تحریک اور افراد کے لئے نظرئیے کی پختگی اور عقیدے کی گہرائی سب سے مضبوط ہتھیار ہوتی ہے ۔ اگر کسی جدوجہد کا ہدف نظرئیے سے عاری ہو تو وہ جدوجہد ہر گز عدل پر قائم نہیں رہ سکتی۔ بلکہ وہ محض طاقت کا اظہار، جنگ و جدل یا مار دھاڑ بن کر رہ جاتی ہے ۔کوئی شخص خواہ کتنا ذہین کیوں نہ وہ اس شعور سے نا بلد ہو تو وہ خود اپنی ہی ذہانت کے جال میں پھنس کر تباہ ہو جاتا ہے۔ تاریخِ انسانی میں اسکی کثیر مثالیں موجود ہیں۔13 جولائی 1931کو سنٹرل جیل سری نگر کے احاطے میں قربان ہونے والے کشمیر کے پاک نفوس نے اپنے لہو سے واضح طور لوح ایام پر یہ باب رقم کر دیا تھا کہ کشمیر کی تحریک آزادی اپنی فطرت کے اعتبار سے خالصتاً ایک نظریاتی تحریک ہے یہ محض ظلم سے نجات یا ایک خطہ زمین کی آزادی نہیں بلکہ یہ سچ مچ میں اسلامی فکر و فلسفے کو غالب اور بالادست بنانے کی تحریک ہے ۔بیسویں صدی دنیا بھر میں آزادی اور حقِ خود ارادیت کی تحریکوں کے لئے نصرت اور کامرانی کا پیغام اور سامراج کے لئے سندیسہ زوال ثابت ہوئی چین سے الجزائر تک برِصغیر سے افریقی ممالک تک جہاں بہت سے ملک آزادی سے ہمکنار ہوئے وہیں اس دور کی دو عالمی طاقتیں برطانیہ اور روس بھی زوال کا شکار ہو کر سمٹ گئیں اور دنیا بھر میں بیداری کی ان لہروں کے اثرات سے ریاست جموںو کشمیر کا خطہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ کشمیر میں اس وقت ڈوگرہ خاندان کا راج تھا جنہوں نے ریاست جموںو کشمیر کو انگریز سامراج سے چند نانک شاہی ٹکوں کے عوض خرید لیا تھا اور یوں ڈوگرہ خاندان ریاست کے عوام کو ذاتی غلام اور کشمیر کے چپے چپے پر اپنی حکمرانی کو ذاتی ملکیت سمجھ رہا تھا۔ چونکہ ریاست جموںو کشمیر کے عوام کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔جبکہ حکمران خاندان ہندو تھا۔ جب گردوپیش میں تبدیلیاں آنے لگیں اور ہندوستان میں بھی آزادی کی تحریکیں زور پکڑنے لگیں تو اسلامیانِ کشمیر نے بھی ڈوگرہ حکمرانوں سے زیادہ سے زیادہ سیاسی اور مذہبی حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کی ۔ لیکن متعصب ڈوگرہ حکمران اور ان کے متعصب اہلکار حیلوں بہانوں سے مسلم اکثریت کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نا پاک جسارت کرتے رہے ۔ اسی دوران ایسی ہی نوعیت کا ایک واقعہ توہین قرآن اور خطبہ عید کی بندش پیش آیا جب نمازِ عید کے موقع پر جموں کے امامِ مسجد فرعون اور موسیٰ کا واقعہ بیان کر رہا تھا تو ڈوگرہ حکومت کے ایک اہلکار نے اس پر احتجاج کیا ۔ اور اس نے کہا کہ مولانا فرعون کا ذکر در اصل ڈوگرہ حکمرانوں کی علامت کے طور پر کر رہے ہیںاور یوں امامِ مسجد کو خطبہ دینے سے روک دیا۔ مسلمانوں میں مذہبی معاملات میں اس مداخلت نا گوار نے ایک بے چینی کو جنم دیااور ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف بے چینی اور نفرت کا ایک بڑا آتش فشاں پھٹ پڑااور اس آتش فشاں نے عوامی احتجاجی مظاہروں کی شکل میں اپنا لاوا اگلنا شروع کر دیا۔ڈوگرہ حکمرانوں کی مداخلت فی الدین کیخلاف بڑے پیمانے پرایک عوامی جلسہ خانقاہ معلی سری نگر میں منعقد ہو رہا تھا جس میں تحریک کے کئی اہم راہنما شامل تھے کہ اچانک اسٹیج پر ایک نوجوان نمودار ہوا اس نے روایت سے یکسر ہٹ کر تقریر کی اس کے لفظوں میں جوش ولولہ اور عزمِ بغاوت بدرجہ اتم موجود تھا۔