ابو حیدر

آپ کے اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل کالکھنااس لیے دشوارہے کہ وہ بے شمارہیں علامہ شبلنجی ابراہیم بن عباس تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام علی رضاعلیہ السلام نے کبھی کسی شخص کے ساتھ گفتگوکرنے میں سختی نہیں کی،اورکبھی کسی بات کوقطع نہیں فرمایا آپ سے بات کرنے والا جب اپنی بات ختم کرلیتاتھا تب آپ اپنی طرف سے آغازکلام فرماتے تھے کسی کی حاجت روائی میں حتی المقدوردریغ نہ فرماتے،کبھی ہمنشین کے سامنے پاؤں پھیلاکرنہ بیٹھتے اورنہ اہل محفل کے روبروتکیہ لگاکربیٹھتے تھے کبھی اپنے غلاموں کوگالی نہ دی اورچیزوں کاکیاذکر،میں نے کبھی آپ کے تھوکتے اورناک صاف کرتے نہیں دیکھا،آپ قہقہہ لگاکرہرگز نہیں ہنستے تھے خندہ زنی کے موقع پرآپ تبسم فرمایاکرتے تھے محاسن اخلاق اورتواضع وانکساری کی یہ حالت تھی کہ دسترخوان پردربان تک کواپنے ساتھ بٹھالیتے،راتوں کوبہت کم سوتے اوراکثرراتوں کوشام سے صبح تک شب بیداری کرتے تھے ،اکثراوقات روزے سے ہوتے تھے مگرہرمہینے کے تین روزے توآپ سے کبھی قضانہیں ہوئے ارشادفرماتے تھے کہ ہرماہ میں کم ازکم تین روزے رکھ لیناایساہے جیسے کوئی ہمیشہ روزے سے رہے۔ آپ کثرت سے خیرات کیاکرتے تھے اوراکثررات کے تاریک پردہ میں اس استحباب کوادافرمایاکرتے تھے موسم گرمامیں آپ کافرش جس پرآپ بیٹھ کرفتوی دیتے یامسائل بیان کیاکرتے بوریاہوتاتھااورسرمامیں کمبل آپ کایہی طرزاس وقت بھی رہا جب آپ ولی عہدحکومت تھے آپ کالباس گھرمیں موٹااورخشن ہوتاتھا اوررفع طعن کے لیے باہرآپ اچھالباس پہنتے تھے ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہاکہ حضوراتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندرکاپیراہن دکھلاکرفرمایااچھالباس دنیاوالوں کے لیے اورکمبل کاپیراہن خداکے لیے ہے۔ 

علامہ موصوف تحریرفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ حمام میں غسل فرما رہے تھے کہ ایک جندی نامی شخص آگیااوراس نے بھی نہاناشروع کر دیا۔دوران غسل اس نے امام رضاعلیہ السلام سے کہاکہ میرے جسم پرپانی ڈالئے آپ نے پانی ڈالناشروع کیااتنے میں ایک شخص نے کہااے جندی !رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے فرزندسے خدمت لے رہاہے ؟ارے یہ امام رضا( علیہ السلام )ہیں، یہ سنناتھا کہ وہ پیروں پرگرپڑااورمعافی مانگنے لگا (نورالابصار ص ۸۳،۹۳)۔ 

ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مجھے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال عنایت کیجیے، فرمایایہ ممکن ہے چنانچہ آپ نے اسے دوسواشرفی عنایت فرمادی، ایک مرتبہ نویں ذی الحجہ یوم عرفہ آپ نے راہ خدامیں ساراگھرلٹادیا یہ دیکھ کرفضل بن سہیل وزیرمامون نے کہاحضرت یہ توغرامت یعنی اپنے آپ کونقصان پہنچاناہے آپ نے فرمایایہ غرامت نہیں ہے غنیمت ہے میں اس کے عوض خداسے نیکی اورحسنہ لوں گا۔ 

