وزیر ِاعظم پاکستان نے رْوحانیات کو، سْپر سائنس قرار دیا ہے۔ اس پر تبصرہ تو وہ کرے، جس کا اس وادی میں کچھ گْزر ہوا ہو۔ جسم چونکہ ہمارے سامنے مِٹتا جاتا ہے اور رْوح کا معمہ، آج تک حل نہیں ہوا۔ اس لیے، یہ البتہ کہا جا سکتا ہے کہ ہے موت میں ضرور، کوئی راز ِدلنشیں سب کچھ کے بعد کچھ بھی نہیں؟ یہ تو کچھ نہیں! اپنا تجربہ تو یہی رہا کہ اس راہ میں، جو جتنے بڑے دعوے کرتا ہے، اتنا ہی کھوکھلا نکلتا ہے۔ آن کہ چْون پستہ، دیدمش، ہمہ مغز پْوست بر پْوست بود ہم چو پیاز یعنی، جسے پستے کی طرح گِری ہی گِری سمجھے تھے، پیاز کی طرح، وہ چھِلکا ہی چھِلکا نکلا! درست کہا گیا ہے کہ طریقت اچھی وہی جو نگاہ ہی میں رہے زباں کھْلی، تو سمجھ لو کہ واہ ہی میں رہے یہ بھی ظاہر ہے کہ عام انسان ساری عْمر، رْوح کی حقیقت کو پہنچنا تو کْجا، رْوحانی منزلوں میں قدم بھی نہیں رکھ پاتا۔ انسان کی عاجزی ہے کہ جسم، جسے یہ حقیقت سمجھتا ہے، مِٹ کر رہتا ہے۔ رْوح، جس کے باقی رکھنے کا وعدہ کیا گیا ہے، اس سے یہ بے خبر رہتا ہے۔ ایسے میں علم کا ہر دعویٰ خام، ہر اعلان باطل ٹھہرتا ہے! تو بر اوج ِفلک، چہ دانی چیست؟ چون ندانی کہ در سراے ِتو کیست آسمان کی خبر کیا لائو گے، جب اپنے گھر کے حال سے تم بے خبر ہو! رْوح کے مقابلے میں، مادّے کی بات کی جائے تو ہر طرف جھنڈے امریکا نے گاڑ رکھے ہیں۔ سقوط ِسوویت یونین کے بعد، امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت سے باقی رہا۔ تب سے، عام خیال یہ ہے کہ امریکی صدر، دنیا کا طاقتور ترین آدمی ہوتا ہے۔ درحقیقت، اس کے اختیار کا دائرہ، بڑا محدود ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں، جہاں اس نے ذرا اَڑی کی، اس کے کان امیٹھ دیے گئے۔ پچھلی ایک صدی کے تمام امریکی صدور کو دو فرقوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ خالص اسٹیبلشمنٹ کے صدور۔ ان میں چند موٹے موٹے نام یہ ہیں۔ ووڈرو ولسن، ہیری ٹرومین، ڈوائٹ آئزن ہاور، ریگن، دونوں بْش، کلنٹن، اور باراک اوباما۔ دوسرے درجے میں وہ صدر آتے ہیں، جو یا تو اسٹیبلشمنٹ سے بھِڑ گئے، اور یا کسی کے کانے نہیں تھے، اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اس میں ایف ڈی آر(روزاویلٹ) اور جان ایف کینیڈی کو رکھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کا نام عمداً خارج کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ کا آدمی نہ ہونے کے باوجود، سارے کام اسی کے کر رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نچنت ہے کہ ع دوانہ ہے ولیکن بات کرتا ہے ٹھکانے کی! کہا جا سکتا ہے کہ دو یا تین کے سوا، سارے کے سارے امریکی صدر، ایک ہی سانچے کے ہیں۔ ایف ڈی آر کی تعریف میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، تعریض کا مواد بہت کم ہے۔ وہ اگر چند ماہ اور جی گئے ہوتے تو دنیا کا نقشہ، شاید خاصا مختلف ہوتا۔ یاد رہے کہ ایف ڈی آر، امریکا کے واحد صدر ہیں جو تین مرتبہ منتخب ہوئے اور امریکیوں نے جنگ ِعظیم دوم، انہی کی قیادت میں لڑی تھی۔ اسی دوران ان کا انتقال ہو گیا اور ہیری ٹرومین نے صدر بن کر، جاپان پر ایٹم بم برسا دیے۔ ایف ڈی آر کا سابقہ سٹاِلن اور چرچِل جیسے دیوقامت لیڈروں سے پڑا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایف ڈی آر ان دونوں سے بہتر انسان نکلے اور سوجھ بوجھ میں بھی زیادہ۔ کینیڈی صرف تینتالیس سال کی عْمر میں صدر بنے تھے۔ کرشماتی شخصیت کی اصطلاح، ایسے ہی لوگوں کے لیے بنی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ کینیڈی نے کیوبا اور ویت نام، دونوں میں دراندازی کو ہوا دی تھی۔ اس براہ ِراست مداخلت نے ان کا ریکارڈ داغدار کر دیا۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ دسیوں موقعوں پر وہ اسٹیبلشمنٹ کے راستے کی رکاوٹ بن گئے۔ جس زمانے میں روس کے بارے میں خیر کا ایک حرف کہنے والا غداری سے فورا متہم کر دیا جاتا تھا، کینیڈی نے اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ یہ جْرم ناقابل ِمعافی ثابت ہوا اور وہ اقتدار کے تیسرے سال میں، قتل کر دیے گئے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کے باقی تمام صدور، انیس بیس، یا زیادہ سے زیادہ اٹھارہ بیس کے فرق کے ساتھ ایک جیسے ٹھہرتے ہیں۔ یہ سارے، جنگیں چھیڑنے والے، دوسرے ممالک میں فتنوں کو ہوا دینے والے تھے۔ امریکا کا مستقبل، انیسویں صدی کے اواخر میں اس وقت طے ہو گیا تھا، جب اسپین کے ساتھ بے وجہ لڑی جانے والی جنگ، بڑی نفع بخش ثابت ہوئی۔ تقریباً سوا سو سال پہلے لڑی گئی اس جنگ کی بنیاد ایک جھوٹا الزام تھا۔ ستّر برس بعد پتا چلا کہ جس امریکی بحری جہاز کو تباہ کرنے کا ذمے دار، اسپین کو ٹھہرایا گیا تھا، وہ بم سے نہیں، گیس کے ہنڈے پھٹنے سے تباہ ہوا تھا۔ اس جنگ سے دو سبق سیکھے گئے۔ پہلا یہ کہ جنگ سے زیادہ نفع بخش کاروبار کوئی اَور نہیں۔ دوسرا یہ کہ خارجی محاذ پر جتنی زیادہ فتح ہو گی، اتنا ہی صدر مقبول ہوتا جائے گا اور داخلی دبائو سے بھی گھٹ کر رہے گا۔ پہلی جنگ ِعظیم سے نفع کمانے والوں نے، اس کے فوراً بعد، دوسری جنگ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اور وہ اس طرح کہ جرمنی پر جو جْرمانہ یا تاوان عاید کیا گیا تھا، اس قدر زیادہ تھا کہ جرمن قوم کے پاس "تنگ آمد بجنگ آمد" کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا۔ اس ضمن میں یہ لطیفہ کفایت کرے گا کہ جرمنی اس جرمانے کی قسطیں ادا کرنے کے لیے، امریکا سے قرض لیتا تھا۔ قسطیں برطانیہ اور فرانس کو پہنچتیں۔ یہ دونوں مْلک پہلے ہی جنگ میں امریکا کے مقروض تھے، وہ اس رقم سے اپنے قرضے کی اقساط امریکا کو ادا کرتے۔ امریکا ایک بار پھر بھاری سْود پر جرمنی کو قرضہ دیتا۔ یہ سلسلہ چلتا ہی رہا۔ کہا جا سکتا ہے کہ جنگ سے زیادہ سستا اور آسان نسخہ، امریکی اسٹیبلشمنٹ کے پاس نہیں۔ یہ اَور بات کہ صدر کے ذریعے، قوم کو جھوٹی کہانیاں سنائی جاتی ہیں اور قوم بالآخر باور کر ہی لیتی ہے کہ ع این نسخہ از بیاض ِمسیحا گرفتہ اند!