وہ کہہ رہا تھا کہ یہ حکمران لاتوں کے بھوت ہیں یہ باتوں سے مسلمانوں کو حقوق نہیں دیں گے ۔ مسلمانو!اٹھو اور ان سے اپنا حق چھین کر حاصل کرو۔ اس ساحرانہ ، بصیرت آمیز اور فکر انگیز تقریر پر اس نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا اور یہ نوجوان عبدالقدیر کے نام سے شناخت ہوا۔اس نوجوان کی شعلہ بیانی سے کشمیرکے عوام میں زبردست جوش و خروش پیداہوا اور ڈوگرہ استبداد کا خوف ان کے دلوں سے نکل رہا تھا ۔ کشمیر میں بیداری کی یہ نئی لہر دیکھ کر ڈوگرہ انتظامیہ نے عبد القدیر کو بغاوت کے مقدمے میں سینٹرل جیل سری نگر پہنچا دیا۔ عبد القدیر کے ساتھ اسلامیانِ کشمیر کی جذباتی وابستگی سے خوف زدہ ہو کر ڈوگرہ حکومت نے عبد القدیر کے مقدمہ بغاوت کی سماعت عدالت کی بجائے سنٹرل جیل سری نگر میں ہی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقدمہ سے اسلامیانِ کشمیر کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ سارا سری نگر شہر سینٹرل جیل کے ارد گرد امنڈآیا۔ اس دوران نمازِ ظہر کا وقت ہوا ۔ عوام کے اندر ایک شخص نے اذان دی۔ متعصب ڈوگرہ اہلکاروں نے فائز کھول دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بائیس مسلمان شہید ہو گئے۔ اس ظلم و جبر کے واقعے سے کشمیر کے مسلمانوں میں زبردست اشتعال پھیل گیااور دوسرے روز ہزاروں افراد نے شہداکی تدفین میں شرکت کی ۔ بس یہی کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد کا ٹرننگ پوائنٹ تھا کہ جب ان کی قیادت نے یہ فیصلہ کیا ۔ اب انہیں بہتر روزگار ، ترقی اور خوشحالی جیسے کھوکھلے نعروں سے باہر آکر اور مراعات کی بجائے آزادی کشمیر اور شخصی راج کے خاتمے کے لئے جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے ۔ 1931ء کے بعد 13جولائی یوم شہدائے کشمیر کے طور پر منانا کشمیر میں اب ایک مضبوط روایت بن چکی ہے ۔ کشمیری اس لوحِ مزار جس پر ان شہداکے نام کندہ ہیں پر حاضری دیکر اس عزم کے ساتھ اس پر پھول نچھاور کرتے ہیں کہ وہ شہداکے مقدس مشن کی تکمیل کیلئے اپنی توانائیاں اور صلاحتیں وقف کرنے اور اپنا جان و مال قربان کرنے کا اعلان کرتے رہیں گے ۔1931ء جولائی سے آج تک کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد جاری ہے ۔ کیونکہ ڈوگرہ استبداد سے نکل کر وہ بھارت کے چنگل میں پھنس گئے ۔ شہدائے کشمیر کے 22 رکنی کارواں کی تعداد اس طویل عرصے میںلاکھوں تک پہنچ چکی ہے ۔ کشمیر کی اس عظیم قربانی کو دیکھ کر یہ صاف واضح ہو رہا ہے کہ 13 جولائی 1931ء میں کشمیر کے ان فرزندانِ ملت نے شہادت کا جام پی کر اس جدوجہد کو کشمیر کی اگلی نسل تک منتقل کر نے کا سامان فراہم کیا تھا ۔ یوں یہ بات محتاج بیان نہیں کہ آج کشمیرکی جدوجہد 13 جولائی کی قربانی کا ہی تسلسل ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب کشمیر میں ہزاروں 13 جولائی کی داستانیں رقم ہو چکی ہیں کہ جب بھارتی فوج نے لا تعداد سجدہ گزار پیشانیوں کو خون سے رنگین کر دیا ۔ لیکن آج شہدائے 13 جولائی کی ارواح شاداں و فرحان ہونگی کیونکہ اسلامیان کشمیر نے ان کے مشن کو فراموش نہیں کیا۔اس کا ثبوت کشمیر کے طول و عرض میں سجے سات سو سے زائد قبرستان ہیں۔13 جولائی کو اسلامیانِ کشمیر کیلئے یوم تجدید عہد بھی ہے کہ اسلامیانِ کشمیر اس روز اپنے اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ حالات بدل جائیں، دنیا بدل جائے۔