جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا زبان خنجر چپ رہی چپ رہے گی مگر لہو آستیں کا آخر آخر پکارنے لگا ہے‘ لیاقت علی خاں‘ محترمہ فاطمہ جناح ‘ حسین شہید سہروردی‘ مشرقی پاکستان شہید‘ ضیاء الحق ‘ آصف نواز جنجوعہ‘ بے نظیر بھٹو‘ پاکستان کو دولخت کیا، بانیان پاکستان ناحق قتل(شہید) کئے گئے۔مقبول سیاسی قائدین کا خون بہایا ‘ یہیں پر بس نہیں ہوا، دو بری فوج کے سربراہ‘ نصف درجن اہم فوجی عہدیدار‘ ایک ایئر مارشل‘ سب اسرار کے پردے میں پڑے رہے۔ عام سیاسی کارکن اخبار نویس کسی شمار قطارمیں تھے ہی نہیں‘ خون بہتا رہا زمین پر گرا‘ جذب ہو گیا۔’’لیکن نہ کھل سکا پسِ دیوار کون تھا‘‘ پاکستان اور پاکستانیوں کو ازلی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکا‘ اس لئے کہ اگرچہ وہ بہت طاقت ور تھا ‘ بااثر تھا دولت اور اسلحہ کے انبار تھے لیکن ہم اسے جانتے اور پہچانتے تھے، جب جب حملہ آور ہوا پیٹھ پھیر کے بھاگ نکلا مگر اپنی صفوں میں چھپے میر صادق اور میر جعفر پیٹھ میں چھرا گھونپتے رہے، میدان انہی کے ہاتھ رہا‘ کوئی پکڑا گیا نہ باز پرس ہوئی‘ سازشیوں کی رسی دراز رہی روک ٹوک سے بے پرواہ ادارے ریاست کے اہلکار حکومت کے کبھی بروئے کار نہیں آئے، آخر کب تک‘ آخر کب تک عدل کی زنجیر زنگ آلود ہو کر گر پڑی۔حفاظت کے لئے ہزار جتن سے جو باڑ لگائی تھی وہ باڑ ہی کھیت کو کھا گئی۔آخر آخر مظلوموں کو جوش آ گیا وہ اٹھ کھڑے ہوئے انہیں کسی ایک رہنما کی تلاش تھی‘ جو انہیں دھوکہ نہ دے‘ انہیں چھوڑ کے بھاگ نہ جائے ان کے سروں کا سودا نہ کرے، موت سے ڈر کر چھپ نہ جائے انہوں نے پون صدی(75برس) انتظار کیا 9اپریل 2022ء صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا،10اپریل کو رمضان المبارک کی بابرکت رات کو لوگ جوق درجوق نکل کھڑے ہوئے، شہر شہر گائوں گائوں قریہ قریہ ،انہوں نے آگے بڑھ کر معزول وزیر اعظم عمران خاں کو کندھے پیش کئے اور اسے اٹھا کر میدان میں نکل آئے، کسی نام نہاد رہنما کے پیچھے چلنے کی بجائے دس اپریل 22کو انہوں نے آگے بڑھ کے اپنا رہنما خود چن لیا اسے آزمایا گیا ،ہر طرح سے لالچ ‘ خوف‘ قریب کے ساتھیوں کو نشان عبرت بنا کر اور پھر اسے موت کی وادی سے گزر کر اپنا لوہا منوانا پڑا لوگوں کو اس پر پہلے بھی اعتماد تھا نہ بڑوں کی دھمکیوں کا اثر لیا نہ گولیوں کی بوچھاڑ سے گھبرا کے بھاگا نہ زخموں سے چور ہونے پر بے حوصلہ ہوا، عوام نے اپنا رہنما چن لیا ہے ۔اس مرتبہ انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی، آٹھ ماہ ہونے کو آئے نہ وہ پیچھے ہٹا نہ عوام نے اس کا ساتھ چھڑا۔پہلی بار ٹکر کے لوگ ملے ہیں ٹکر کے جنہوں نے بہادری ‘ حوصلہ مندی اور صبر کے ساتھ مقابلہ کیا ہے ،لٹیروں کا قاتلوں کا سازشیوں کا اور ان کے سہولت کاروں کا سرپرستوں کا دولت اقتدار اختیار ظلم و جبر کے ہتھیار۔ ذرائع ابلاغ کے اوچھے وار‘ سب کند ہو گئے ‘ بے اثر رہے وہ سارے کے سارے مل کر عمران خاں کو ہٹا سکے نہ عوام کو بہکا سکے‘ زخموں سے چور بہادر ڈٹ کے کھڑا ہے، چھپ کے وار کرنے والوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں، ان کے زرد چہرے ‘ بہکی باتیں ‘ بے ربط بیانات‘ تیری صبح کہہ رہی ہے ‘ تیرے رات کا فسانہ،اذیت ناک موت سے نہ ڈرنے والے بہادر بہت دیکھے‘ سنے ہیں بہادروں کا ایک زمانہ معترف ہے ‘ ان کی قدر کی جاتی ہے‘ ان کی داستانیں نسل در نسل دہرائی جاتی ہیں، ان کے لئے رزمیہ لکھے اور نظمیں گائی جاتی ہیں۔