آپ کے خادم یاسرکابیان ہے کہ ہم ایک دن میوہ کھارہے تھے اورکھانے میں ایساکرتے تھے کہ ایک پھل سے کچھ کھاتے اورکچھ پھینک دیتے ہمارے اس عمل کوآپ نے دیکھ لیا اورفرمایانعمت خداکوضائع نہ کروٹھیک سے کھاؤ اورجوبچ جائے اسے کسی محتاج کودیدو،آپ فرمایاکرتے تھے کہ مزدورکی مزدوری پہلے طے کرناچاہئے کیوں کہ چکائی ہوئی اجرت سے زیادہ جوکچھ دیاجائے گاپانے والااس کوانعام سمجھے گا۔ 

سلیمان بن جعفرکاکہناہے کہ آپ آباؤاجدادکی طرح خرمے کوبہت پسندفرماتے تھے آپ شب وروزمیں ایک ہزاررکعت نمازپڑھتے تھے جب بھی آپ بسترپرلیٹتے تھے تابہ خواب قرآن مجید پڑھاکرتے تھے ۔ 

منقبت حضرت امام علی رضا علیہ السلام 

نور نبی اور فیض کا دریا گوہر یکتا علی رضا ہے 

کامل و اکمل ،نور کا پیکر علی کا تارا علی رضا ہے 

شان امامت ،حُسنِ امام ، مہر منور حیدر کا ہے 

حامل رحمت ، جان کرامت ، اعلیٰ و بالا علی رضا ہے

آل نبی اولاد علی ہے باغ نبی کی تازہ کلی ہے

اس کا سخی گھرانہ سارا کرم سراپا علی ہے 

مخزن عشق کا خازن بھی ہے زہرا پاک کا چندن بھی ہے 

بحرِ کرم ہے ،نور حرم ہے رب کا پیارا علی رضا ہے 

اہل نظر کا رہبر بھی ہے حسن حسین کا دلبر بھی ہے 

علم کے در کے علم کا وارث میرا مسیحا علی رضا ہے 

تاجِ امامت اس کو ملا ہے رنگ عبادت کا جُدا ہے 

مصحفِ رحمت علی رضا ہے زورِ یداللہ علی رضا ہے 

حق کا ولی ہے ابن علی ہے،خُلد کا رستہ اس کی گلی ہے 

ساجد میری سوچ کا محور ،میرا آقا علی رضا ہے 

کلام :صاحبزادہ لطیف ساجد چشتی

انتخاب سید محمد شہزاد علی 

 

حضرت امام رضاعلیہ السلام کاعلمی کمال

مورخین کابیان ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہرفرداللہ تعالیٰ کی طرف سے بلندترین علم کے درجے پرقراردیا گیاتھاجسے دوست اوردشمن کومانناپڑتاتھا یہ اوربات ہے کہ کسی کوعلمی فیوض پھیلانے کازمانے نے کم موقع دیا اورکسی کوزیادہ، چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعداگرکسی کوسب سے زیادہ موقع حاصل ہواہے تو وہ امام رضاعلیہ السلام ہیں، حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے تمام فرزندوں اورخاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم اہل بیت ہیں، اپنے دینی مسائل کوان سے دریافت کرلیاکرو، اورجوکچھ وہ کہیں یادرکھو،اورپھرحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وصال کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اورروضہ رسول پرتشریف فرمارہے تھے توعلمائے اسلام مشکل مسائل میں آب کی طرف رجوع کرتے تھے۔ 

محمدبن عیسی یقطینی کابیان ہے کہ میں نے ان تحریری مسائل کو جوسیدنا امام علی رضاعلیہ السلام سے پوچھے گئے تھے اورآپ نے ان کاجواب تحریرفرمایاتھا،اکھٹا کیاتواٹھارہ ہزارکی تعدادمیں تھے، آئمہ طاہرین علیہم السلام کی خصوصیات میں یہ امرتمام تاریخی مشاہداور نیز حدیث وسیرکی اسانیدمعتبرسے ثابت ہے،باوجودیکہ اہل دنیاکوآپ حضرات کی تقلیداورمتابعت فی الاحکام کابہت کم شرف حاصل تھا،مگربایں ہمہ تمام زمانہ وہرخویش وبیگانہ آپ حضرات کوتمام علوم الہی اوراسرارالہی کاگنجینہ سمجھتاتھا اورمحدثین ومفسرین اورتمام علماوفضلا جوآپ کے مقابلے کادعوی رکھتے تھے وہ بھی علمی مباحث ومجالس میں آپ کے آگے زانوئے ادب تہ کرتے تھے اورعلمی مسائل کوحل کرنے کی ضرورتوں کے وقت استعفادہ کیا کرتے تھے وہ سب کتابوں میں موجودہے۔ 

جابربن عبداللہ انصاری اورحضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں سمع حدیث کے واقعات تمام احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں،اسی طرح ابوالطفیل عامری اورسعیدبن جبیرآخری صحابہ کی تفصیل حالات جوان بزرگون کے حال میں پائے جاتے ہیں وہ سیروتواریخ میں مذکورومشہورہیں صحابہ کے بعدتابعین اورتبع تابعین اوران لوگوں کی فیض یابی کی بھی یہی حالت ہے،شعبی،زہری، ابن قتیبہ،سفیان ثوری،ابن شیبہ، عبدالرحمن،عکرمہ،حسن بصری،وغیرہ وغیرہ یہ سب کے سب جواس وقت اسلامی دنیامیں دینیات کے پیشوااورمقدس سمجھے جاتے تھے ان ہی بزرگوں کے چشمہ فیض کے جرعہ نوش اورانہی حضرات کے مطیع وحلقہ بگوش تھے۔ 

جناب امام علی رضاعلیہ السلام کواتفاق حسنہ سے اپنے علم وفضل کے اظہارکے زیادہ مواقع پیش آئے کیوں کہ مامون عباسی کے پاس جب تک دارالحکومت مروتشریف فرمارہے، بڑے بڑے علما وفضلا علوم مختلفہ میں آپ کی استعداداور فضیلت کااندازہ کرایاگیااورکچھ اسلامی علما پرموقوف نہیں تھا بلکہ علمائے یہود ونصاری سے بھی آپ کامقابلہ کرایاگیا،مگران تمام مناظروں ومباحثوں مین ان تمام لوگوں پرآ پ کی فضیلت وفوقیت ظاہرہوئی،خودمامون بھی خلفائے عباسیہ میں سب سے زیادہ اعلم وافقہ تھا باوجوداس کے وہ بھی آپ کے تبحرفی العلوم کالوہامانتاتھا اورچاروناچاراس کااعتراف پراعتراف اوراقرارپراقرارکرتاتھا چنانچہ علامہ ابن حجرصواعق محرقہ میں لکھتے ہیں کہ آپ جلالت قدرعزت وشرافت میں معروف ومذکورہیں،اسی وجہ مامون آپ کوبمنزلہ اپنی روح وجان جانتاتھا اس نے اپنی دخترکانکاح آپ علیہ السلام سے کیا،اورملک ولایت میں اپناشریک گردانا، مامون برابرعلمائے ادیان وفقہائے شریعت کوجناب امام علی رضاعلیہ السلام کے مقابلہ میں بلاتااورمناظرہ کراتا،مگرآپ ہمیشہ ان لوگوں پرغالب آتے تھے اورخودارشادفرماتے تھے کہ میں مدینہ میں روضہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھتا،وہاں کے علمائے کثیرجب کسی علمی مسئلہ میں عاجزآجاتے توبالاتفاق میری طرف رجوع کرتے،جواب ہائے شافی دیکران کی تسلی وتسکین کردیتا۔

 

