13جولائی1931ء گزشتہ 85 برس سے کشمیری عوام کے احساسات اور جذبات کے آبگینوں پر اپنی ان مٹ نقش ثبت کرچکا ہے۔ تاریخ میں اس دن کو تحریک آزادی کا سنگ میل بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ دن ہے کہ جب نہتے کشمیریوں نے پہلی بارڈوگرہ استبداد کے خلاف اٹھنے اوراپنی آوازبلندکرنے کی پاداش میں اپنے سینوں کو گولیوں سے چھلنی ہوتے ہوئے دیکھا ۔عبدالقدیرنامی ایک مردحر کی للکار نے غلام قوم کو قبائے خون سے لذتِ حریت کی نوید سنائی اور محکومیت کی زنجیروں کو توڑنے کا انمول حوصلہ اورنسخہ اکسیربتادیااورکشمیرمیں برپاآج کی توانااورمضبوط تحریک آزادی 1931ء کاتسلسل ہے اورڈوگرہ استبدادسے بھارتی سامراجیت کے اس دورظلمت تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 6لاکھ کشمیریوں نے اپنالہودیکرتحریک آزادی کوجلابخشی ۔ ریاست کی 90فیصد مسلمان آبادی میں ڈوگرہ مطلق العنانیت کے خلاف سینوں میں جذباب ابل رہے تھے ۔ڈوگرہ راج کے ہاتھوںنمازعید پرپابندی اورقرآن مجیدکی توہین کاایک تازہ واقعہ جموں میں پیش آیاتھا۔ڈوگرہ استبدادسے ریاست کے مسلمانوں کوکیسے نجات دلائی جاسکے اس حوالے سے26جون 1930ء کو سرینگر کی تاریخی اورقدیمی مسجد شاہ ہمدان میں مسلمانوں کا بڑا اجتماع ہوا تھا ریاست کشمیر کی تاریخ کا یہ پہلا سیاسی اجتماع تھا جس میں ریاست کے طول وعرض سے آئے ہوئے ہزاروںکشمیریوں نے شرکت کی ۔ اس اجتماع میں ڈوگرہ استبدادکوروکنے کے لئے رائے طلب کی جارہی تھی۔درایں اثنا عبدالقدیرنامی ایک نوجوان اچانک سٹیج پر آیا اور مہاراجہ کے خلاف باغیانہ تقریر کر ڈالی ۔ اجتماع کے اختتام پرجب لوگ اپنے گھروں کولوٹ رہے تھے توعبدالقدیرکو بغاوت کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا اور 13جولائی 1931ء کو سنٹرل جیل سرینگر کے اندر اس کے مقدمہ کی سماعت تھی ۔کشمیریوں کواپنے اس ہیروکے ٹرائل کاپتاچلاتوہزاروںکشمیری سینٹرل جیل سر ی نگر امڈ آئے ۔ احتجاج و تقریر پر پابندی ہونے کے باوجودوہ اپنے ہیروعبدالقدیرکے حق میں اورہندوڈوگرہ کے استبدادکے خلاف نعرہ زن تھے ۔ وہ مطالبہ کررہے تھے کہ عبدالقدیر کے خلاف بغاوت کے مقدمہ کی جیل کے اندر ہونے والی سماعت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔لیکن ڈوگرہ حکومت اس مطالبے کو ماننے کے لئے تیارنہ تھی۔نمازظہرکاوقت آ ن پہنچا۔عوام کے اس جم غفیرمیں سے ایک مردخدااٹھااور اذان دینا شروع کردی ڈوگرہ فوج نے یہ کہتے ہوئے منع کیاکہ ڈوگرہ مہاراجہ کی طرف سے جیل کے احاطے کے اندر اذان دینے اورنمازاداکرنے کی اجازت نہیں۔لیکن اذان دینے والااللہ کی کبریائی کاڈنکابجاتارہا اسے خاموش کرنے کے لئے اس پرڈوگرہ فوجی اہلکارنے گولی چلادی۔اذان کی تکمیل کے لئے دوسرااٹھا،اسے بھی گولی مارکرخاموش کردیااسی طرح ایک ایک کرکے کشمیرکے22مردان حرنے اذان کوپائے تکمیل پہنچانے کے لئے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیااورڈوگرہ فوج نے سینٹرل جیل سر ی نگر کے فرش اور درو دیوارکوانکے لہو سے رنگین بناڈالا۔ اس سے قبل 1924ء میںسری نگرکے ریشم کارخانہ ایجی ٹیشن پر بھی ڈوگرہ شاہی نے شب خون مارا تھااورایک بڑاسانحہ پیش آیاتھا۔ہندوڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ سمجھ رہاتھاکہ کشمیری مسلمان اس کی بربریت اوراس کے معاندانہ روش کے سامنے دب جائیں گے لیکن ایسانہ ہوسکا۔ہندو ڈوگرہ مہاراجہ کومعلوم نہ تھاکہ سری نگرسینٹرل جیل میں بہایاجانے والایہ لہو اور زندانوں میں بے کس اسیروں اور من حیث القوم ستم رسیدہ کشمیریوں کی آہوں اور سسکیوں سے اس کے جبری دور کااس طرح خاتمہ ہوگاکہ گردش زمانہ سے بالآخراسے جلاوطنی کی زندگی میں موت کو لگے لگانا پڑے گا۔ 13جولائی1931ء کے شہدا کے لہو سے پھوٹنے والی عوامی تحریک جوظلم اور ناانصافیوں اور حق تلفی یعنی غلامی کے سیاہ دھبوں کو اپنے عزم واستقلال کے ہاتھوں سے دھونے اور مٹانے کی ٹھوس مزاحمتی تحریک تھی۔ہندوڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری عوام پر جو استبدادی نظام مسلط کیا ہوا تھا،اس نظام کے شکنجے میںپھنسے کشمیریوں کو سر اٹھاکر جینے اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے سنوارنے کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔اس صورحال سے ریاست کشمیرمیںہندوڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف ایک لاواپک رہاتھاجو13جولائی 1931ء میں پھٹ پڑااورآن واحدمیں 22کشمیری مسلمانوںنے جام شہادت نوش کیا۔تاریخی جامع مسجد سرینگر کے صحن میں ایک جاں بلب شہید آخری ہچکی لیتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے اس وقت کی کشمیری قیادت شیخ عبداللہ سے یہ الفاظ میں یہ کہہ رہاتھاکہ’’ صاحب! ہم نے تو اپنا حق ادا کیا، اب یہ تحریک بطور امانت آپ لوگوں کے سپرد ہے‘‘دراصل یہ قیمتی بول اس منزل کی نشاندہی کاواضح تعین تھا جس کا ان مردانِ حر کو پوری طرح ادراک تھا اور بعد میں انہی الفاظ نے کشمیرکے عوامی اجتماعات ، مساجد اور خانقاہوں میں بیداری کی تحریک چلائی ۔مگربعد میں شیخ عبداللہ ایفائے عہدنہ کرسکااس نے غداری کی وراندراعبداللہ ایکارڈ کرکے سرتاپاہندوستان کے پیلے رنگ میں رنگ گیا۔ تاریخ کشمیرگواہ ہے کہ 13جولائی 1931ء میں جب کشمیر میں ایک زبردست ارتعاش پیدا ہوا تو مغربی تاریخ دان اور محقق السٹرلیمب کے مطابق کشمیر میں تیرہ جولائی1931ء سے لے کر چودہ اگست1931ء یعنی محض ایک ماہ تک ایک ہمہ گیر ہڑتال ہوئی۔ جسے دیکھ کر السٹرلیمب بہت متاثرہوااوروہ یہ کہنے پرمجبورہواکہ اس ایک ماہ کی ہڑتال نے کشمیری عوام کی صفوں میں قوتِ برادشت اور امداد باہمی کا بے لوث جذبہ پیداکیااور انہیںجان لیوا حالات میں بھی جینے کا ایک بہترین قرینہ دیا۔مغربی تاریخ دان اور محقق السٹرلیمب آج زندہ ہوتے توکشمیریوں کے عزم وہمت ،انکی جرات واستقلال ،انکی مردانہ وارللکاراورانکی بیش بہاقربانیوں پرمشتمل تحریک مزاحمت دیکھ کرانہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ضرورایک بصیرت افروزتبصرہ کرتے ۔وہ ضروریہ بات لکھتے کہ کشمیرمیں آج 1931ء سے لاکھ گنازیادہ قربانیاںدی جارہی ہیں اور کشمیری نہ صرف خونین حالات میں بھی اپنی ناک اونچی کر کے جینے کا کرشمہ دکھا رہے ہیں بلکہ دنیاکواپنایہ پیغام سنارہے ہیں کہ اس ملت کاہرفرد آ ہنی قوتوں کا مالک ہے اور اپنی سیاسی تقدیر کا آپ فیصلہ لینے کی جرات سے مالا مال ہے ۔ جولائی1931ء کے شہدا ء کی روحیںریاست کشمیرمیں جاری اس دورکی بربریت کا نقشہ اور اس میں بسنے والے اپنے پس مندگان کے حالات وکوائف اورجابجامزارات شہداء کا مشاہدہ کررہی ہونگی تو یہ یقینی امرہے کہ وہ روحیں تڑپ رہی ہوں گی ، ان کی صدائیںفرش سے عرش تک کی تمام مخلوق کو مضطرب کررہی ہوں گی ،وہ پکارتی ہوں گی کہ 85برس گزرجانے کے باوجود ابھی تمہیں غلامی سے نجات نہ مل سکی۔وہ کہہ رہی ہوں گی کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ڈوگرہ استبدادکے بعدتمہیں بھارتی استبدادنے جکڑلیاہوگا ۔ تم سے 13جولائی1931ء سے آج تک کل ملاکرچھ لاکھ نفوس کی قربانی دیناپڑی اور استبدادسے آزادی کے مشن کی تکمیل نہ ہوسکی ۔یہ قیامتیں جو روز تم پہ ٹوٹ پڑتی ہیں ، ان کا تسلسل ٹوٹتا کیوں نہیں ، بھارتی رام راج کی شکل میںکشمیری مسلمانوں کو چٹ کر نے والا آدم خور کیو ں دندناتا ہر جگہ پھر رہا ہے ؟ یہ متواتر شہادتیں اور یہ جنازے تھمنے کا نام ہی کیوں نہیں لیتے ؟ہم نے یہ شہادتیں مہاراجہ ہری سنگھ کی جگہ نکڑ نکڑ پر ، کونے کونے پر ، کوچے کوچے پر ہزاروں مہاراجوں کو مسلط کرنے کے لئے نہیں دی تھیں، ہم نے ڈوگرہ شاہی تخت کے بدلے رعونت اور استکباریت کے کسی اور تخت کو براجمان ہونے کے لئے اپنے گھروں کویتیم نہیں چھوڑا تھا۔ اور ہاں ریاست کشمیرکی یہ صورتحال دیکھ کر تو ہمارے قبائے خونین اوربھی لہو رنگ ہوتی ہے ۔