عظیم دانشور نے کہا تھا: غلطی کرنا انسانی فطرت ہے مگر غلطیوں کی اصلاح نہ کرنا،خودکشی کے مترادف ۔ ایل ڈی اے کے افسران سے سنگین غلطیاں ہوئیں۔صرف غلطیاں نہیںبلکہ بلنڈر۔ ایل ڈی اے ایونیو ون منصوبے کے بعد اس محکمے سے لوگوں کااعتماد بھی اٹھ گیا،رہی سہی ساکھ ایل ڈی اے سٹی نے ختم کی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: کُلُّ اَمْرٍمُسْتَقِرٌّ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔قبل از وقت کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ جیسے امید کے شجر پہ شگوفے پھوٹتے اور پھول کھلتے ہیں‘ ایسے ہی ایک پھول ایل ڈی اے میں بھی کھلا۔برادرم مظہر برلاس نے جن کا عامر احمد خان کے نام سے تعارف کروایا۔قدیم تہذیب اور رکھ رکھائو کے سانچے میں ڈھلا یہ آدمی، مگر نئے تصورات کے دروازے اس کے ادراک پر وا ہو رہے ہیں۔محنت ‘لگن‘ کاز کے ساتھ مخلص، ضابطہ پسند‘ صرف نوکری نہیں بلکہ کچھ کرنے کا جذبہ، ان میں دیکھنے کو ملا۔ جس کے بعد امید قائم ہوئی کہ ایل ڈی اے کے چہرے پر لگے نااہلی کے دھبے دھونے میں اب زیادہ وقت نہیں ملے گا۔ بشرطیکہ عامر احمد خان کو اس سیٹ پر کچھ دیر رہنے کا وقت مل گیا ۔پے درپے سرمایہ ڈوبنے سے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا۔ کروڑوں روپے ڈوب چکے۔واپسی یا پھر پلاٹ ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ‘چار سو ایک مایوسی، ایسی مایوسی جو وقت کے ساتھ گہری ہوتی جا رہی۔ڈی جی ایل ڈی اے اس پیرا تسمہ پا سے چھٹکارے کے لئے پرعزم ہیں۔ نایاب حیدراس محکمے کے تعلقات عامہ آفیسر ہیں۔ برادرم مظہر برلاس‘ ناصر بشیر‘ محمد الیاس‘ لقمان شیخ، محمود شیرازی اور مونیزے معین پر مشتمل وفد نے جب ڈی جی ایل ڈی اے سے سوالات کئے تو انہوں نے بڑی تحمل مزاجی سے سوالات سنے اور پھر مستقبل کی منصوبہ بندی پر بات چیت کی۔ ایل ڈی اے میں ٹوکن سسٹم لاگو کر کے صارفین کو مقررہ وقت پر آفس میں بلانے کے منصوبے پر انہوں نے سیر حاصل گفتگو کے بعد کہا: کہ چند دنوں میں ایک حقیقی تبدیلی نظر آئے گی ۔ جس کے بعد صارف کا وقت ضیاع نہیں ہو گا۔ ایل ڈی اے ایونیو ون کی ناکامی کا اقرار کرتے ہوئے انہوں نے کہا:ایک سال میں لوگوں کو مکمل قبضہ دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ 2004ء میں یہ سکیم جب شروع ہوئی، تب قسطوں پر دس مرلے پلاٹ کی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے تھی، جو اب ایک کروڑ روپے سے تجاوز کر چکی ہے ،لہٰذا جن لوگوں سے زمین حاصل کی تھی، موجودہ ریٹ دیکھ کر انھیں غشی کے دورے پڑتے ہیں، جس کے باعث مسائل پیدا ہوئے۔ درحقیقت ایل ڈی اے ایونیو ون نے قوم کے فہمیدہ طبقے کو اس حد تک مایوس کیا کہ اب کوئی بھی اس ادارے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں، لوگوں نے جمع پونجی اکٹھی کر کے یہاں خوابوں کے محلات تعمیر کر رکھے تھے، جو زمین بوس ہوئے۔ لہٰذا ان طبقات کی مایوسی حق بجانب۔ ایل ڈی اے ایونیو ون کے معاملات گھمبیر ہو چکے، لوگ برسوں سے اصلاح احوال کے لئے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے۔معاملات اتنے خراب ہیں کہ جو شخص بھی ڈی جی ایل ڈی اے کی سیٹ پر آیا، اس نے جب اصلاح احوال کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی توخود ہی اس میں گم ہو گیا۔ حبیب احمد صدیقی نے کہا تھا: کچھ بھی دشوار نہیں عزم جواں کے آگے آشیاں بنتے گئے برق تپاں کے آگے کسی بھی چیز سے زیادہ انحصار سربراہ کی کارکردگی اور صلاحیت پر ہوتا ہے۔