آج کل میڈیا میں پھر ہر طرح کی کہانیاں سنائی جا رہی ہیں۔ محترم ہارون رشید نے لکھا کہ وزیر اعظم نے دفتر میں وقت دینا کم کر دیا ہے اور دیر سے آتے ہیں اور جلدی چلے جاتے ہیں۔ کئی ٹی وی اینکر کبھی Minus-1اور کبھی minus Allکے منظر پیش کر رہے ہیں۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ کابینہ میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور پنجاب میں بزدار صاحب کے بارے میں تو ایسی مہم چلی کہ وزیر اعظم کو کہنا پڑا کہ بزدار اس وقت تک رہیں گے جب تک وہ خود وزیر اعظم رہیں گے۔ میں نے بھی کوشش کی کہ وزیر اعظم کے موڈ کے بارے میں سُن گن لی جائے، تو خبریں آئیں کہ جو لوگ ایسی کہانیاں پھیلا رہے ہیں، وہ عمران خان کو نہیں جانتے، وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے، بلکہ اپنی تمام قوت کے ساتھ بھر پور جواب دیتے ہیں اور دینگے ۔کئی لوگوں نے تو واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر نام بھی گھمانے شروع کر دیے یعنی اگر وزیر اعظم کو ہٹایا جائے تو پھر کون بنے گا مہان منتری۔ پہلے دو نام چلائے گئے اور جب سے جناب جنرل باجوہ کو مزید تین سال کی توسیع دی گئی ہے ایک اور نام بھی میدان میں پھینک دیا گیا ہے، جو آئی ایم ایف والوں کے بھی منظور نظر کہلاتے ہیں۔ عجیب عجیب قصے کہانیاں ہیں۔ ایک بڑے اخبار نے پورا صفحہ چھاپ دیا کہ سندھ میں حکومت کیسے گرائی جا سکتی ہے یا گرائی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی اسی طرح کی امیدوں کے سہارے پر روز جیتے ہیں اور ہر روز ان کی امیدیں دم توڑتی نظر آتی ہیں۔ ایک دن ان کے انقلابی دھرنے اور اسلام آباد کو بند کرنے کے لئے نواز شریف کی حمایت کا اعلان آتا ہے تو دوسرے دن بلاول بھٹو یہ کہہ کر ساری امیدوں پر پانی پھیر دیتے ہیں، کہ ہم صرف اخلاقی حمایت ہی کریں گے، یعنی وہ اور ان کے لوگ سڑکوں پر نہیں ہونگے ۔ ویسے بھی مولانا صاحب اپنے مدرسوں کے بچوں کو سڑکوں پر لاکر ہنگامہ برپا کرنا چاہتے ہیں، جس کی کوئی حکومت کسی بھی طور اجازت نہیں دے سکتی۔ کئی ٹی وی کے اینکر اور تجزیہ کار باقاعدہ یہ کہہ رہے ہیں اندر خانہ نواز شریف اور آصف زرداری سے بات چیت چل رہی ہے۔ پیغام رسانی ہو رہی ہے اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر طے کیا جا رہا ہے کہ کتنے دن میں کتنے لوٹے ہوئے ڈالر یا اربوں روپے واپس کئے جائیں گے۔ ان سب کہانیوں کے بارے میں وزیر اعظم تو کئی دفعہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ کسی کو NROنہیں دیں گے لیکن جن لوگوں نے لوٹ کھسوٹ کی ہے وہ نیب کے قانون کے مطابق پیسے واپس دیں اور جیلوں سے باہر آ جائیں، چاہیں تو ملک سے بھی باہر جا سکتے ہیں۔ اب دو چیزوں کو ملاکر الجھایا جا رہا ہے ایک تو نیب کے کیس اور ان کا حل ہے، دوسری طرف حکومت اور عمران خان کی ایک سال کی کارکردگی ہے۔ حکومت کے مخالف تمام لوگ جو کیسوں میں پھنس گئے ہیں اور عدالتوں میں کیس بھگت رہے ہیں وہ حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنا کر اپنی سوداکرنے کی قوت بڑھانا چاہتے ہیں یعنی ہمارے کیس ختم کرو تو ہم تمہاری کارکردگی پر تنقید نہیں کریں گے اور دبائو کم کر دیں گے۔ حکومتی کارکردگی پر سوالات تو بہت اٹھ رہے ہیں اور کچھ جائز بھی ہیں۔ کئی کہانیاں جیسے 300ارب روپے کی معافی اور پھر اس فیصلے کی واپسی حکومت اوروزیر اعظم کے لئے باعث شرمندگی ضرور بنی ہیں مگر عمران خان نے خاصہ غصہ اور ناراضگی دکھائی ہے کہ ان کو پوری تصویر نہیں دکھائی گئی اور ان سے غلط فیصلہ کروایا گیا۔ ایک طرح یہ ذمہ داری تو خود وزیر اعظم پر ہی آتی ہے لیکن اگر کسی نے ان کو ماموں بنایا تو یہ ذمہ داری بھی انہی پر آتی ہے کہ وہ ایسے وزیر یا مشیر اپنے قریب نہ رکھیں اور ان بنیادوں پر ہی کابینہ میں ردوبدل کی خبریں بن رہی ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق عمران خان نے اچھی خاصی تبدیلی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ایسے وزیر یا مشیر یا تو ہٹا دیے جائیں گے یا ان کے محکمے بدل جائیں گے۔ یعنی یہ ہو سکتا ہے اسد عمر واپس آ کر اہم قلمدان سنبھال لیں‘ خزانہ نہیں تو ملتی جلتی کئی وزارتیں ہیں ان کی ملاقات بھی ہو گئی ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے چہیتے بھی آگے پیچھے ہو سکتے ہیں۔ سندھ میں بھی کئی لوگ جا کر اپنی کوشش کر سکتے ہیں کیونکہ اگر کشمیر کا مسئلہ درمیان میں نہ آتا تو سندھ کو اسلام آباد کے کنٹرول میں لانے کا پورا منصوبہ تیار تھا اور ہے۔ کیونکہ وہاں کی حکومت نے بالکل ہاتھ اٹھا دیے ہیںاور کراچی کے کچرے نے تو بالکل ہی ہمارے پول کھول دیے ہیں۔ جو حکومت سڑکوں اور گلیوں سے کوڑا کچرا نہیں اٹھا سکتی اسے پورے صوبے پر حکومت کرنے کا کیا حق رہ جاتا ہے؟ اسی لئے عمران خان نے بھی غصے میں آ کر یہاں تک کہہ دیا کہ وہ خود جا کر کراچی کا کچرا صاف کریں گے مگر اس کا طریقہ ظاہر ہے سیاسی اور حکومتی فیصلے ہی ہونگے نہ کہ ٹریکٹر پر بیٹھ کر سڑکیں دھونا۔ عمران خان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ایسے لوگوں کی تلاش جو ایمانداری اور اچھے طریقے سے کام چلا سکیں۔ آج کل تو لگتا ہے وہ خود پریشان ہیں کہ ان کے لوگ اس ایجنڈے پر نہیں چل رہے، جو ان کا بنیادی وعدہ تھا مگر سب جلدی میں ہیں اور غلطیاں کر رہے ہیں یا جان بوجھ کر ایسے فیصلے ہو رہے ہیں جو خاص لوگوں کو فائدے تو پہنچائیں مگر عمران خان کے نعروں کی نفی کرتے جائیں۔ اب ہماری سپریم کورٹ نے بھی کروٹ لینے کا وعدہ کیا ہے اور دوبارہ سوموٹو کیس شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے اب جو مفاد عامہ کے کیس عدالت میں آئیں گے وہ نواز شریف زرداری کے خلاف تو نہیں ہونگے بلکہ وہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی پر زیادہ توجہ دیں گے۔ تو یہ ایک اور دبائو ہو گاوزیر اعظم پر، تاکہ وہ اپنے گھر کے معاملات جلداز جلد ٹھیک کر لیں۔ دیر کر دی تو عدالت میں سوال جواب شروع ہو سکتے ہیں۔ کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ وہ کیس تیار کر رہے ہیں اور جن موضوعات پر ٹی وی میں زیادہ ذکر ہو رہا ہے وہی عدالت کے سامنے پہلے آ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کھوسہ صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ احتساب کا عمل آج کل الٹا پلٹا لگ رہا ہے اور اس میں سیاست کے رنگ اور انجینئرنگ کی بو آ رہی ہے۔ یہ بات تو بڑی خطرناک لگتی ہے اور اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو لوگ احتساب کرنے کے ذمہ دار ہیں ان پر ایک چارج لگ گیا ہے۔ سیدھے الفاظ میں نیب والوں سے کہا گیا ہے کہ سب کا احتساب کریں اپنی مرضی کے لوگوں میں Pick Choseنہ کریں۔ تو اس پالیسی کے تحت اب عمران خان کی حکومت کے لوگوں پر بھی زیادہ فوکس شروع ہو جائے گا۔ یہ الفاظ سن کر یاد آیا کہ کچھ دن پہلے نیب کے چیئرمین نے فرمایا تھا کہ اگر انہوں نے حکومتی لوگوں کے کیس کھولنے شروع کئے تو حکومت ہی گر جائیں گی۔ یہ بیان اب چیف جسٹس کھوسہ کے بڑے بیان کے مقابلے میں اپنی افادیت کھو چکا ہے اور نیب کو ایکشن میں آنا ہی پڑے گا اور نشانے پر پہلے کون ہو گا یہ فیصلہ اب میڈیا کے پروگراموں میں شاید ہو۔ جو بڑے بڑے نام آ رہے ہیں وہ تیار ہو جائیں ۔اور اچھا ہو گا خود عمران خان پہلے ایکشن لے لیں اور اپنی حکومت کا نام اور ساکھ بچائیں۔ آخر میں یہ کہ ان کہانیوں کے موسم میں کئی سوئے ہوئے گھوڑے دوبارہ دوڑنے کو تیار ہو رہے ہیں۔ بلکہ ایک دوست نے واقعہ سنایا کہ جنرل مشرف کے سامنے ایک دن چین کے صدر نے کہا کہ آپ کے موجودہ سیکرٹری صنعت سے میں دو گھنٹے کی ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ ظاہر ہے ملاقات تو ہونی ہی تھی لیکن جنرل مشرف نے فوراً گھوڑے دوڑائے کہ یہ صاحب کون ہیں؟ معلوم ہوا وہ ان افسروں میں سے تھے جنہوں نے چین کے صدر کو سی پیک کا مشورہ دیا تھا۔ وہ صاحب اب بھی موجود ہیں اور شاید عمران خان کی مدد کرنے کو تیار بھی ہو جائیں۔