نوجوان ان کی کہانیوں سے سبق لیتے ہیں‘ قوموں کے لئے ان کا وجود فخرو انبساط کا سبب بنتا ہے۔بہادری کی داستانیں سنیں‘ ظلم و جور کے قصے پڑھے، قوم کے نوجوانوں کی حالیہ دنوں میں ثابت قدمی اور عمران خاں کی دلیری اور بہادری آزمائی ہوئی حقیقت ہے جسے مزید ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ۔موت سے بڑی کوئی آزمائش نہیں۔وہ اس وادی سے پرسکون لوٹ آیا ہے مگر یہ بہادری سے زیادہ قوت برداشت کا امتحان ہے۔اس کی قوت برداشت آزمائی جا رہی ہے، یہی اس کا اصل امتحان ہے، اب تک اس مشکل امتحان میں وہ کامیاب رہا ہے لیکن ابھی یہ امتحان ختم نہیں ہوا۔جس قدر کمینے دشمن سے اس کو مقابلہ درپیش ہے، ایسا کمینہ دشمن اللہ کسی کو نہ دکھائے،سفاکانہ قتل‘ تشدد اور حیادار‘ غیرت مند جانثاروں کی بے حرمتی ‘ ایسی کمینی بڑے سے بڑے صابر کے صبر کو توڑ سکتی ہے‘ برداشت کی ہر حد سے زیادہ سے ہے۔ عمران خاں نے مگر حیرت انگیز صبر‘ ثابت قدمی اور قوت برداشت کا مظاہرہ کیا ہے‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پردے کے پیچھے کون ہے؟ اس نے اداروں کی سلامتی کے لئے نام لینے سے گریز کیا ہے، وہ جانتا ہے اس کی ایک آواز پر لاکھوں لوگ پروانہ وار چلے آئیں گے‘ لاٹھیوں‘ ڈنڈوں ‘ کلہاڑیوں ‘ بندوقوں کے ساتھ سارے پاکستان میں چاروں طرف اس کی حکومت ہے‘ اسے 27کلو میٹر پر بے درو دیوار کے قلعے کا محاصرہ کرنا ہے‘ آنے جانے ‘ چھپ رہنے اور بھاگ نکلنے کے سارے رستے اس کی حکمرانی میں ہیں‘ ایک پرندہ تک اڑ کے کہیں نہیں جا سکتا۔ جو اڑے گا، اسے کے مقام حکمرانی سے گزرنا ہو گا‘ اتنا اختیار‘ عوام کی آزمودہ حمایت اور مقبولیت کا عروج‘ ذلت آمیز صفاکی کو دیکھ کر بھی اسے برداشت کرنا‘ انتقام کے لئے دعویٰ نہ کرنا‘ بے حد و حساب قوت برداشت کے بغیر ممکن نہ تھا‘ یہی قوت برداشت ابھی تک پاکستان میں خانہ جنگی کو روکے رکھنے کا باعث بنی ہے‘ پاکستان کے سارے دشمن اور اندرون ملک ان کے سہولت کار ایک مدت سے مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کرنے کی طویل المدت منصوبہ کے فیصلہ کن مرحلے پر ’’جس کی ایک ایک تفصیل لیفٹیننٹ جنرل اسلم ہارون‘‘ گزشتہ دسمبر میں بلیک بورڈ پر چاک کی مدد سے لکھ لکھ کر بتا چکے ہیں‘ اس تباہ کن منصوبے کے فیصلہ کن مرحلے پر عمران خاں کی ثابت قدمی اور قوت برداشت نے نصف صدی کی مدت میں احتیاط سے بنائی گئی، منصوبہ بندی کو پل بھر میں ناکام بنا دیا ہے‘ دشمن کی صفوں میں انتشار صاف دکھائی دینے لگا ہے۔ سیاسی لومڑوں اور اسٹیبلشمنٹ کے بھیڑیوں کا وحشت ناک اتحاد بکھرنے لگا ہے‘ لومڑ نے اپنی جان بچانے کے ئے ’’پینترا‘‘ بدلا ہے‘ اب پندرہ دن یعنی دو ہفتے باقی ہیں جب بااثر سہارا ساتھ چھوڑ جائے گا۔ اس سہارے کو سہارا دینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں، گناہوں کی گٹھڑی اور جرائم کا انباران کے سر پر ڈالنے کا انتظام شروع ہو چکا ہے‘ لومڑوں کے سردار اور اس کے نائب اول نے سفاکانہ اور مجرمانہ افعال کی بے نقابی کے لئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کو کمیشن بنانے کے لئے خط لکھ دیے ہیں۔ابتداء ارشد شریف کے بہیمانہ قتل سے ہوئی، جسے وہ خود ہی ثابت کر دیں گے کہ کام کس کا ہے‘ پھر سارے گناہ اسی کے سر ہونگے’’لومڑ سرخرو‘‘۔