کہساروں کا فیض ہے ورنہ کون دیتا ہے دوسری آواز مندرجہ بالا شعر کا خیال مجھے نغمات کہسار دیکھ آیا یہ ارمغان شعر و ترجمہ ہمیں پروفیسر محمد طیب اللہ نے نارووال سے بھجوایا انفرادیت اس کتاب میں یہ کہ انہوں نے منتخب پشتو نظموں کا اردو نثر میں ترجمہ کیا ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ ترجمانی ہے۔ یہ بھی تو آپ جانتے ہیں کہ جہاںندیاں اور چشمے بہتے ہوں وہاں ایک سرور اور ایک نغمگی ابھرتی ہے جو بظاہر تو ان پہاڑی پانیوں کی موسیقی ہوتی ہے مگر ان ندیوں کی تہہ میں پڑے ہوئے پتھر وغیرہ اس موسیقی کا باعث بنتے ہیں۔ اس میں بانسری کی آوازبھی شامل ہو جائے تو ماحول کو چار چاند لگ جاتے یں۔ پتھر میں چشمہ پھوٹنا یا جھرنا نکلنا فطرت کے عوامل میں سے ہے اور اس کی خوبصورتیوں پر دال ہے: پتھر سے چشمہ پھوٹ پڑا میرے سامنے اس سے بھی اشک آنکھ میں روکا نہیں گیا پروفیسر محمد طیب اللہ نے ترجمے کام بہت تن دہی اور صبح و شام کی محنت سے کیا ہے۔ یہ بھی انہوں نے اچھا کیا پشتو نظموں کا نثری ترجمہ کیا کہ ہم مفہوم و معنی سے آشنا ہو جائیں وگرنہ منظوم ترجمہ مترجم کو پابندیوں میں جکڑ لیتا۔ ہر زبان کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اور اپنی روایات جس سے پروفیسر صاحب کماحقہ آگاہ ہیں کہ ان کی مادری زبان پشتو ہے۔ وہ پشتو زبان کی شعری خوبصورتیوں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ایک تو بھائی چارے کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے اردو کو ایک نئے ذائقہ سے روشناس کروانا چاہتے ہیں۔ ان کے تراجم کو نظموں سے الگ کر کے آزاد طور پر بھی پڑھا جا سکتاہے بلکہ جنہیں پشتو نہیں آتی وہ اس کے سوا کیا کر سکتے ہیں وہ اجمل خٹک کی نظم کا ترجمہ دوشیزہ کے نام سے کرتے ہیں تو ابتدائی سطور ہی قاری کو کھینچتی ہیں: ادھر سورج کی شعاعِ اول نمود ہو رہی تھی اور ادھر یہ شعاع گلرنگ گلستان سے نکل رہی تھی وہ بے لاگ آسمان پر اک آہوئے آوارہ اور یہ پختو کی دوشیزہ کا اک باحیا شعلہ تھی ادھر جب اس نے کائنات کو دیکھا تو کھلکھلا کے ہنس پڑی اِدھر یہ حیا کی پتلی مجھے دیکھ کر لجا گئی محمد طیب اللہ کے اس کام کا محرک ایک اوائل عمر کا ترجمہ ہے جو انہوں نے جان کیٹس John keatsکی نظم la belle dame sans merciکا کیا تھا۔ اتفاق سے میں تو یہ نظم پڑھاتا رہا ہوں کہ میرا مضمون ہی انگریزی ہے بہرحال انہیں شفق صاحب نے اچھا مشورہ دیا کہ انگریزی کے تراجم کے بجائے وہ پشتو کی نظموں کے تراجم کریں تاکہ پشتو کی خدمت بھی ہو سکے کیٹس کی نظم کے ترجمے کو بھی کتاب کے آخیر میں شامل کر دیا گیا ہے یہاں بھی پروفیسر صاحب کی انتہائی کاوش نظر آتی ہے کہ ترجمانی کو مناسب الفاظ ڈھونڈ کر لائے جائیں۔ یہ شوق اور محنت کا ثمرہ ہے: جھیل کنارے لہلہاتی گھاس دم توڑ چکی ہے خوش رنگ پرندوں کے چہچہے بھی اکھڑ چکے ہیں اے مرد مسلح تو کیا روگ لگا بیٹھا ہے کہ یوں زعفران سا چہرہ لیے کھویا کھویا سا پھرتا ہے گلہری کا گھونسلہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے فصلیں بھی اٹھ چکی ہیں تو پھر اے مرد مسلح تو کیوں حواس باختہ اور غم سے نڈھال ہے اسرار الرحمن اسرار نے درست لکھا ہے کہ انہوں نے بڑی محنت سے کام لے کر مشکل کو آسان کر دیا ہے۔