اقوال 

سیدنا امام علی رضا علیہ السلام 

٭…جوشخص نئے سے نئے گناہ کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ بھی اس پر نئی سے نئی مصیبتوں کو نازل کرتا ہے۔

٭ …گناہوں کے لیے استغفار ایسے ہے جیسے خزاں رسیدہ درخت کے لئے تیز آندھی۔

٭ …رحمت ہو اس شخص پر جو خود علوم سیکھے او ر دوسروں کو سکھائے ۔

٭…واجبات کی ادائیگی اور گناہوں سے پرہیز ایمان ہے ۔

٭…خاموشی دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے ۔

 

سیدناامام علی رضاعلیہ السلام کے

 مرویات و ارشادات

 بچوں کے لیے ماں کے دودھ سے بہترکوئی دودھ نہیں۔ 

 سرکہ بہترین سالن ہے جس کے گھرمیں سرکہ ہوگاوہ محتاج نہ ہوگا۔ 

 منقی صفراکودرست کرتاہے بلغم کودورکرتاہے پٹھوں کومضبوط کرتاہے نفس کوپاکیزہ بناتااوررنج وغم کودورکرتاہے ۔

شہدمیں شفاہے،اگرکوئی شہدہدیہ کرے توقبول کر لو۔ 

 بنفشہ کاتیل سرمیں لگاناچاہئے اس کی تاثیرگرمیوں میں سرداورسردیوں میںگرم ہوتی ہے۔ 

 صلہ رحم اورپڑوسیوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنے سے مال میں زیادتی ہوتی ہے۔ 

 اپنے بچوں کاساتویں دن ختنہ کردیاکرواس سے صحت ٹھیک ہوتی ہے اورجسم پرکوشت چڑھتاہے۔ 

 جمعہ کے دن روزہ رکھنا دس روزوں کے برابرہے۔ 

 جوکسی عورت کامہرنہ دے یامزدورکی اجرت روکے یاکسی کوفروخت کردے وہ بخشانہ جائے گا۔ 

 شہدکھانے اوردودھ پینے سے حافظہ بڑھتاہے۔ 

 کھانے کی ابتدا نمک سے کرنی چاہئے کیوںکہ اس سے ستربیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے جن میں جذام بھی ہے۔ 

 جودنیامیں زیادہ کھائے گاقیامت میں بھوکارہے گا۔ 

 مسورسترانبیاء کی پسندیدہ خوراک ہے اس سے دل نرم ہوتاہے اورآنسوبنتے ہیں۔

 کھاناٹھنڈاکرکے کھاناچاہئے۔ 

 کھانا پیالے(برتن) کے کنارے سے کھانا چاہئے۔ 

 اچھے اخلاق والاپیغمبراسلام کے ساتھ قیامت میں ہوگا۔

  جنت میں متقی اورحسن خلق والوں کی اورجہنم میں پیٹواور زناکاروں کی کثرت ہوگی۔ 

 امام حسین کے قاتل بخشے نہ جائیں گے ان کابدلہ خدالے گا۔ 

 حسن اورحسین علیہم السلام جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدربزرگواران سے بہترہیں۔ 

 اہل بیت کی مثال سفینہ نوح جیسی ہے،نجات وہی پائے گا جواس پرسوارہوگا۔ 

 خداسے روزی صدقہ دے کرمانگو۔ 

 سب سے پہلے جنت میں وہ شہدااورعیال دارجائیں گے جوپرہیزگارہوں گے اورسب سے پہلے جہنم میں حاکم غیرعادل اورمالدارجائیں گے (مسندامام علی رضا علیہ السلام) 

 ہرمومن کاکوئی نہ کوئی پڑوسی اذیت کاباعث ضرورہوگا۔ 

 قضاوقدرکے بارے میں آپ نے فضیل بن سہیل کے جواب میں فرمایاکہ انسان نہ بالکل مجبورہے اورنہ بالکل آزادہے (نورالابصار )