بیورلے نکلس اپنی کتاب بعنوان’’محاکمۂ ہند‘‘ Verdicl on India) میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظم ایک دیو قامت شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایشیاء کے اہم ترین فرد ہیں۔نیز ایشیاء کی سیاسی تقدیر قائد اعظم کی مرضی کے مطابق طے ہو گی کیونکہ انہوں نے مسلمان عوام کو(ایمان‘ اتحاد تنظیم ) ایشیا کی 7منظم‘ متحد اور موثر ترین سیاسی قوت بنا دیا ہے ،یہ وہی کچھ کریں گے جو قائد اعظم چاہیں۔وہی کچھ سب کو کرنا پڑے گا۔قائد اعظم کی سیاسی کامیابی سب جانتے ہیں۔آج قائد اعظم کی ذاتی شخصیت تجارتی نظم و ضبط اور وکالتی مہارت کے حوالے سے لکھنا چاہوں گا۔ زیر نظر موضوع پر ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ’’محمد علی جناح دولت‘ جائیداد‘ وصیت‘‘ ایک اہم بلکہ انمول تحقیقی دستاویز ہے۔جس کو تحریر کرنے سے پہلے ڈاکٹر سعد نے بھارت اور برطانیہ کے متعلقہ مقامات کو جا کردیکھا‘ پرکھا‘ جانچا اور لکھا ہے ڈاکٹر سعد خان کی مذکورہ کتاب تحریک پاکستان اور قائد اعظم کی شخصیت اور کردار کو سمجھنے کے لئے ایک وقیع تحقیقی اضافہ ہے۔اگر کتاب کے متن کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو یہ مذکورہ موضوع پر ایک اہم ریفرنس کتاب ہے جس نے مصنف کو بقول وجاہت مسعود مختار مسعود‘ شیخ منظور الٰہی ‘ قدرت اللہ شہاب کی صف میں شامل کر دیا ہے۔ڈاکٹر سعد بنیادی طور پر مذکورہ شخصیات کی طرح سی ایس پی(CSP)افسر ہیں۔انہوں نے مذکورہ تحقیقی کتاب تالیف کر کے ڈاکٹر صفدر محمود‘ مسعود مفتی اور بریگیڈیئر صدیق سالک کے نقش قدم کو دوام بخشا ہے۔مذکورہ کتاب قائد اعظم کی شخصیت اور آثار کے حوالے سے کئی مروج افکار کی مستند تردید کرتی ہے مثلاً قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل پاکستان ایک روپیہ تنخواہ لیتے تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم 10.416روپے 10آنہ تنخواہ ماہانہ لیتے تھے۔مذکورہ تنخواہ سے 2,291روپے 4آنہ آمدن ٹیکس ادا ہوتا تھا نیز 3,190روپے 2آنہ سپر ٹیکس ادا ہوتا تھا اور ’’اب تنخواہ میں مجموعی 6,112روپے کی ٹیکس کٹوتی کے بعد آپ کو ماہانہ 4,304روپے 10آنہ ملتے تھے‘‘ جبکہ قائد اعظم نے اپنی مجموعی دولت اور جائیداد کا فقط 10فیصد خاندانی وارثین میں بانٹا اور 90فیصد پاک بھارت کے تعلیمی اداروں میں بانٹا پاکستان میں موجود جائیداد جناح ٹرسٹ کے تحت حکومت پاکستان کی ملکیت قرار پائی۔یاد رہے کہ موجودہ دور کی مالیاتی شرح کے مطابق یہ دولت کھربوں روپے کی ہے جبکہ قائد اعظم کی زندگی کا آغاز اگر غربت نہیں تو تنگدستی سے شروع ہوا تھا اور بقول ڈاکٹر سعد خان قائد اعظم کا شمار جنوبی ایشیا کے چوٹی کے (10) دس امیر ترین سرمایہ کاروں میں ہوتا تھا۔قائد اعظم نے ’’رزق حلال‘ کا ہمیشہ خیال اور اہتمام کیا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جب قائد اعظم لندن سے بیرسٹری کر کے آئے تو تین (3) سال بغیر کسی کیس (مقدمے کے بریفلس (Brefless) گزارے کیونکہ قائد اعظم نے طے کر رکھا تھا کہ وہ فقط مظلوم کا مقدمہ لڑیں گے‘ ظالم کا نہیں‘ نیز قائد اعظم برطانوی سلطنت میں سب سے زیادہ فیس لینے والے معدودے چند وکلاء میں سے تھے اور قائد اعظم کی بحیثیت گورنر جنرل پاکستان کی تنخواہ ان کے ایک دو دن کی وکالتی آمدنی سے کم تھی۔