اس امر میں کسی کو رتی بھر شک نہیں ہونا چاہیے کہ بیسویں صدی کی ادبی تاریخ، تہذیب، تقدیر کے ہر کونے پر فخرِ اُمتِ مسلمہ،حقیقی معنوں میںدانائے راز، شاعر و شعور ِ مشرق، مصور و مفکرِ پاکستان، ڈاکٹر علّامہ محمد اقبال، جنھیں ایران میں اقبال لاہوری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کا نام سنہری حروف میں کندہ ہے، جن کی بابت ایران کے ملک الشعرا آقای صادق سرمد نے بجا طور پر کہا تھا: اگرچہ مرد بمیرد بگردشِ مہ و سال نمُردہ است و نمیرد محمد اقبال (ترجمہ: اگرچہ مہ و سال کی گردش ہر شخص کے لیے موت کا پیغام لاتی ہے لیکن ایک شخص ایسا بھی ہے کہ جو نہ ابھی تک مرا ہے اور نہ کبھی مرے گا، اس شخص کا نام محمد اقبال ہے) ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں سات ہزار زبانیں بولی جاتی رہی ہیں۔ ان میں سینکڑوں زبانوں میں ادب تخلیق ہوتا ہے لیکن شاید کوئی ایک مثال بھی ایسی نہ ملے کہ کسی ادیب، شاعر نے اپنی مادری یا قومی زبان کے علاوہ دوسرے خِطے کی زبان میں قابلِ ذکر و فخر ادب تخلیق کیا ہو۔ اقبال ایسا باکمال معجز نگار ہے کہ جس نے اُردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان میں بھی ایسی بے مثل و باوقعت شاعری کی داغ بیل ڈالی کہ اہلِ فارس انگشت بدنداں ہو کر انھیں بھی اپنا قومی شاعر ماننے پر مجبور بلکہ ممنون ہیں۔ اُن کے کلام کی انفرادیت، بے پناہیت، نُدرت اور بو قلمونی کا احاطہ کرنے کے لیے تمام سابق دبستانوں میں تنگ دامانی کا احساس جاگا تو اس کے لیے ’سبکِ اقبال‘ کی اصطلاح عمل میں لائی گئی۔ سچ یہی ہے کہ ایسے تخلیق کار پیدا نہیں ہوتے بعض قوموں کو کسی عظیم مقصد کے لیے عطیہ ہوتے ہیں اور جو قومیں ان مقاصد سے چشم پوشی یا غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں، عالم میں ذلت و رُسوائی اُن کا مقدر بن جاتی ہے۔ اِدھر ہماری جہالت اور کہولت کا یہ عالم ہے کہ کلامِ اقبال سے استفادہ تو دُور کی بات، فارسی شاعری کو بھی چلیں اگلا مرحلہ سمجھ لیں، ہم تو سو سال میں اس رشکِ سخن کے چنیدہ سے اُردو کلام کی تفہیم و تعبیر و تحریم کا فریضہ بھی ڈھنگ سے ادا نہیں کر سکے۔ المیہ یہ ہے کہ آج ہمارے انگریزی زدہ تعلیمی کارخانوں میں ذہنی پرورش پانے والی نسل، جسے اقبال کا اَن تھک اور دنیاوی حرص و ہوس سے بے نیاز شاہین بننا تھا، وہ شیلے، کیٹس، ورڈزورتھ کے رومانی، ہیجانی پروں تلے مستہے۔ دوسری جانب روایتی قسم کے تعلیمی، تحقیقی، اقبالی اداروں میں بھی اقبالیات کے نام پہ مزید روایتی قسم کے تحقیقی، تدریسی مقالہ جات لکھوائے اور رسمی قسم کے تقریری مقابلے، رٹے رٹائے لیکچرز، بے مغز سیمینار اور خانہ پُری قسم کی کانفرنسیں، نشستند، گفتند، برخاستند والی کارروائی کا پیٹ بھرنے کی خاطر منعقد کیے جا رہی ہیں۔ ہماری بے برکت حکومتوں اور بے ذوق سیاست دانوںسے تو اس چشمۂ نور و سرور سے استفادے کی توقع ہی عبث ہے۔ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جن پر فروری میں بسنت اور ویلنٹائن، جولائی میں سیلاب، اگست میں حب الوطنی، ستمبر میں نائن الیون، نومبر میں اقبال، دسمبر میں سردی، مچھلی اور شاعری نیز رمضان میں اسلام، موسمی بخار کی مانند حملہ آور ہوتا ہے۔ وقت اور بے حِسی کی ویکسین بہت جلد اس شدت اور حدت کو کم کر دیتی ہے۔ یہاں تو ماضی قریب میں ہونے والی خانوادۂ اقبال کی توہین کا ازالہ بھی یومِ اقبال پر چھٹی سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقبال کے ہنر کدے سے تھوڑی بہت شناسائی کے سبب ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی اگر ہم مفاداتی ترامیم کے ہاتھوں سِسکتے بلکتے زخم زخم آئین کو بالائے طاق رکھ کر، ملک کے تمام ایوانوں، ہر ادارے، جملہ شعبہ ہائے زیست میں ُزندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘ سے لے کر ’ہو اگر خود نگر و خود گرو خود گیر خودی‘ تک منتخب اُردو کلام ہی کو اپنے تعلیمی، انتظامی، سیاسی، عدلیاتی نظام میں خلوصِ دل کے ساتھ نافذ کر لیں تو بہت جلد ہم ’یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے‘ کی منزلِ مراد شاد باد کو چھُو سکتے ہیں۔ بات اُردو نظم سے ملکی نظام کی طرف چلی گئی، شاید اس لیے کہ اقبال ہی وہ شاعر ہے جس نے ہمیں نظم ہی کی کرن سے قرن ہا قرن سے بھٹکے مجموعی ملکی، قومی نظام کی راہ سُجھائی۔ آئیے ہم بھی آج اقبال ہی کی کچھ نظمیہ مثالوں سے نہ صرف یادوں کے چراغ روشن کرتے ہیں بلکہ ان کے کسی ایک شعر، ایک مصرعے، ایک ترکیب سے حسبِ توفیق عبرت و ہدایت کے دَر وا ہو جانے کے اِمکان کو بھی رَد نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال نے دیکھیے اپنی مختصر سی نظم ’شاعر‘ میں اربابِ بست و کشاد کے ساتھ ساتھ ایک قلم کار کے مقام اور ذمہ داری کا تعین کتنی عمدگی سے کیا ہے، جو اِس دَورِ زیاں میں آلوؤں ٹماٹروں کے بھاؤ بِکنے والے اہلِ حرف کے لیے آئینہ بھی ہے اور طمانچہ بھی: قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم منزلِ صنعت کے رَہ پیما ہیں دست و پائے قوم محفلِ نظمِ حکومت، چہرۂ زیبائے قوم شاعرِ رنگیں نوا ہے، دیدۂ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو، ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ حقیقت یہ ہے کہ اقبال اُردو ادب کا ایسا جن تھا، جو اپنے پورے عہد کو کھا گیا۔ جب اس کی شاعری کا سورج نصف النہار پہ آیا تو نہ صرف ان کے بزرگان شبلی، شوق، اکبر، سرُور، چکبست،، نادر وناظر،ہمایوں، نیرنگ اور محروم وغیرہ کے رنگ پھیکے پڑ گئے بلکہ ان کے ہم عصران و کم عصران یعنی اختر، جوش، حفیظ اور ظفر کے کلام کا جادو بھی سر چڑھ کے نہ بول سکا۔ یہ سب اپنی اپنی طرز کے نابغے ، ناطقے ، ناظمے تھے لیکن اقبال کے مقابل ان کے شعری چراغوں کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