجد کی حالت میں آ جائیں گے: دن کو دن رات کو جو رات نہیں لکھ سکتا ایسا فنکار کبھی نعت نہیں لکھ سکتا عرش سے دل پہ اترتے ہیں مدینے کے خیال اور میں اپنے خیالات نہیں لکھ سکتا (یہ نعت ان کی آخری تخلیق ہے وفات سے چند روز قبل کی)مجھے شدید تشنگی کے ساتھ آگے بڑھنا پڑ رہا ہے ۔اب آپ سلام کے شعر دیکھیں کہ کیا انداز اور اہتمام ہے سبحان اللہ: یزید آج بھی بنتے ہیں لوگ کوشش سے حسینؓ خود نہیں بنتا خدا بناتا ہے سردست میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ان کے کلیات کا نام بھی ایک بلیغ شعر سے لیا گیا تھا: ہر عہد نے زندہ غزلوں کے کتنے ہی جہاں آباد کئے پر تجھ کو دیکھ کے سوچتا ہوں اک شعر ابھی تک رہتا ہے غلام محمد قاصر نمبر میں بہت کچھ ہے میں ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ ان کا تنقیدی مضمون پڑھ کر حیران ہو گیا۔انہوں نے کئی مشاہیر شعرا کی بے احتیاطیوں کی بات بھی کی۔ان کا لہجہ مگر ظفر اقبال کی طرح رعب جمانے کا نہیں۔ انہوں نے کچھ تعمیری باتیں کی ہیں ایک جگہ انہوں نے طفلان مکتب کے لئے کچھ بتایا ہے کہ حسن اور جمال میں کیا فرق ہے وہی کہ جو ہینڈسم اور بیوٹی فل میں ہے۔اس حوالے سے انہوں نے مصحفی کا ایک شعر درج کیا: چمکی بجلی سی پر نہ سمجھے ہم حسن تھا یا جمال تھا کیا تھا انہوں نے ایک شعر ناسخ کا مومن کے مشہور شعر کے مقابلے میں رکھا۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ قاصر صاحب کی شریک حیات بھی اچھی خاصی شاعرہ ہیں اور اس نمبر کا حرف اول انہوں ہی نے لکھا ہے اور ایک نظم اپنے میاں کی یاد میں۔ لگتا ہے کہ اس کتاب کو نہایت محنت سے تیار کیا گیا ہے پہلا حصہ نثر قاصر ہے جس میں کافی کچھ ہے آپ کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کہ مشہور ڈرامہ بھوت بنگلہ بھی انہی کا لکھا ہوا تھا ان کے مضامین دیباچے اور فلیپ کیا کچھ بھرا پڑا ہے۔ اہل قلم کی نظر میں درجنوں خطوط بھی ہیں ان کے نام اور پھر نظمیں اور کالمز اچھا خاصہ ذخیرہ ہے ایک کالم ہمارا بھی اس میں ہے جو میں نے 92نیوز کے لئے ان کی برسی پر لکھا تھا حرف اول سے پہلا قاصر کا ایک شعر درج وہاں سے آپ کو ان کا مزاج سمجھنے میں مدد ملے گی۔ آپ ذرا اہتمام دیکھیں کہ انہوں نے اپنے مشاہدے اور تجربے کو حزر جاں کیسے کیا۔وہ اپنے ہی انداز میں بات کرتے تھے برسات کا ساتھ نبھاتے ہوئے آنکھوں نے برسنا چھوڑ دیا۔ہائے ہائے اپنا کام برسات کو سونپ دیا یہ بھی اک رنگ ہے ان سے پہلا تو ان کا تعارف ان کا مشہور شعر تم ناحق ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے مگر بالمشافہ اس وقت ملے جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ریڈیو آئے تو میں نے کچھ وقت ان سے مانگا۔ خیر قاصر صاحب اور میں پروڈیوسر کے کمرے میں بیٹھ گئے۔انہوں نے دوستوں کو انتظار کا کہہ دیا تھا۔کچھ غزلیں سنائیں اور کچھ سنیں چند دن کے بعد ان کی طرف سے ان کی کتابوں کا پارسل ملا اور ساتھ خط جس پر لکھا ہوا تھا کہ کوئی شخص مجھے صرف شاعری کے حوالے سے ملا وہ ٹی وی میں آئے کہ ان کا نغمہ پہلے نمبر پر آیا تھا ہم دونوں گھومتے رہے تو ان کا پروگرام اکٹھے دیکھا۔وہ فقیر اور درویش تھے سیدھے سادے آغا ذوالفقار خان نے مشہور انتخاب البم میں ان کی دس غزلیں شامل کیں۔میں نے کوشش کی کہ وہ شعر دوبارہ نہ لکھوں جو میں پہلے اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں ان کی ایک دعا کے ساتھ اجازت کہ کالم کی گنجائش ختم: پتہ بنے دعا کے لئے ہاتھ اے خدا اتریں چمن میں امن و مساوات اے خدا ہر شے بدل رہی ہے تیری کائنات میں بدلیں میری زمیں کے بھی حالات اے خدا شہروں پر اب تو پیار کی صبحوں کا عکس ڈال ہو ختم نفرتوں کے یہ دن رات اے خدا