یاد رہے کہ آخری برطانوی گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کی ماہانہ تنخواہ 20,900روپے تھی قائد اعظم کی سرکاری تنخواہ 10,416روپے 10آنہ تھی، جس میں ٹیکس کٹوتی 6,112کے بعد باقی ماندہ کل تنخواہ 4,304روپے 10آنہ تھی، قائد اعظم کی دولت اس وقت کے کروڑوں اور آج کے حساب سے کھربوں روپیہ تھی جس کا 10فیصد اہل خاندان‘ بہنوں‘ بیٹی اور بھتیجے کو دیا گیا ارو باقی 90فیصد چھ تعلیمی اداروں سندھ مدرسۃ الاسلام ‘ اسلامیہ کالج‘ پشاور‘ علی گڑھ یونیورسٹی انڈیا‘ انجمن اسلام سکول بمبئی ‘ عریبک کالج نئی دہلی کو دی گئی جبکہ بہن فاطمہ کیلئے 1000ہزار ماہانہ مقرر کیا اسی طرح دیگر بہنوں کو بھی متروکہ آمدنی کا کچھ حصہ مقرر کیا جبکہ پاکستان بہنوں کی وفات کے بعد کل جائیداد جناح فنڈ کے تحت مملکت خداداد پاکستان کے تصرف میں رہے گی۔ ڈاکٹر سعد خان کی مذکورہ تحقیق دستاویز کے مطابق قائد اعظم نے قرار داد پاکستان 23مارچ 1940ء کے بعد اپنی نئی جائیداد اور حصص کی سرمایہ کاری پاکستان کی سرزمین میں کی۔قائد اعظم کی آمدن کے 3ذرائع تھے، پہلا وکالتی‘ دوسرا سٹاک حصص کی خریداری اور تیسرا منافع بخش جائیداد کی خریداری رہا ہے۔ قائد اعظم نے زندگی کا آغاز غربت سے کیا مگر اپنی محنت اور عظمت اور عزمت سے رزق حلال کمایا اور جنوبی ایشیاء کے 10چوٹی کے امیر ترین افراد میں شامل تھے۔قائد اعظم نے اپنے ابتدائی وکالتی دور میں تین سال کوئی مقدمہ نہیں پکڑا جبکہ وہ ہر روز وکالتی دفتر میں جاتے اور خالی ہاتھ واپس آ جاتے کیونکہ انہوں نے کر رکھا تھا کہ وہ فقط مظلوم کا مقدمہ لڑیں گے۔قائد اعظم نے قرار داد پاکستان کے بعد انڈیا میں موجود اپنی جائیداد کو فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔جس میں جناح ہائوس 10اورنگزیب روڈ دہلی کو اپنے سیکولر ہندو دوست اور دی ٹائمز آف انڈیا کے مالک راما کرشنا ڈالمیا کو فروخت کیا جس نے مذکورہ جناح ہائوس کو گنگا اشنان‘ یعنی گنگا کے پانی سے غسل دے کر پاک یعنی پوتر کیا کیونکہ اس گھر میں ایک مسلمان قائد اعظم کی رہائش تھی، جس کے باعث سارا اپوتر ہو گیا تھا، ہندو ذہنیت کا اندازہ راما کرشنا ڈالمیا کے مذکورہ عمل سے کیا جا سکتا ہے، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کانگرس ساری قیادت بشمول جواہر لال نہرو کانگرس پارٹی کے تنخواہ دار ملازم تھے، جو اپنی شہرت اور مقبولیت کے مطابق خود اپنی تنخواہ بڑھاتے رہتے تھے جبکہ قائد اعظم نے سب کچھ مسلم قوم اور ریاست کو دیا ہے حتیٰ کہ جب بمبئی عوام نے قائد اعظم اور مریم جناح کو قومی خدمات کے عوض پیپلز جناح ہال 65000روپے بذریعہ عوامی چندہ بتایا تو قائد اعظم نے لندن سے واپسی آ کر یہ رقم خود ادا کی اور بمبئی کے عوام کی جانب سے تعلیمی و فلاحی امور میں صرف کی ۔ ڈاکٹر سعد خان کی کتاب قائد اعظم دولت‘ جائیداد اور وصیت قائد اعظم کی مالیاتی زندگی کے ساتھ ساتھ گھریلو کا احاطہ کرتی ہے۔یہ کتاب تحریک پاکستان اور قائد اعظم کی شخصیت کے کئی پوشیدہ گوشوں کو واکرتی ہے ۔ایسے ہر پاکستانی کو بڑھنا چاہیے اور پاکستان کی ہر لائبریری میں موجود ہونا چاہیے، ڈاکٹر سعد خان کی مذکورہ تصنیف قابل تحسین ہیں۔