میں عامر احمد خان کی باتوں کے بعد مطمئن ہوں کہ وہ ایل ڈی اے کے متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے‘ ان کے ٹوٹے بکھرے خوابوں کو ازسرنو تعمیر دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ ہر آدمی اور گروہ کی قیمت اس کے ہنرکے مطابق ہوتی ہے۔یہ اٹل حقیقت ہے کہ لامحدود اختیارات بے قابو خواہشات اور پیسے کی چمک نے ایل ڈی اے میں بے پناہ مسائل پیدا کیے ، کھمبیوں کی طرح اگنے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں میں دلآویز عمارتوں کی جگہ بے ڈھب حویلیاں ابھر چکی، بنگلوں کی جگہ کوٹھڑیوں اور خم کھاتی تنگ گلیاں آ گئیں، جب یہ رواج نہ تھا تب برآمدوں میں اینٹوں کے بھورے اور آسمانی نیلے رنگ نے کہرام پیدا کیے رکھا،دیواروں پر آیات قرآنی کی نقش گری سے عجیب گھمبیرتا پیدا ہوتی۔ حسن انتظام ہی نہیں‘ سبزہ و گل اور گھاس کے قطعات ‘ فوارے اور آب رواں سے وہ منظر پیدا ہوتا، جس سے لوگوں کے دل کھل اٹھتے۔ حیف صد حیف ۔اب وہ منتظم دنیا سے اٹھ چکے۔ ایل ڈی اے نے لاہور میں 11کلب بنائے ہیں، چند دنوں تک سبزہ زار کلب کام شروع کر دے گا، کلب کی باڈی انتظام دیکھے گی۔ کمرشل پالیسی پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، لاہور کے 22 مقامات پر پارکنگ پلازے بنائے جا رہے ہیں۔ 7دسمبر سے شاہدرہ چوک پر کام شروع ہو گا۔ شہری قانونی اور غیر قانونی سکیم کو Q Rکوڈ کے ذریعے جانچ سکیں گے۔ اس وقت ایل ڈی اے کی جانب سے شہر کے مختلف مقامات پر اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے لاہور ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے پراجیکٹ کی اصولی منظوری دے دی ہے،ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے بننے سے چند ماہ میں لاہور کا نقشہ بدل جائے گا۔ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے کے اطراف میں کمرشل مراکز بنانے کا جائزہ لیا جا رہا۔ دونوں اطراف میں چار رویہ ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے کی لاگت کا تخمینہ 85ارب روپے ہوگا۔لاہور شہر میں مشرق سے مغربی اطراف میں پہلی ایکسپریس وے بنے گی۔گلبرگ سے موٹر وے تک کا فاصلہ8منٹ میں طے ہوگا، 20کلو میٹر کا سفراور30منٹ وقت بچے گا۔یہ منصوبہ 12بڑی سڑکوں سے منسلک ہوگا۔ سگیاں روڈ ری ہیبلی ٹیشن اینڈ امپروومنٹ پراجیکٹ پر تیزی سے کام جاری ہے،منصوبے پر چار ارب 32کروڑ روپے لاگت آرہی ہے۔یہ ’’ سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘منصوبہ ہے۔سڑ ک کی لمبائی 3.9کلومیٹر اور یہ تین لینز پر مشتمل ہے۔ (2) پھول منڈی چوک سے لاہور شیخوپورہ روڈ تک سڑک تعمیر کی جارہی ہے۔ سڑک کی لمبائی 1.2 کلومیٹر اور یہ تین لینز پر مشتمل ہے۔(3)پھول منڈی چوک سے فیض پور انٹرچینج موٹروے ایم ٹو تک سڑک تعمیر کی جارہی ہے۔سڑک کی لمبائی3.1 کلومیٹر اور یہ دو لینز پر مشتمل ہوگی۔ (4)پھول منڈی چوک سے بیگم کوٹ تک سڑک تعمیر کی جارہی ہے۔ سڑ ک کی لمبائی 1.6 کلومیٹر اور یہ دو لینز پر مشتمل ہوگی۔ ڈی جی ایل ڈی اے ملازمین کے لیے بھی بہتر اقدامات کر رہے ہیں۔ پروموشن‘ اپ گریڈیشن کے علاوہ اگر ملازمین کو ماضی کی طرح پلاٹ بھی ملنا شروع ہو جائیں تو نورعلیٰ نور۔ قوم کے ہر فرد میں ہمت طاقت ،ولولہ اور حوصلہ بھر دو تو زوال پذیر قوم بھی زندہ ہو سکتی ہے۔ ایسے ہی ایل ڈی اے میں شفافیت قائم کرنا مشکل نہیں ،صرف عزم چاہیے ،جناب عزم ۔