انہوں نے حسین ترین الفاظ ترکیب کا موزوں تر الفاظ و تراکیب میں ترجمہ کیا ہے اور عروس معنی کے جمال کو اور زیادہ نکھانے کی کوشش کی ہے: آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آئے اور پھر غالب نے بھی کہا تھا کہ ’’کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لئے‘‘ خوش قسمتی سے طیب صاحب کے واستے یہ وسعت اس لئے بھی موجود تھی کہ انہوں نے ترجمانی اور رہنمائی کی آرزو کی۔ اس میں شک نہیں کہ عرب شاعری کا بیان یوں کرتے ہیں کہ جیسے تیرکمان میں رکھ چھوڑا جائے اور نثر کو ہاتھ سے تیر مارنے کے مترادف سمجھتے ہیں، اس لئے نثر میں زور پیدا کرنا مزید دشوار ہو جاتا ہے اور پھر نثر میں شعر کی فضا پیدا کرنا کچھ سہل نہیں۔ نثر کو آراستہ و پیراستہ کرنا اور اس میں اعجاز و اختصار قائم رکھنا خود ایک دقت طلب کام ہے۔بہرحال اسرار صاحب نے طیب صاحب کو داد دیتے ہوئے ایک شعر درج کیا ہے: گر مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے آتش غزل یہ تونے کہی عاشقانہ کیا یہ بھی درست ہے کہ طیب صاحب نے ان نظموں کا انتخاب کیا ہے جن میں رومانی رنگ غالب ہے ظاہر ہے ایسی شاعری میں جذبہ اور وارفتگی کا عنصر ہوتا ہے جو بھر پور زندگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے تشبہات و استعارات کا استعمال خوب کیا ہے تراکیب بھی تحریر کا حسن ہیں۔ معروف شاعر سرور ارمان نے لکھا ہے کہ انہوں نے جب اپنے رسالے زربفت میں ’’دوشیزہ‘‘ نظم شائع کی تو بہت سے تخلیقی خطوط آئے اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کی فرمائش کی گئی۔ خود پروفیسر محمد طیب اللہ لکھتے ہیں کہ ان کی کاوش کا پس منظر یہ ہے کہ دانائے راز حضرت علامہ محمد اقبال نے جب میجر اورونی کی منتخب پشتو نظموں کا انگریزی ترجمہ پڑھا تو وہ خوش حال خاں خٹک کی عبقری شخصیت کے قائل ہو گئے۔ خوشحال خاں خٹک کے بہترین اور عمدہ افکار نے انہیں اپنی طرف مائل کیا اور وہ مرد کہسار کے عالی افکار کو امت مسلمہ تک پہنچانے کے لئے بے قرار ہو گئے اور اپنے خطوط میں یہ افسوس بھی کیا کہ وہ پشتو زبان نہیں جانتے ڈاکٹر خدیجہ بیگم، فیروز الدین نے حضرت اقبال کے مشورے پر ہی خوشحال خاں خٹک کی شخصیت کا انتخاب کیا ان کا پہلا ریسرچ ورک 1940ء میں سامنے آیا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ طیب اللہ صاحب نے بھی اقبال کی آواز پر لبیک کہا اور اپنی بساط کے مطابق یہ کام کر گزرے پروفیسر صاحب نے بڑے خلوص اور انہماک سے یہ کام کیا ہے مجھے قتیل شفائی یاد آ گئے ؎ اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا جو بھی ہے ،نغمات کہسار میں شامل نظمیں پشتو شاعری کے ماتھے کا جھومر ہیں اور ہمارے مترجم، احساسات و جذبات کی ترجمانی میں خاصی حد تک کامیاب رہے۔ یہ بات میں نے نہیں پشتو اور اردو جاننے والوں نے کہی ہے ہم نے تو اچھی نثر کا مزہ لیا کہ الفاظ کے گلدستے سے جگہ جگہ مہک پھیلاتے دکھائی دیے۔ کتاب کے آغاز میں افتخار عارف کا شعر درج ہے: مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے